Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

باحجاب پاکستانی لڑکی نے کیسے اسلاموفوبیا کوشکست دی...

یہ کیسی عجیب بات ہے کہ لاہور کی زنیرہ اسحاق کا محض نقاب والے حجاب پر اصرار کینیڈین قوم کے ایک بڑے حصے کے لئے سنگین معاملہ بن گیا، حال ہی میں سابق ہونے والے وزیراعظم سٹیفن ہارپر نے عام انتخابات میں شکست کو بالکل سامنے دیکھتے ہوئے حجاب کے خلاف قوم کو شدید تعصب میں مبتلا کرکے ووٹ بٹورنا چاہے تاہم انھیں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ زنیرہ کہتی ہیں:’’ ایک معمول سی بات کو غیرمعمولی بنانے کی کوشش کی گئی۔

مجھے سخت افسوس ہوا ہے کہ پوری کی پوری حکومت میرے یعنی ایک فرد کے ایسے عمل کے پیچھے پڑگئی جس کا تعلق میری ذات سے تھا۔ حالانکہ پوری کینیڈین قوم کے بہت سے ایشوز ہیں جن پر حکومتی توجہ کی ضرورت تھی۔ مجھے اس بات پر بھی افسوس ہوا کہ مسٹر ہارپرنے میرے مقدمہ سے متعلق بعض حقائق کواپنے سیاسی فائدے کی خاطر توڑنے مروڑنے کی کوشش کی‘‘۔
29سالہ زنیرہ اسحاق کینیڈا میں تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں، سن2008ء میں انھیں کینیڈین شہریت ملی۔ اب تک کینیڈا میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ پاکستانی وہاں کی شہریت بھی اختیار کرچکے ہیں، اس اعتبار سے زنیرہ کا کینیڈین بننا کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا البتہ حکومت نے ایک انوکھا ضابطہ متعارف کرایا ، جس کے تحت زنیرہ اسحاق سے کہا گیا کہ انھیں کینیڈین شہری بننے کا حلف اٹھاتے ہوئے چہرے سے نقاب ہٹانا ہوگا۔

سن 2011ء سے اب تک چھ لاکھ 80ہزار مسلمان کینیڈین شہریت اختیار کرچکے ہیں، تاہم اس عرصہ کے دوران زنیرہ اسحاق دوسری مثال ہیں جنھیں کینیڈین حکومت نے چہرے کے پردہ کے ساتھ حلف لینے سے روکا۔ یادرہے کہ مسلمان کینیڈین آبادی کا 3.2فی صد ہیں۔چہرے کا پردہ کرنے والی خواتین کی شرح ایک فیصد سے کچھ کم ہے۔

زنیرہ اور ان کے شوہر حافظ محمد اسحاق راسخ العقیدہ مسلمان ہیں، ان کے لئے دین اسلام کے احکامات ہرچیز پرمقدم حیثیت رکھتے ہیں، امیگریشن حکام نے نقاب اتارنے کو کہا تو زنیرہ نے فی الجملہ کینیڈین حکومت کا نیا ضابطہ ماننے سے انکار کردیا اور چہرے کے پردے کے ساتھ ہی حلف اٹھانے پر اصرار کیا۔ یہ معاملہ تنازعہ کی شکل اختیار کرگیا تو زنیرہ نے حکومتی قانون کو عدالت میں چیلنج کردیا۔
زنیرہ نے یہ مقدمہ بہت آسانی سے جیت لیا تو وہ بہت خوش تھی، تاہم جب حکومت نے عدالتی فیصلے کو اگلی عدالت میں چیلنج کردیا توان کا دل امید و بیم کی کیفیت میں مبتلا ہوگیا کہ نجانے بڑی عدالت کیا فیصلہ سنادے۔ تاہم بڑی عدالت نے بھی زنیرہ کے حق میں فیصلہ سنایا تو اس خاتون کی خوشی کااندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پوری حکومت ایک طرف اور زنیرہ اسحاق دوسری طرف۔ عدالت نے انھیں حلف اٹھانے کی اجازت بھی دیدی تھی۔

حکومت عدالت میں ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ حلف اٹھاتے ہوئے نقاب اوڑھے رکھنے سے مفادعامہ کو نقصان ہوگا۔اس کے باوجود حکومت نے کوشش کی کہ عدالت زنیرہ کا حلف اس وقت تک رکوادے جب تک سپریم کورٹ اس مقدمہ میں اپنافیصلہ نہ سنادے، تاہم عدالت نے حکومت کی درخواست مسترد کردی، یوں زنیرہ حلف اٹھاکر باقاعدہ کینیڈین شہری بن گئیں۔

خدشات تو اب بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے تھے کہ ہارپر حکومت سپریم کورٹ میں جانے کا ارادہ رکھتی تھی، تاہم دو عدالتوں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد امید کا پلڑا نسبتاً زیادہ بھاری تھا۔اسی دوران ہارپرحکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ جس کی کامیابی کے تجزیے کئے جارہے تھے۔
وہ تیسرے نمبر کی پارٹی کے ہاتھوں عبرت ناک شکست سے دوچار ہوگئی۔ زنیرہ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا جسے حکومت نے مسئلہ بنا لیا۔ کینیڈین آئین کے تحت حکومت کا یہ کام نہیں کہ وہ شہریوں کو ایسی باتوں کا پابند کرے۔ اس تنازعہ میں ہرلمحہ حکومت کو خفت کا سامنا کرنا تھا، زنیرہ کا کیس باقی دنیا والوں کی نظروں میں آچکا تھا۔

ہارپر حکومت و زنیرہ اسحاق کیس اس قدر اہمیت اختیار کرگیا کہ عدالتی فیصلے کے بعد جس روز زنیرہ نے حلف اٹھایا تو بڑے ٹیلی ویژن چینلز نے بریکنگ نیوز کے طور پر خبر نشر کی کہ زنیرہ اسحاق کینیڈین شہری بن گئیں، انھوں نے مقدمہ جیت کر شہریت کاحلف اٹھالیا۔‘‘ دوسری طرف کینیڈین حکومت ہار ماننے کو تیار نہیں تھی۔

اسی دوران انتخابی مہم بھی چلنے لگی۔ رائے عامہ کے مختلف جائزوں میں برسراقتدار پارٹی کو تیسری پوزیشن مل رہی تھی۔ تب وزیراعظم ہارپر نے زنیرہ اسحاق کیس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ایک بار پھر مختلف اداروں نے جائزہ لیا کہ عوام کا اب کنزرویٹو پارٹی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہا گیا کہ وزیراعظم ہارپر نے سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کرکے میلہ ہی لوٹ لیا ہے اور ایک بار پھر تیسری سے پہلی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔
میڈیا بھی انتخابی عمل سے کئی روز پہلے کینیڈین ووٹرز کو باور کرانا شروع کردیا کہ وزیراعظم ہارپر نے حجاب کو ایشو بنا کے انتخاب سے قبل ہی اپ سیٹ کردیا، لوگوں کی اکثریت حکمران جماعت کی پشت پر کھڑی ہوگئی ہے۔ کہا گیا کہ   82فیصد کینیڈین چہرے کے پردے پر پابندی چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حجاب(نقاب) کینیڈین اقدار کے برعکس ہے اور اس(حجاب) کی بنیاددراصل عورت مخالفت پر ہے۔ یہ بالکل غلط ہے کہ ایک فرد کینیڈین خاندان کا حصہ بنتے ہوئے اپنی شناخت چھپائے‘‘۔

اپوزیشن کا کہنا تھا کہ نقاب کو ایشو بناناسخت قابل مذمت اقدام ہے۔یہ ایک غیرمتعلقہ بات تھی جسے سیاست میں گھسیٹا گیا۔یہ ایک خطرناک مثال بنے گی، جس سے کینیڈا کے ملٹی کلچرل ازم کو نقصان پہنچے گا۔ ہارپر حکومت حجاب کو مسئلہ بنا کے ان اصل مسائل پر پردہ ڈالنے کوشش کررہی ہے جو لوگوں کی روزمرہ زندگی کو بری طرح متاثر کررہے ہیں۔

نیشنل کونسل آف کینیڈین مسلمز نے بھی وزیراعظم پر کڑی تنقید کی کہ ہم معیشت کی بات کر رہے تھے ، ہم ماحولیات کی بات کررہے تھے، ہم لوگوں کے مستقبل کی بات کررہے تھے۔اور یہ ایک خاتون کے حجاب پر اکڑے ہوئے تھے۔ اگر ایک خاتون دو منٹ کیلئے اپنے ڈھانپے چہرے کے ساتھ شہریت کا حلف اٹھانا چاہتی تھی تو یہ کوئی ایشو نہیں تھا، لیکن ہارپر حکومت نے ایک نان ایشو کو ایشو بنالیا، اسے انتخابی مہم کے دوران سب سے بڑا مسئلہ بنانے کی کوشش کی۔
تجزیہ کار کہہ رہے تھے کہ مسلمان مخالف مہم چلا کر کنزرویٹو پارٹی نے ان علاقوں میں بھی اپنی دھاک بٹھا دی ہے جہاں اس کے صفایا ہونے کی باتیں کی جارہی تھیں۔

حکومت نے شامی مہاجرین کے مسئلہ پر بھی مسلمان مخالف موقف اختیار کرکے ہیرو بننے کوشش کی۔حکومت اور اس کے حامی تجزیہ کاروں کاکہنا تھا کہ نقاب سے لے کر شامی مہاجرین کے معاملہ تک، اسلام کو کینیڈا میں منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں سے اس قدر شدید تعصب کا مظاہرہ کررہے تھے کہ حکمران پارٹی کے ایک رہنما نے زنیرہ اسحاق کانام لے کر کہا کہ انھیں اپنے اسی جہنم میں رہنا چاہئے جہاں سے ان کا تعلق ہے۔

کینیڈا میں اسلاموفوبیا

ملٹی کلچرل ازم کے دعوے دارکینیڈا میں اسلام کے خلاف پاگل پن میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہاہے۔کنزرویٹو پارٹی کا رویہ ان جرائم میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا تھا ۔ جس ملک میں مسلمانوں پر حملے بڑھتے جارہے ہوں، وہاں برسراقتدار گروہ کی طرف سے کتوں کو ہلاشیری دینے پر مبنی رویہ غیرمعمولی نقصانات سے دوچار کرتا ہے۔

کینیڈا میں ان مسلمانوں کو بھی نہیں بخشا جارہا جو صدیوں سے یہاں کے باسی ہیں۔ مثلاً 30سالہ سفیرہ میریمن کا خاندان 16ویں صدی سے کینیڈا میں آباد ہے، تاہم گزشتہ دنوں جب چہرے کا پردہ کرنے والی سفیرہ اپنی چار اور نو سالہ ، دوبچیوں کے ساتھ خریداری کے لئے ایک سٹور پر گئی توایک شخص نے اس کا راستہ روک لیا، پھر وہ آگے بڑھا اور زوردارکہنی سفیرہ کے کندھے پر رسید کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔آپ کے لئے اندازہ لگانا مشکل نہیں، جب اس ملک کا وزیراعظم چہرے کے پردے کے خلاف اپنے منہ سے جھاگ نکالے گا تو اس معاشرے میں اسلاموفوبیا میں کس خطرناک حد تک اضافہ ہوگا اور مسلمانوں کے خلاف جرائم کس تیزی سے بڑھیں گے۔

سفیرہ اور اس کی والدہ عیسائی تھیں، سفیرہ نے یونیورسٹی سے گریجویشن کی، پھر وہ جزوقتی ماڈلنگ کرنے لگی ۔اس دوران اس نے ایک مسلمان سے شادی کرلی۔تین برس قبل اس نے اسلام قبول کرلیا، پھر محض ایک برس قبل چہرے کا پردہ شروع کیا۔ اس نے حجاب شوہر کے کہنے پر نہیں بلکہ خالصتاً اپنی مرضی سے کیا۔

وہ کہتی ہیں:’’میرا شوہر کہتاتھا کہ پردہ نہ کرو، نہ کرو، نہ کرو۔شوہر کو خدشہ تھا کہ اس کی بیوی کو پردہ کرنے کی وجہ سے نفرت کا نشانہ بنایا جائے گا۔ میں نے یہاںکبھی کوئی ایسی خاتون نہیں دیکھی جسے چہرے کا پردہ کرنے پر مجبور کیا گیا ہو،سب نے ایسا اپنی مرضی سے کیا۔ لوگوں کی اکثریت جانتی ہی نہیں کہ اسلام خواتین کو کس قدر بلند درجہ کا احترام عطا کرتا ہے۔ اسلام مختلف انداز میںعورت کی حفاظت کا اہتمام کرتا ہے‘‘۔ سفیرہ نے اب ایک گھر میں فٹنس سنٹر قائم کیا ہوا ہے جو صرف خواتین کے لئے مخصوص ہے۔

اسلام کے خلاف تعصب اور زہر نئی نسل کی رگوں میں بھی تیزی سے اتارا جارہا ہے۔سفیرہ پر حملے سے دوہفتے قبل مانٹریال میںدو ٹین ایجر زنے ایک مسلمان حاملہ خاتون کے سر سے سکارف اس برے انداز میںاچانک کھینچا کہ وہ گر گئی۔
کینیڈا کے ایک صوبے کیبک میں علیحدگی پسند پارٹی ’کیبیکس پارٹی‘ نے عزم ظاہر کیا کہ وہ برسراقتدار آکرسرکاری ملازمین کے لئے مذہبی ملبوسات پہننے پر مکمل پابندی عائد کردے گی۔یہاں کے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے گزشتہ برس جاری ہونے والے سرکاری اعداودشمار کے مطابق مسلمانوں پر سال 2014ء میں ہونے والے حملے 2013ء کی نسبت 20فیصد زیادہ تھے۔

سن دوہزار تیرہ میں45فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیاتھا، تاہم دوہزار چودہ میں65فیصد۔ کینیڈا میں کسی دوسرے گروہ کے خلاف جرائم اس قدر تیزی سے نہیں بڑھ رہے ہیں جتنی تیز لہر مسلمانوں کے خلاف ہے۔تاہم صوبائی انتخابات میں قوم نے اس پارٹی کو اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا،یوں اس کے مذموم عزائم بھی چکنا چور ہوگئے۔ یہی معاملہ اس بار کنزرویٹوپارٹی کے ساتھ ہوا۔

زہرہ اسحاق کا کہنا تھا :’’میں سخت صدمہ سے دوچار ہوئی ہوں۔ میرے ذہن میں کینیڈا کی جو تصویر تھی، موجودہ کینیڈا اس تصویر کے مطابق نہیں ہے۔ مجھے پتہ چلا تھا کہ یہ وہ ملک ہے جہاں دوسروں کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ معلوم نہیں یہ (نقاب کے مخالفین) میری بات کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں‘‘۔
سفیرہ اپنے ہم وطنوں سے کہتی ہیں:’’مفروضوں پر زندگی نہ گزاریں، اپنے لفظوں اور ہاتھوں سے لوگوں پر حملے نہ کریں بلکہ ہم سے پوچھیں کہ ہم حجاب کے ساتھ کیسا محسوس کرتی ہیں ، ہم ایسے سوالات کے جواب دیتے ہوئے خوشی محسوس کریں گی، ہم چاہتی ہیں کہ آپ ہم سے پوچھیں۔

سفیرہ کی والدہ مسز چیتیونوف نے اپنی بیٹی کے نقاب کو قبول کیا۔ حالانکہ وہ عیسائی ہیں۔ ان کا کہنا تھا:’’ یہ کینیڈا ہے، میں عیسائی ہوں اور میری بیٹی مسلمان۔ چہرے کا پردہ، اس کا اپنا فیصلہ ہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں، ہمارے باہمی تعلقات کو خواہ مخواہ کے خوف کی نذر نہ کریں۔ میری بیٹی پر جو حملہ ہوا، اس کا مجھے بہت عرصہ سے خدشہ تھا کیونکہ یہاں لوگوں میں بہت زیادہ نفرت بھر گئی ہے۔ میں کہتی ہوں کہ لوگ اپنا خوف ختم کریں، وہ اپنی اس روش کو تبدیل کریں جس کے تحت وہ لوگوں کے ذاتی معاملات کو قبول نہیں کرتے، لوگوں کو برداشت نہیں کرتے‘‘۔

عبید اللہ عابد

Post a Comment

0 Comments