Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

اے کی رولا اے؟...وسعت اللہ خان

موقر امریکی جریدے فارن افئیرز اور اخبار نیویارک ٹائمز نے گذشتہ ہفتے انکشاف کیا کہ بھارتی ریاست کرناٹک میں ایک بالائے زمین اور زیرِ زمین کمپلیکس تعمیر کر رہا ہے جہاں تھرمو نیوکلیئر ہتھیار (عرف ہائیڈروجن بم) کی تیاری کا کام اطمینان سے کیا جاسکے۔ اس کمپلیکس کی تعمیر دو ہزار سترہ تک مکمل ہوجائے گی۔ انتظام بری فوج کے ہاتھ میں ہوگا لہذا یہ کمپلیکس بین الاقوامی معائنہ کاروں کی اختیاراتی حدود سے باہر ہوگا۔

بھارت اور امریکا کے مابین صدر بش کے دور میں ہونے والے وسیع جوہری تعاون سمجھوتے کی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ( آئی اے ای اے ) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اگست دو ہزار آٹھ میں متفقہ توثیق کی۔ اس توثیق کے بعد اڑتالیس ممالک پر مشتمل بین الاقوامی نیوکلئیر سپلائر گروپ ( این ایس جی ) کی جانب سے بھارت کو جوہری مواد اور ٹیکنولوجی کی بلا روک ٹوک فراہمی کی راہ کھل گئی۔ بھارت کو یہ استثنیٰ اس حقیقت کے باوجود مل گیا کہ وہ بھی اسرائیل اور پاکستان کی طرح جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے این پی ٹی کو تسلیم نہیں کرتا۔

جب بھارت امریکا جوہری تعاون معاہدہ منظوری کے لیے اگست دو ہزار آٹھ میں آئی اے ای اے کے سامنے پیش ہوا تو اس وقت بھی پاکستان اور اس کا سمندر سے گہرا اور ہمالیہ سے بلند دوست چین اور یارِ دیرینہ ترکی آئی ای اے کے رکن تھے بلکہ چین اور ترکی تو نیوکلئر سپلائرز گروپ میں بھی شامل ہیں۔ مگر نہ پاکستان نے آئی اے ای اے کے اجلاسوں میں بطور رکن بھارت امریکا جوہری تعاون سمجھوتے کی توثیق کے عمل کے دوران کھل کے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور نہ ہی بھارت کے اسٹرٹیجک حریف چین نے اس توثیق کی مخالفت کی۔
 لہذا بھارت کے لیے تو بین الاقوامی سطح پر جوہری مواد کی رسائی آزادانہ ہوگئی مگر پاکستان آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں سات برس پہلے تھا۔یعنی نہ وہ جوہری مواد تک آزادانہ رسائی حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی این پی ٹی پر دستخط کیے بغیر بھارت کے برعکس جوہری ٹیکنولوجی کی تجارت کے سلسلے میں کوئی بین الاقوامی استثنیٰ حاصل ہے۔

یہ لمبا اور خشک پس منظر یوں بیان کرنا پڑاکہ ان دنوں اس موضوع پر اقوامِ متحدہ کے جنیوا دفتر میں سابق پاکستانی سفیر ضمیر اکرم اور امریکا میں سابق سفیر حسین حقانی کے درمیان چھیچھا لیدر ہو رہی ہے۔ ضمیر اکرم کا کہنا ہے کہ امریکا بھارت جوہری سمجھوتے کی آئی اے ای اے سے توثیق کی پاکستان نے اس لیے مخالفت نہیں کی کیونکہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے زرداری حکومت کو ممکنہ امریکی ردِعمل سے ڈرا دیا تھا اور زرداری حکومت پاک امریکا تعلقات کے سلسلے میں حقانی کی رائے کو زیادہ اہمیت دیتی تھی۔ جب کہ حسین حقانی کہتے ہیں کہ بطور سفیر یہ ان کا معمول کا فرض تھا کہ میزبان حکومت کے خیالات سے اپنی حکومت کو آگاہ کرتے رہیں۔ مگر حتمی سفارتی فیصلہ سازی واشنگٹن کے سفارتخانے میں نہیں اسلام آباد میں ہی ہوتی ہے۔

بقول حسین حقانی جنیوا میں پاکستان کے سفیر ہونے کے باوجود ضمیر اکرم بھارت امریکا جوہری سمجھوتے کی نہ خود مخالفت کر سکے اور نہ ہی چین سمیت پاکستان کے دوستوں کو ساتھ دینے پر قائل کر سکے لہذا وہ نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے آج سات برس بعد اپنی ناکامی میرے سر منڈھ رہے ہیں اور سستی قوم پرستی کے واشنگ پاؤڈر سے اپنے کپڑے دھو رہے ہیں۔

مجھے یہ تو علم نہیں کہ ضمیر اکرم اور حسین حقانی بھارت امریکا جوہری تعاون سمجھوتے کا سانپ نکل جانے کے سات برس بعد لکیر کیوں پیٹ رہے ہیں اور لڑائی کا وقت گذرنے کے بعد انھیں جو مکے یاد آ رہے ہیں وہ اپنے ہی منہ پر کیوں نہیں مار رہے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں بتا رہا کہ افغانستان، بھارت، امریکا اور جوہری معاملات کی بابت پاکستان کی جو بھی خارجہ پالیسی ہے اس میں عسکری قیادت ہمیشہ سے کلیدی سٹیک ہولڈر رہی ہے۔ بالخصوص قومی جوہری پروگرام و پالیسی آج سے نہیں بھٹو صاحب کے زمانے سے عسکری کنٹرول میں ہے اور اس بارے میں مرحوم غلام اسحاق خان سے زیادہ معتبر گواہی کس کی ہوسکتی ہے۔ مگر جوہری پروگرام پر عسکری کنٹرول کے بارے میں ایک غیر اعلانیہ قومی اتفاقِ رائے ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔

اس تناظر میں کیا کسی ایک سفیر یا کسی ایک سویلین حکومت کے لیے ممکن ہے کہ جوہری معاملات کی بابت پالیسی سازی میں یکطرفہ من مانی کرسکے؟ فوجی قیادت میمو گیٹ اسکینڈل نظرانداز نہیں کرسکی تو بھارت امریکا جوہری تعاون سمجھوتے کی بابت دفترِ خارجہ کی مبینہ غفلت کیسے برداشت کرسکتی تھی ۔سویلین چینلز کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت کو پینٹاگون اور انٹیلی جنس اداروں کے دو طرفہ چینلز کے زریعے بھی تو امریکی موڈ کا علم رہتا ہی ہوگا۔

ایسے ماحول میں یہ بات ناقابلِ فہم لگتی ہے کہ کوئی ایک سفارت کار پاکستان کی داخلہ یا خارجہ نیوکلئر پالیسی پر اثر انداز ہو سکے اور خود ساختہ پالیسی لائنز ڈکٹیٹ کرا سکے۔ اب اگر کسی سبب پاکستان دو ہزار آٹھ میں یہ معاملہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے پلیٹ فارم پر اٹھانے سے چوک گیا یا ادارتی کنفیوژن کے سبب بروقت کوئی اسٹینڈ نہیں لے سکا یا چین اور ترکی سمیت اپنے اتحادیوں کو اس کی مخالفت پر قائل نہیں کر سکا تو سات برس بعد صفائیاں پیش کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے آگے کی جانب دیکھا جائے۔
ویسے کیرئیر ڈپلومیٹس پر مشتمل دفترِ خارجہ کس دور میں ایسی پوزیشن میں رہا ہے کہ اپنا پروفیشنل اور حقیقت پسندانہ تجزیہ حتمی پالیسی سازوں سے اپنے اطمینان کے مطابق منوا سکا ہو؟

کیا لیاقت علی خان نے سوویت یونین کی جانب سے دورے کا دعوت نامہ نظرانداز کرکے سب سے پہلے امریکا جانے کا فیصلہ دفترِ خارجہ کی بریفنگ کی روشنی میں کیا تھا ؟ کیا سیٹو اور سینٹو میں پاکستان کی شمولیت دفترِ خارجہ کی لائن تھی؟ کیا بڈبیر کا اڈہ امریکیوں کو دینے اور وہاں سے جاسوس طیاروں کی روس پر پروازوں کی اجازت دینے کی سفارش دفترِ خارجہ نے کی تھی؟ کیا باسٹھ کی چین بھارت جنگ میں غیر جانبدار رہنے کا مشورہ ایوب خان نے اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کے مشورے سے کیا تھا؟ کیا پینسٹھ میں لڑائی کا فیصلہ وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور دفترِ خارجہ کی مشترکہ رائے تھی؟

کیا یحییٰ حکومت کو یہ بات کسی سفیر، دفترِ خارجہ کی امریکی ڈیسک کے ڈائریکٹر یا اس وقت کے مشیرِ خارجہ نے بتائی تھی کہ ساتواں امریکی بحری بیڑہ اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے نہیں بلکہ بھارتی فوج کشی روکنے کے لیے خلیجِ بنگال کی طرف بڑھ رہا ہے اور چینی فوجی دستے ہمالیہ کی طرف سے سکم اور ارونا چل پردیش کے راستے مشرقی پاکستان تک بس پہنچنے ہی والے ہیں؟

کیا ضیا الحق نے افغانستان میں بے خطر کودنے کا فیصلہ دفترِ خارجہ کی بریفنگ کی روشنی میں کیا تھا؟ کیا یہ بھی دفترِ خارجہ کی رائے تھی کہ کابل میں ایک قومی مصالحتی حکومت کے قیام سے بھی کہیں ضروری ہے کہ نجیب اللہ کو ہر صورت برطرف کرکے خالص مجاہدانہ حکومت قائم کی جائے کہ جس کی قیادت گلبدین حکمت یار کریں؟ کیا بے نظیر بھٹو کے وزیرِ داخلہ نصیراللہ بابر کو یہ بریفنگ کابل میں متعین کسی پاکستانی سفیر نے دی تھی کہ اس وقت طالبان کا قیام و سرپرستی کتنی ضروری ہے؟ کیا کارگل کے فیصلے کے ممکنہ نتائج و عواقب کے بارے میں دفترِ خارجہ سے بھی رائے لی گئی تھی؟ کیا نائن الیون کے ایک ہفتے کے اندر اندر یوٹرن لینے اور پھر امریکی ڈرون کاروائیوں کی مبینہ افادیت پر پرویز مشرف کو کسی وزیرِ خارجہ نے قائل کیا تھا ؟

ایسی بیسیوں مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ پاکستانی فیصلہ سازوں کے نزدیک دفترِ خارجہ ، اس کی رائے اور بریفنگز کی کیا اہمیت ہے۔اڑسٹھ برس میں یہ ادارہ کلیدی پالیسی ساز رہا ہو کہ نہیں البتہ اس نے پوسٹ آفس کے طور پر ہمیشہ شاندار دھلائی صفائی خدمات انجام دی ہیں۔

اس تناظر میں دو سابق سفیروں کا میڈیائی چوراہے پر یہ جھگڑنا کہ آئی اے ای اے کی جانب سے بھارت اور امریکا کے جوہری معاہدے کی توثیق کا ذمے دار حسین حقانی ہے کہ ضمیر اکرم بالکل ایسا ہی ہے کہ تقسیم سے قبل جب ایک جلوس نعرے لگا رہا تھا کہ بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان، برطانوی سامراج مردہ باد، انگریز سے چھینو آزادی۔۔۔تو مقامی میونسپلٹی کے حیران کارکن جیمس مسیح نے اپنے ساتھی انور ڈیوڈ سے پوچھا ’’ اے کی رولا اے ؟ ’’ انور نے کہا ’’ اے دیسی ساڈے کولوں آزادی منگ رہے نے…’’۔

وسعت اللہ خان
بشکریہ روزنامہ 'ایکسپریس'


Post a Comment

0 Comments