Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

نواز شریف کا لبرل پاکستان؟

کینیڈا کے 43 سالہ نومنتخب وزیرِ اعظم جسٹین ٹروڈو نے چار روز قبل 30 رکنی کابینہ دنیا کے سامنے پیش کی جس میں 15 مرد اور 15 خواتین وزرا ہیں۔
کسی صحافی نے پوچھا 15 مرد تو سمجھ میں آتے ہیں مگر 15 خواتین کچھ زیادہ نہیں ہوگئیں؟ نئے وزیرِ اعظم نے کہا بھائی یہ 2015 کی کابینہ ہے، اور جیسا کینیڈا اس وقت ہے ویسی ہی کابینہ ہے۔

جسٹین ٹروڈو اپنی کابینہ کو جنسی و نسلی اعتبار سے اتنا مساوی و رنگا رنگ نہ بھی بناتے تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔کیونکہ کینیڈا بہرحال معیارِ زندگی کے اعتبار سے چوٹی کے دس ممالک میں شامل ہے۔
شہریوں کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں۔کوئی خاص نسلی و مذہبی و سیاسی بے چینی بھی نہیں۔ملک کی 78 فیصد آبادی سفید فام اور 68 فیصد لوگ مسیحی ہیں۔
پھر بھی نئے وزیرِاعظم نے کیوں ضرورت محسوس کی کہ اپنی کابینہ میں ایک مسلمان خاتون ( مریم منصف ) کو رکھ لیا جائے جو افغانستان سے ابھی 20 برس پہلے ہی کینیڈا آئی ہیں۔

کسی زمہ دار سفید فام کرسچن کینیڈین کے بجائے ایک سکھ ہرجیت سنگھ پر وزارتِ دفاع جیسے حساس قلمدان کا بھروسہ کر لیا جائے۔ تین دیگر سکھوں یعنی نودیپ سنگھ بینس کو سائنس و اقتصادی ترقی، امرجیت سوہی کو تعمیرات اور میڈم ہردیش چگھڑ کو سیاحت و سمال بزنس جیسی اہم وزارتیں سونپ دی جائیں۔
اتنے سکھ تو بھارتی کابینہ میں نہیں جتنے اس سمے کینیڈا میں وزیر ہیں۔ نئی کابینہ میں شامل خاتون وزیرِ قانون اور بحری معاملات کے وزیر کا تعلق کینیڈا کے اصلی نسلی انوک قبیلے سے ہے۔اس واقعہ پر انوک قبیلہ بھی حیران ہے۔
نئے وزیرِ اعظم نے کیوں ضرورت محسوس کی کہ اپنی کابینہ میں ایک مسلمان خاتون کو رکھ لیا جائے؟
نئی پارلیمنٹ میں 19 بھارت نژاد شہریوں کے علاوہ دو پاکستان نژاد خواتین ( اقرا خالد اور سلمی زاہد ) بھی منتخب ہوئی ہیں۔ یوں انگریزی اور فرانسیسی کے بعد کینیڈین پارلیمنٹ کی تیسری اہم زبان پنجابی ہے۔

دریں اثنا کینیڈا سے گیارہ ہزار کلومیٹر پرے پاکستان میں وزیرِ اعظم نواز شریف نے غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’جمہوری و معاشی سفر میں کئی دھچکوں کے بعد پاکستانی قوم نے قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ اس کی منزل ایک لبرل ڈیموکریٹک پاکستان ہے۔ ایسا ملک جہاں کوئی بھی پیچھے نہ رھ جائے اور نجی شعبہ پھلے پھولے۔ 
اگر تو نواز شریف نے غلطی سے کسی اور کا مسودہ نہیں پڑھ دیا تو یہ بیان خوش آئند ہے۔

مگر لبرل اور ڈیموکریٹک ریاست کا ہدف حاصل کرنے کا راستہ خاصا کھٹن ہوتا ہے۔ یعنی ایسے نظام کی تشکیل جس میں تمام شہری خود کو ریاست نامی کمپنی کا شئر ہولڈر سمجھ سکیں۔ بلا امتیازِ مذہب و ملت و نسل محسوس کر سکیں کہ وہ واقعی اول درجے کے پاکستانی ہیں اور ریاست ان کے لیے اور وہ ریاست کے لیے یکساں اہم ہیں۔

سنہ 2015 میں میاں صاحب کے ملاحظے کے لیے ترقی کے دو ماڈل حاضر ہیں۔
ایک تو کینیڈین ماڈل جس میں ریاست نے اکثریت کی دھونس دیے بغیر ازخود محسوس کیا کہ تمام کینیڈینز کو مذہبی اقلیت و اکثریت اور کالے گورے کے چکر میں پڑے بغیر یکساں نمائندگی کا احساس دلانا ہے۔دوسرا ماڈل چینی و ترک ہے، یعنی سیاست پر ریاست کا تسلط جوں کا توں رہے مگر دیگر شعبوں کو بیرونی و اندرونی سرمایہ کاری و ترقی کے لیے کھول دیا جائے۔
 جیسے جیسے پاک چائنا اکنامک کاریڈور بڑھتا جائےگا ویسے ویسے پاکستان بھی لبرل ہوتا جائے گا۔

ویسے تو مجھ جیسوں کی خواہش ہے کہ وزیرِاعظم ایک لبرل، ڈیموکریٹک ترقی یافتہ پاکستان بنانے کے لیے کینیڈین ماڈل پر غور فرمائیں۔ لیکن چین و ترکی کے مقابلے میں کینیڈا ذرا دور پڑتا ہے۔

قرائن بھی بتا رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم کے ذہن میں اگر ڈیموکریسی اور اقتصادی ترقی کی شادی کا کوئی تصور ہے بھی تو وہ شاید ترک چینی ہے۔اس ماڈل کو اپنانے میں یہ سہولت ہے کہ پسماندگی کا سانپ بھی مرجاتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔ جیسے جیسے پاک چائنا اکنامک کاریڈور بڑھتا جائےگا ویسے ویسے پاکستان بھی لبرل اور ڈیموکریٹک ہوتا جائے گا۔

پہلے بھی ہم دوسروں کی ضروریاتی ’فرمیش‘ پر کبھی لبرل، کبھی بنیاد پرست اور پھر نیم لبرل ہوتے آئے ہیں۔اس بار اپنی خاطر اپنی ضرورت سے ہی سہی۔ ہوسکتا ہے اس بار واقعی کامیاب ہو جائیں۔

ویسے بھی لیبارٹری کو تجربے کا کیا ڈر

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام 

Post a Comment

0 Comments