Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

زلزلہ‘ انتباہ یا نظام قدرت

قدرتی آفات زلزلہ، سیلاب، طوفان، سونامی وغیرہ دنیا کے ہر خطے میں رونما ہوتے ہیں، ان کی وجوہات، تدارک و تدابیر سے متعلق ہر انسانی سوچ و فکر میں اختلاف نظر پیدا ہونا فطری امر ہے، سیکولر اسماوی نظریہ والے اپنی فکر کے مطابق اس کی سائنسی توجیہ کرتے ہیں اور تجربے و مشاہدے کے تناظر میں مختلف ترقی پسند ممالک میں ہونے والی جدید سائنسی تحقیق کے حوالے سے حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہیں جو اگرچہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے انسان کو عطا کی گئی عقل و فکر، تسخیری قوت کا اختیار کے منافی نہیں۔

بحیثیت مسلمان اسلام اور الہامی نظریہ و عقائد پر ایمان رکھنے والے انسانی تسخیری قوت و سائنسی توجیہ کے انکار نہیں کرتے بلکہ قرآن پاک کے مطابق اس انسانی اختیار و سائنسی توجیہ و عقل فہم کو اﷲ تعالیٰ یعنی خالق کائنات کی جانب سے محدود اختیار قرار دیتے ہیں اور اس فکر کے حوالے اور قرآن پاک کے احکامات و تعلیمات کے مطابق ناگہانی آفات کو عذاب الٰہی کی ایک شکل قرار دیتے ہیں جو کہ قدرت کی طرف سے کسی قوم کے لیے آزمائش یا تنبیہ ہو سکتی ہے۔

حالیہ زلزلے کے حوالے سے میڈیا میں بعض کالم نگار قدرتی آفات کو عذاب الٰہی کی شکل قرار دینے والے علماء کی مخالفت میں ایسی آفات کو محض مادی و سائنسی سوچ تک محدود کر کے عذاب الٰہی سے انکار کی سوچ کو پروان چڑھا رہے ہیں جب کہ ہمیں انسانی سوچ و فکر و جوہر تحقیق و سائنسی وجوہ کو تسلیم کرتے ہوئے اسلامی عقائد و قرآنی تعلیمات سے انحراف کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔
26 اکتوبر کے ایک اخبار میں ’’عقل کی امامت کا دور‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں بھی اسی سوچ و فکر کو بیان کیا گیا ہے 
جس میں کالم نگار تحریر کرتے ہیں کہ ’’کہیں کوئی طوفان تباہی مچاتا ہے، کوئی زلزلہ شہروں کے شہر ہڑپ کر جاتا ہے، سیلاب ہماری جمع پونجی خس و خاشاک کی مانند بہا لے جاتا ہے تو ہمارے معاشرے میں چار سو اس طرح کی نصیحتیں کرنے والوں کی بہتات ہوتی ہے کہ یہ آفت، یہ حادثہ، یہ تباہی در اصل عذاب الٰہی ہے، اپنے گناہوں پر استغفار کرو، آپ نے رب سے معافی مانگو اور توبہ کرو میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر یہ حادثے اور قدرتی آفات خالق کائنات کی طرف سے ناراضگی اور غصے کا اظہار ہیں تو وہاں آسمان کیوں نہیں گرتا جہاں ہم جنس پرستی عروج پر ہے۔

کالم نگار کی یہ دلیل ہی غلط ہے کہ ’’وہاں یہ تباہی کیوں نہیں آتی جہاں (مغربی معاشرہ) ہم جنس پرستی عروج پر ہے‘‘ کیوں کہ مغربی ممالک و معاشرے میں بھی آئے دن ایسی قدرتی آفات بھیانک طور پر آتی رہتی ہیں، سونامی وغیرہ سے بڑی تباہی زیادہ عرصے کی بات نہیں لیکن وہاں اسماوی سیکولر سوچ و فکر کی باعث اسے عذاب الٰہی کی شکل تصور نہیں کیا جاتا۔ وہاں بقول کالم نگار عقل کی امامت ہے اس لیے خالق کائنات کے الہامی نظریہ و عقائد کے بجائے سائنسی توجیہ تک محدود کیا جاتا ہے، جب کہ خالق کائنات کے اعلان کے مطابق بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان و عقیدہ ہے کہ قدرتی آفات عذاب الٰہی کی شکل ہوتی ہیں۔
قرآن پاک میں واضح کر دیا گیا ہے کہ (ترجمہ) ’’کیا نہیں دیکھتے کہ ہم نے ان اقوام سے پہلے کبھی کیسی اقوام تباہ کر ڈالیں، ہم نے ان اقوام کو وہ جاہ و جلال دیا تھا جو تمہیں حاصل نہیں، ان پر چھما چھم بارشیں برستی اور ہر طرف نہریں بہتی تھیں لیکن ہم نے انھیں بد عملی کی وجہ سے مٹا کر ان کا وارث دیگر اقوام کو بنایا‘‘ (سورۃ الانعام6/6) اس آیت قرآنی میں واضح ہے کہ قدرتی آفات کے ذریعے تباہی کی اصل وجہ ’’بد عملی‘‘ ہوتی ہے اس کے علاوہ قرآن پاک کے مختلف سورتوں میں تیز آندھی، زوردار کڑک، زلزلے، قحط سالی، نا اتفاقی، خونریزی، مہلک  وبا  وغیرہ کو عذاب الٰہی قرار دیا گیا ہے اور جن قوموں قوم ثمود، قوم نوح، قوم شعیب، قوم لوط وغیرہ میں جو عذاب آیا ہے۔

اس کی وجوہات میں اﷲ تعالیٰ نافرمانی و سرکشی، شرک، بغاوت، ناپ تول میں کمی، بے حیائی و فحاشی کی کثرت و دیگر معاشرتی برائیاں شامل ہیں۔ قرآن پاک کے ان واضح احکامات و تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں مغربی نظریے کو پروان چڑھانے کے بجائے معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کی اصلاح پر زور دینا چاہیے جن کی باعث ہم خدانخواستہ عذاب الٰہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ آج معاشرے مین ان برائیوں کی کثرت ہی جس کا شکار پچھلی قومیں ہوئی ہیں۔

قرآن پاک میں اکثر ہمیں یاد دہانی کرائی گئی ہے ارشاد ہے کہ (ترجمہ) ’’کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم انھیں سال میں ایک دو مرتبہ کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں، کیا یہ یاد دہانی بھی انھیں اس بات پر آمادہ نہیں کرتی کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر لیں اور نصیحت پکڑیں‘‘ (سورۃ توبہ126) علامہ ابن قیم  فرماتے ہیں کہ ’’دنیا و آخرت میں کوئی عذاب اور بیماریاں ایسی نہیں ہے کہ جس کا سبب گناہ اور نا فرمانی نہ ہو‘‘ علم، عقل اور قلم اﷲ تعالیٰ کی امانت ہے انھیں صحیح فکر و رہنمائی کے لیے استعمال کرنا چاہیے، ہمیں چاہیے کہ ان نا گہانی آفات سے عبرت پکڑیں اور اپنی اصلاح کریں۔

مصیبت و آزمائش کی اس گڑھی میں انسانی اختیار کے مطابق زلزلہ متاثرہ بھائیوں کی ہر ممکن امداد کریں اور ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کریں ایسی آفات سے بے گناہ و معصوم و نیک افراد کا درجہ بلند ہوتا ہے وہ شہادت کا مرتبہ پاتے ہیں اور ہمارے لیے عبرت کا سبق ہے کہ ہم گناہوں سے اجتناب کریں تا کہ عذاب الٰہی سے محفوظ رہ سکیں۔

حشمت اللہ صدیقی

Post a Comment

0 Comments