Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پاکستان ٹیلی ویژن کا ناقابل فراموش سنہری دور

    پی ٹی وی کے 50 سالوں کا تذکرہ کرنے سے پہلے اس بات کا اعتراف کرلینا چاہیئے کہ شاید کسی کے پاس بھی وہ الفاظ نہ ہونگے جو اس ادارے کی تعریف اُن خوبصورت الفاظ میں کرسکے جسکا وہ حق رکھتا ہے۔ دوسرا ان 50 سالوں میں اُسکا وہ کونسا شعبہ ہوگا جو تعریف کے قابل نہیں، لہذا فی الحال وہاں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں تک ماضی کے ناظرین کی یادیں تو ضرور وابستہ ہیں اور اسی لئے اُس دور کی میڈیا پالیسی کی تعریف بھی کرتے ہیں، جس میں اخلاقیات کی حدود قائم رکھی گئیں تھیں،

 یہی خوبی ’’پی ٹی وی‘‘ کا سنہرا دور بنا اور موجودہ ’’ایم ڈی جناب محمد مالک‘‘ نے اُس دور کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اب بھی بھرپور کوشش کی ہے کہ موجودہ الیکٹرونک میڈیا کے مقابلے کے دور میں پاکستان ٹیلی ویژن اخلاقی و شائستگی کی روایت قائم رکھے۔
 نومبر 1964ء کو پی ٹی وی نے اپنی براہِ راست ’’بلیک اینڈ وائٹ‘‘ نشریات کا آغاز لاہور سے کیا اور پھر مختلف اوقات میں بالترتیب ڈھاکہ، راولپنڈی اور کراچی سے کیا، لہذا آج بھی پاکستان کی تاریخ کا وہ اہم دور سمجھا جاتا ہے۔

 بعد ازاں 1974ء میں کوئٹہ و پشاور میں بھی اس ادارے کا قیام عمل میں آگیا۔ آغاز کے چند سالوں میں کسی کسی گھر میں ٹی وی ہوتا تھا اور وہ بھی ٹیوبوں والا، جس کی چھت پر اُس کا اینٹینا لگ جاتا تھا اور وہاں کے محلے دار شام کے وقت اُس گھر میں اکٹھے ہو کر ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام دیکھتے تھے۔
پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز تقریباً 25 سال تک تو شام 5 اور6 بجے کے درمیان ہوتا رہا۔ سب سے پہلے چند منٹ کیلئے ایک مخصوص موسیقی کے ساتھ علامتی تصویر پیش کی جاتی اور پھر مختلف نوعیت کے پروگرام کم و بیش رات 12 بجے تک جاری رہتے۔ اختتام پر پاکستان کا ’’قومی ترانہ‘‘ بجا کر نشریات بند کردی جاتیں۔ بلکہ بہت سے لوگ جانتے بھی ہیں کہ آغاز کے چند سال پیر والے روز ’’پی ٹی وی‘‘ کی ’’چھٹی‘‘ ہوتی اور اُس دن لوگ اُداس نظر آتے۔
    پی ٹی وی اتوار کو چھٹی والے دن صبح کی نشریات خصوصی طور پر پیش کرتا تھا جس میں حالات حاضرہ پر ’’ترجمان‘‘ کے عنوان سے دلچسپ معلوماتی پروگرام پیش کیا جاتا اور بعد ازاں ایک ’’اردو فیچر فلم‘‘ پیش کی جاتی۔ پھر جنوری 1988ء میں ادارے نے روزانہ کی بنیاد پر صبح 7 بجے سے9 بجے تک ’’صبح بخیر پاکستان‘‘ کے نام سے باقاعدہ نشریات کا آغاز کردیا جس میں میزبانی کے فرائض مستنصر حسین تارڑ اور قراۃ العین حیدر نے ادا کئے۔

بصیرت کے نام سے روزانہ کی ترتیب میں سب سے پہلے حمد و نعت کا پروگرام پیش کیا جاتا تھا۔ اسکےعلاوہ ہفتے بھر کے مختلف اوقات میں بھی تربیتی و معلوماتی نوعیت کے دینی پروگرام پیش کئے جاتے۔ 70ء کی دہائی کے آخری سالوں میں ’اقرا‘‘ کے نام سے پروگرام کا آغاز کردیا گیا اور ساتھ میں عشاء کی اذان نشر کی جانے لگی۔ ’’فرمانِ الہی‘‘ پی ٹی وی نشریات کا آخری پروگرام ہوتا، اس ہی طرح ماہِ رمضان المبارک و محرم الحرم کے پہلے عشرے میں خصوصی دینی پروگرام پیش کر کے یہ ادارہ عوام کو دلی و ذہنی سکون بہم پہچانے کا باعث بنتا۔
بچوں کیلئے ہفتے کے مختلف دنوں میں مشہورِ زمانہ کارٹون ’’پوپائی دی سیلر‘‘ دکھایا جاتا تھا، گوکہ اُس وقت کارٹون کا دورانیہ صرف 5 منٹ ہی ہوتا تھا لیکن اُس کے لیے بھی بچے سارا دن انتظار کرتے تھے۔ وقت گذرنے کے ساتھ مزید مشہور کارٹون بھی پیش کئے جانے لگے جن میں سرفہرست ’’پنک پنتھر‘‘ اور ’’ٹام اینڈ جیری‘‘ رہا۔ ساتھ میں بچوں کیلئے 30 منٹ دورانیے کے ترتیب دیئے ہوئے اُردو کے دلچسپ پروگرام نشر کئے جاتے، جن میں سے چند کا نام آج بھی لیا جاتا ہے، مثلاً شعیب ہاشمی کا اکڑ بکڑ، سچ گپ، ٹال مٹول، انکل سرگم، ہیگا و مائی مصیبتے کے کردار میں ڈھلا ہوا فاروق قیصر کا کلیاں، زینت حق کی میزبانی میں نئی پرانی ایک کہانی، الف لیلیٰ، عینک والاجن، وغیرہ۔
پی ٹی وی ڈراموں کی دُھوم تو ہمارے ہمسایہ ملک میں ہم سے بھی زیادہ رہی بلکہ بعد ازاں دوسرے ممالک میں بھی اُن کی ویڈیوز سے ہمارے ملک کے اس شعبے کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ آغاز میں مشہور ہونے والا ڈرامہ اُچے برج لاہور دے، رہا جس میں اہم کردار محمد قوی نے ادا کیا۔ 70ء کی دہائی کے آغاز میں اداکار خالد عباس ڈار کے دلچسپ جملے ’’متے کے نال دے کے لیکن‘‘ سے مشہور ہونے والا ڈرامہ جزیرہ اور پھر جھوک سیال جسکا یہ ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا ’’پیر سائیں آنداہ اے میٹھے چول کھاندہ اے‘‘ بہت پسند کئے گئے۔ اسی دہائی میں آگے بڑھیں تو مصنفہ حسینہ معین کے لکھے ہوئے ڈراموں میں سے نیلوفر علیم کا مشہورِ زمانہ ’’ شہزوری‘‘ اور روحی بانو کا ’’کرن کہانی‘‘ جس میں اپنے وقت کی مشہور فلمی ہیرؤئن بابرہ شریف بھی نظر آئیں اہم ڈرامے رہے۔

اُنہی کے تحریر کردہ ڈرامے زیر زبر پیش اور انکل عُرفی، جس میں مشہور اداکار شکیل نے اہم کردار ادا کئے ناظرین کی مزید تفریح کا باعث بنے۔ نہ بھولنے والا ڈرامہ ’’خدا کی بستی‘‘ نے اپنا الگ ہی رنگ جمایا۔ ’’آخری شب‘‘ کے عنوان سے مختلف تاریخی ڈرامے معلومات میں اضافے کا باعث بنے۔ ریاض بٹالوی کی کہانیوں پر مبنی ’’ایک حقیقت ایک فسانہ‘‘ کے عنوان سے ڈرامے زندگی سے تعلق رکھنے والے واقعات کی وجہ سے ایک نئی کڑی ثابت ہوئے۔

 بعد ازاں 80 کی دہائی میں اشفاق احمد کے ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ کے نام سے مختلف موضوعات پر بھی دلچسپ ڈرامے پیش کئے جاتے رہے جنکا تسلسل اور ڈرامے کے عنوان سے بھی نشر کیا گیا، پھر انہی کا ایک اور ڈراموں کا سلسلہ ’’توتا کہانی‘‘ بہت مشہور ہوا، شاید اسکی ایک وجہ یہ تھی کہ ’’طوطا‘‘ کی بجائے ’’توتا‘‘ کا لفظ لُغت کے مطابق استعمال کیا گیا۔ افشاں، انا، شمع، سمندر، دُھند، دِن اور خصوصی طور پر پاکستانی فوج کے نشان ِحیدر پانے والی فوجی شخصیات پر ڈرامے بھی اپنی مثال آپ رہے۔ زیادہ تر ڈرامے قسط وار ہوتے اور ہفتے کے کسی ایک مقررہ دن میں 8 سے 9 کے درمیان نشر کئے جاتے۔

پی ٹی وی نے اپنی رنگین نشریات کا آغاز 1976ء میں کیا تو اُسکی وجہ سے اس ادارے کو اور مقبولیت حاصل ہوگئی اور رنگین ڈرامے مزید توجہ کا مرکز بن گئے۔ اسی دوران 1979ء میں امجد اسلام امجد کا تحریر کیا ہوا ڈرامہ ’’وارث‘‘ جب آن ائیر ہوا تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ واقعی پی ٹی وی ڈرامے نے ایک مدت بعد نئی کروٹ لی اور چُلبلی نوعیت کے ڈراموں سے ایک قدم آگے بڑھا دیا۔

اداکارمحبوب عالم کے کردار میں جس خوبصورتی کے ساتھ ملک کے جاگیرداری نظام کی تصویر کشی کی گئی ناظرین اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اُنکے ساتھ منور سعید، فردوس جمال، عابد علی اور شجاعت ہاشمی کے کردار آج بھی لازوال تصور کئے جاتے ہیں، بعد ازاں اس نوعیت کے موضوع عام ہوگئے جن میں سے دہلیز اور سمندر وغیرہ اہم ڈرامے رہے۔ تاریخی ڈراموں میں ’’آخری چٹان‘‘ اور ’’شاہین‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔

     قسط وار ڈراموں کے اعتبار سے حسینہ معین ایک بار پھر بازی لے گئیں اور ’’اَن کہی‘‘، تنہائیاں اور دھوپ کنارے‘‘ نامی ڈراموں نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑے، ان ڈراموں میں شکیل، جاوید شیخ، آصف رضا میر، راحت کاظمی، بہروز سبزواری، شہناز شیخ اور مرینہ خان اپنے عروج پر نظر آئے، لیکن اسی دور کا سب سے اہم ڈرامہ ’’اندھیرا اُجالا‘‘ اپنی پہچان آپ رہا، مختلف جرائم پیشہ کہانیوں پر مشتمل اس ڈرامے میں محمد قوی، جمیل فخری اور عرفان کھوسٹ کی اداکاری ملک کی پولیس پر ایک سوالیہ نشان ثابت ہوئی۔ اس کے ساتھ طویل دورانیہ کے ڈرامے دیکھنے کیلئے 9 بجے کے بعد ناظرین خصوصی اہتمام کرتے کیونکہ اگلا دن چُھٹی کا ہوتا تھا۔

پاکستان ٹیلی ویژن نے مزاحیہ ڈراموں و پروگراموں کو جس شگفتہ مزاح کے ساتھ پیش کیا اُنہیں آج بھی ناظرین نہیں بھول پائے۔ اُن میں سب سے پہلے کمال احمد رضوی کے لکھے ہوئے ڈرامے ’’الف نون‘‘ کا ذکر آتا ہے جس کے مرکزی کردار میں کمال احمد رضوی کے ساتھ اداکار ننھا نظر آئے۔ 70ء کی دہائی میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد 80ء کی دہائی کے آغاز میں یہ ڈرامہ دوسری دفعہ پھر نشر کیا گیا۔ سونا چاندی، آنگن ٹیڑھا، خواجہ اینڈ سنز اور گیسٹ ہاؤس اہم نام ہیں۔ اِس دوران مصنف و شاعر اطہر شاہ خان عرف ’’جیدی‘‘ نے مزاحیہ ڈراموں سے اپنی پہچان بنائی۔ ففٹی ففٹی مزاحیہ خاکوں پر مبنی پروگرام 1979ء میں نشر کرنا شروع کیا گیا اور ایک مدت تک وہ ناظرین کا پسندیدہ کامیڈی پروگرام کہلایا۔

انگلش فلمیں ماضی میں پی ٹی وی کی نشریات کا اہم حصہ رہی ہیں۔ 70ء سے 90ء تک کی دہائیوں کے دوران 8 سے 9 بجے کے درمیان تقریباً جتنی بھی انگلش فلموں کی سیریز پیش کی جاتی رہی ہیں وہ اُس وقت کے ناظرین کو آج بھی یاد ہیں، جن میں سے چند کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ مثلاً اسٹار ٹریک، دی ایونجرز، ہالی وُڈ کے مشہور اداکار اور جیمز بانڈ کے ایک مشہور ہیرو ’’راجر مور‘‘ کی  دی سینٹ جسکے ٹائٹل کے کارٹون کی بھی اپنی شہرت رہی اور اُس دور کے ہر طالب َعلم نے اُسکو اپنی کاپی کے صفحہ پر بنانے کی کوشش کی۔

 دی مین فارم انکل، آئرن مین، سکس ملین ڈالر مین، بائیونک وومن، چپس، نائٹ رائیڈر اور ائیر وولف اس کے علاوہ 30 منٹ دورانیہ کی مزاحیہ یادگار انگریزی فلموں میں ہیرز لوسی، جادو سے بھرپور بی ویچڈ اور کامیڈی جاسوسی گیٹ اسمارٹ مقبول ترین رہیں۔

فیچر فلمیں چاہے اُردو کی ہوتیں یا انگریزی کی پی ٹی وی کی طرف سے بہترین سے بہترین دکھانے کی کوشش کی جاتیں۔ ہر ہفتے کے آخر میں ایک اُردو فلم پیش کی جاتی اور دوسرے ہفتے انگریزی۔ لوگ اُس رات اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر بڑے شوق سے وہ فلمیں دیکھتے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پی ٹی وی گھرانوں کے جوڑ کا دور تھا، کیونکہ زیادہ تر لوگوں کے گھر ٹی وی نہیں ہوتا تھا لہذا لوگ اپنے رشتے داروں کے گھر پر جا کر فیچر فلمیں دیکھتے اور اگلی صبح حلوا پوری کا ناشتہ بھی کرتے تھے۔

اسٹیج شو کا ذکر ہو تو ’’ضیاء محی الدین شو‘‘ سر فہرست نظر آئے گا جو ضیاء محی الدین کی میزبانی کے دوران اُن کے جملے ’’لگے بھی ٹھیکا‘‘ سے عروج پر رہا۔ یہی شو مشہورِ زمانہ اداکار معین اختر اور بنگالی گلوکارہ روُنا لیلیٰ کی پہچان بنا۔ معین اختر اس پروگرام میں آئے ہوئے مہمانوں اور مختلف افراد کی انتہائی خوبصورت انداز میں نقلیں اُتارتے اور رونا لیلیٰ اپنی گائیکی سے شائقین کو متاثر کرتیں۔ اس کے بعد 1975ء میں ’’طارق عزیز‘‘ کے کوئز پروگرام ’’نیلام گھر‘‘ نے پی ٹی وی کی وساطت سے اسٹیج شو میں ایک نیا قدم رکھ دیا جو مقبولیت کے جھنڈے ہی گاڑتا چلا گیا، جسکی کڑی آج بھی ’’طارق عزیز شو‘‘ کے نام سے طارق عزیز ہی پی ٹی وی سے پیش کر رہے ہیں۔

’’کسوٹی‘‘ کے نام سے 20 سوالوں میں جواب بوجھنے پر مشتمل ایک ایسا کوئز پروگرام مرتب کیا گیا، یہ کھیل اِس قدر مقبول ہوا کہ آج بھی طلباء کے درمیان فارغ اوقات میں کھیلا جاتا ہے۔ حمایت علی شاعر اور پھر قریش پور اسکے میزبان رہے اور سوال بوجھنے والوں میں عبداللہ بیگ و افتخار عارف کی جوڑی اور پھر عبداللہ بیگ کے ساتھ غازی صلاح الدین کی جوڑی مشہور ہوئی۔ اس دوران پی ٹی وی نے خواتین کی میزبانی کو بھی اہمیت دیتے ہوئے خوش بخت شجاعت کی میزبانی میں ’’مینا بازار‘‘ کے نام سے اسٹیج شو کا آغاز کیا۔

 جسکے بعد ذکر آتا ہے 1983ء میں انور مقصود کی میزبانی میں اسٹیج شو ’’سلور جوبلی‘‘ کا۔ اسی پروگرام میں فلمسٹار ’’وحید مراد‘‘ سے بطور مہمان جو انٹرویو کیا گیا وہ شاید اُن کی زندگی کا آخری انٹرویو تھا کیونکہ اُسکے بعد نومبر 83ء میں اُنکا انتقال ہوگیا تھا۔ انور مقصود نے آنے والے سالوں میں مختلف ناموں سے مزید مزاحیہ پروگرام پیش کئے جن میں اُنکے ہمراہ خصوصی طور پر معین اختر اور بشریٰ انصاری بھی شامل ہوتے۔

موسیقی کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے بچوں سے لیکر بڑوں تک کیلئے ایسے پروگرام ترتیب دیئے گئے جنکی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ موسیقار سہیل رعنا کی میزبانی میں ’’کلیوں کی مالا‘‘ بعد میں نئے نام ’’سنگ سنگ چلیں‘‘ میں بچوں کو سُر و سنگیت کا سبق دیا جاتا۔ فلمی گانوں کیلئے 70ء کی دہائی میں ’’ہرتان ہے دیپک‘‘ اور 80ء کے عشرے میں ملکہ ترنم نور جہاں کا ’’ترنم‘‘ عوام میں مقبول رہا۔ اسکے علاوہ معروف گلوکاروں کی آوازوں میں غزلوں و ملی نغموں کا گلدستہ پی ٹی وی کی عام و خصوصی نشریات کا حصہ رہا۔

کھیلوں کا شعبہ ہو اور اُن کھیلوں میں کرکٹ، ہاکی و اسکوائش جن میں پاکستان کے کھلاڑیوں کا اپنا ہی مقام رہا کہ میچوں کی کمنٹری ریڈیو پر تو ایک عرصہ سے سُنی جارہی تھی لیکن پی ٹی وی کی انتظامیہ نے جلد ہی وہ سہولت حاصل کرلی جس کے تحت کوشش کی جاتی کہ عوام کو براہ ِراست میچ سے لُطف اندوز کیا جائے۔ یہ کوششیں 1980ء میں رنگ لے آئیں اور پھر وہ دور آ ہی گیا کہ دُنیا بھر میں کھیلے گئے کسی بھی پاکستانی میچ کو براہِ راست مکمل دکھایا جانے لگا۔ اِس سے پہلے بیرونِ ملک میں کھیلے گئے کرکٹ میچ چند مقرر کئے گھنٹوں میں دکھائے جاتے تھے اور باقی میچ کی کمنٹری ریڈیو پاکستان کی طرف سے براہِ راست پیش کی جاتی۔

9 بجے کا خبرنامہ ہو اور پاکستان کی عوام پی ٹی وی کے سامنے نہ ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اِس شعبے کو تو اس ادارے نے آغاز سے ہی اہمیت دی۔ 9 بجے کے ’’خبرنامہ‘‘ میں دن بھر کی ملکی و بین الاقوامی سیاسی، سماجی، معاشرتی، کھیلوں و موسم کی خبریں اس انداز میں پیش کی جاتیں کہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا اپنی خبر سُن لیتا۔ خبریں ہوتیں یا اُن پر تبصرے سب تمیز کے دائرے میں، طرفداری ہو یا مخالفت ہر ایک نام انتہائی آداب و احترام سے لیا جاتا، بلکہ اُس وقت کی نوجوان نسل کی درسگاہ وہی مدبر میزبان و شرکاء تھے جو چاہے سیاست پر بحث کریں یا سماج پر یا کھیلوں وغیرہ پر، اخلاق کا دامن تھامے ہوئے تھے۔

خصوصی ڈاکومینٹری نشریات میں بھی اس ادارے نے اپنا ایک مقام قائم رکھا ہوا ہے۔ ملک میں جب 1970ء کے عام انتخابات منعقد ہوئے تو پی ٹی وی کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا اور تجربہ بھی کم، لیکن اُن انتخابات اور پھر ملک میں ہونے والے تمام عام انتخابات پر جس خوبی کے ساتھ نتائج پیش کئے گئے اُس پر ملک کے ہر طبقے نے اطمینان کا اظہار کیا۔ 1974ء میں پاکستان میں منعقد ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس پر بھی اُس دور میں یادگار براہِ راست کوریج کرنا اس ادارے کا عروج ثابت ہوا۔ ’’کسوٹی‘‘ پروگرام سے شہرت حاصل کرنے والے عبداللہ بیگ نے اس ادارے کی طرف سے بہترین ڈاکومینٹریز بھی پیش کرکے اس شعبے سے وابستہ افراد کیلئے مزید راستے کھولے۔
خراج ِتحسین

پاکستان ٹیلی ویژن کو آج اس مقام تک لانے میں ہر اُس شخص کا کردار اہم سمجھا جانا چاہیئے جو اسکے کسی بھی شعبے میں خدمات انجام دیتا رہا یا دے رہا ہے۔ انتظامیہ سے لیکر ٹیکنیشن تک، قاری سے لیکر نعت خواں تک، اداکار سے لیکر گلوکار تک۔ میزبان سے لیکر مہمان تک اور بہت سے دوسرے، لہذا چند ناموں کا ذکر تعریف کے زُمرے میں گذر چکا ہے اور مزید کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے اُنکے نام ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے بہت سے اہم نام رہ بھی گئے ہیں اس لئے اُن سے گذارش ہے کہ وہ بھی اپنے آپ کو انہی ناموں میں شامل سمجھیں۔

نثار حسین، آغا ناصر، اسلم اظہر، یاور حیات، شہنشاہ نواب، مُنو بھائی، اصغر ندیم سید، سلیم چشتی، شوکت صدیقی، یونس جاوید، منشاء یاد، طلعت حسین، شفیع محمد، سلیم ناصر، فاروق ضمیر، فخری احمد، جمشید انصاری، خیام سرحدی، اسماعیل تارا، توقیر ناصر، علی اعجاز، سہیل احمد، افضال احمد، آغا سکندر، ہمایوں سعید، عدنان صدیقی، قاضی واجد علی، سجاد حسن، لطیف کپاڈیا، محمود علی، قربان جیلانی ، سبحانی با یونس، ظہور احمد، جمال شاہ، ایوب کھوسہ، اسلم لاٹر، حسام قاضی، اورنگ زیب لغاری، ڈاکٹر انور سجاد، نعیم بخاری، دلدار پرویز بھٹی، عمر شریف، عثمان پیرزادہ، ثمینہ پیرزادہ، نعمان اعجاز، محمود اسلم، شبیر جان، سہیل اصغر، سائیں اختر حسین، منیر نیازی، شوکت علی، عالم وعارف لوہار، عالمگیر، محمد علی شہکی، ابصار عبدالعلی، اظہر لودھی، خالد حمید، خالد بٹ، کنول نصیر، ساحرہ کاظمی، طاہرہ نقوی، خالدہ ریاست، مدیحہ گوہر، فریال گوہر، ذہین طاہرہ، طلعت صدیقی، عارفہ صدیقی، عتیقہ اوڈھو، صبا پرویز، ہما حمید، ثمینہ احمد، زیبا شہناز، نگہت بٹ، انجم ناہید، مہناز رفیع، ناہید اختر، شہناز بیگم، ناہید نیازی، ریشماں، بانو قدسیہ، فاطمہ ثریا بجیا، طاہرہ واسطی، لیلیٰ زبیری، شائستہ قیصر،مہ پارہ صفدر۔

عارف جمیل

Post a Comment

0 Comments