Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

افغانستان ۔ کس کی جیت ، کس کی ہار

جانے والے کو گالی دینا اور آنے والے کو زندہ باد کہنا ہمارا شیوہ بن گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ نہ دینے کے سوا پرویز مشرف کے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ ان کی جگہ آصف زرداری ہوتے، عمران خان ، میاں نوازشریف ، سراج الحق ، عمران خان یا مولانا فضل الرحمان ہوتےتو مجموعی طور پر فیصلہ وہی کرتے جو پرویز مشرف نے کیا۔ جس معاملے میں امریکہ کیساتھ یورپ، روس، چین، سعودی عرب اور ایران سب یک زبان ہوں، اس میں پاکستان جیسا ملک جو اس واقعے تک طالبان کا سپورٹر بھی تھا، کیسے مخالف کیمپ میں جاسکتا یا پھر غیرجانبدار رہ سکتا تھا۔

غلطی ساتھ دینے کی نہیں تھی بلکہ پرویز مشرف کا اصل قصور یہ تھا کہ انہوں نے امریکہ کیساتھ معاملہ صاف نہیں رکھا اور شفافیت سے کام نہیں لیا ۔ پاکستان کو نائن الیون کے بعد جن تباہیوں اور رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑا ، اس کی وجہ یہ تھی کہ تین بنیادی سوالوں کا جواب تلاش کئے بغیر پاکستان اس جنگ کا حصہ بنا رہا۔ پہلا سوال یہ تھا کہ امریکہ ہمارا دوست ہے یا دشمن ؟۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ طاّلبان ہمارے لئے اثاثہ ہیں یا پھر چیلنج؟اور تیسرا سوال یہ تھا کہ افغان حکومت کی مضبوطی ہمارے مفاد میں ہے یا اس کی کمزوری ؟۔پرویز مشرف صاحب کی حکومت اگر ان تین سوالوں کا جواب تلاش کرکے خارجہ اور داخلہ پالیسیاں بناتی تو مجھے یقین ہے کہ ہمیں ان تباہیوں اور رسوائیوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا جن کاپچھلے چودہ سال میں کرنا پڑا۔
المیہ یہ ہے کہ چودہ سال بدترین نتائج بھگتنے کے بعد اب جبکہ افغانستان کے مستقبل کی نئی صورت گری ہورہی ہے ، ایک بار پھر ہم وہی غلطی دہرانے جارہے ہیں ۔ ہم امریکہ کے اتحادی بھی ہیں اور اس کی آنکھوں کا کانٹا بھی ۔ ہم افغان حکومت کے قریب ترین حلیف بھی ہیں اور نمبرون حریف بھی ۔ ہمارے ادارے پاکستان میں طالبان سے برسرپیکار بھی ہیں اور افغانستان کے اندر ہمیں طالبان کا سب سے بڑا سرپرست بھی سمجھا جارہا ہے ۔ ہم افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نہ صرف سب سے بڑے وکیل ہیں بلکہ اس عمل میں معاونت بھی کررہے ہیں لیکن پاکستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کو جرم عظیم سمجھتے ہیں ۔ آج بھی اگر ہم نے آنکھیں نہ کھولیں اور چند بنیادی سوالوں کا جواب تلاش کئے بغیر اسی طرح اندھی جنگ اور اندھی سفارت کاری جاری رکھی تو امریکہ کی ہار اور بظاہر طالبان کی جیت کے باوجود ہم جیت نہیں سکتے بلکہ دہشت ، جنگ ، بدنامی اور سفارتی تنہائی ہمارا مقدر رہیں گی۔

پہلا سوال یہ ہے کہ خطے کی تزویراتی (اسٹرٹیجک) سیاست میں ہمیں اب امریکی اور مغربی کیمپ میں رہنا ہے یا کہ پھر چین اور روس کے کیمپ میں ؟۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت یا وہاں پر قائم سیاسی نظام کا استحکام ہمارے فائدے میں ہے یا کہ اس کی کمزوری ؟۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کا دوبارہ عروج پاکستان کے مفاد میں ہے یا نہیں ؟۔اس ضمن میں ایک ضمنی سوال یہ ہے کہ افغان اور پاکستانی طالبان کا آپس میں حقیقی رشتہ و تعلق کیا ہے اور افغانستان کے اندر (بالخصوص پاکستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں) طالبان کی موجودگی یا کشیدگی کے ہوتے ہوئے کیا پاکستان میں مکمل امن آسکتا ہے؟۔ چوتھا سوال یہ کہ ایران ہمارا حریف ہے یا حلیف؟۔ ان بنیادی سوالوں کا جواب تلاش کئے بغیر اگر ہم خارجہ محاذ اور بالخصوص خطے سے متعلق آگے بڑھیں گے تو ہماری پالیسیاں اسی طرح کنفیوژن کی شکار رہیں گی جس طرح کہ اس وقت شکار ہیں۔

بلاشبہ خارجہ سفارت کاری میں بلیک اینڈ وائٹ کے انداز میں معاملات طے نہیں ہوتے لیکن کم از کم بنیادی اہداف اور دوست دشمن کی تمیز واضح ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ ایک روز ڈاکٹر اشرف غنی پورے پاکستان کا ہیرو ہو اور دوسرے دن انہیں تمام برائیوں کی جڑ باور کرایا جارہا ہو۔ یہ نہیں ہوتا کہ ہندوستان کیساتھ تعلق کی بنیاد پر تو برادر اسلامی ملک افغانستان دشمن قرار پائے لیکن ایران ہر حوالے سے ہندوستان کا اسٹرٹیجک اتحادی ہوکر بھی برادر اسلامی ملک اور دوست قرار پائے۔ اسی کنفیوژن کا مظاہرہ کرنا ہو تو قندوز پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان اور پاکستان کے اندر ردعمل ملاحظہ کیجئے۔ ایک طرف افغان میڈیا میں اس کا سارا ملبہ پاکستان اور اس کے اداروں پر گرایا جارہا ہے اور دوسری طرف پاکستان میں فرسودہ نظریات کے حامل بعض تجزیہ کار اسے افغانستان میں دوبارہ طالبان کی حکمرانی کا آغاز قرار دے رہے ہیں حالانکہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن کسی بھی فضائی قوت کی موجودگی میں ماضی کی طرح طالبان کا دوبارہ افغانستان کا مطلق حکمران بننا ناممکن ہے ۔

جہاں تک میری ناقص رائے کا تعلق ہے تو قندوز پر غیرریاستی عناصر کا قبضہ (میں سوچ سمجھ کرطالبان کا لفظ استعمال نہیں کررہا) پاکستان کو سبق سکھانے کے امریکی ، بھارتی اور ایرانی منصوبے کا آغاز ہے ۔ ایسا ہر گز نہیں کہ طالبان کا کوئی رول نہیں بلکہ بظاہر وہ حملے کی قیادت کررہے تھے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ جب طالبان نے دیکھا کہ ڈرگ مافیا اور دیگر مسلح عناصر کے لئے قندوز کو تر نوالہ بنایا جارہا ہے تو انہوںنے اس خوف سے کہ سارا کھیل کچھ اور قوتوں کے ہاتھ میں نہ چلا جائے خود بھی اس میدان میں اترناضروری سمجھا اور اسی خوف سے طالبان کو سپورٹ کرنے والی خفیہ قوتیں بھی ان کی مدد کرنے لگیں۔ قندوز کے دو اضلاع ایک ماہ قبل حکومت کے ہاتھ سے نکل چکے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ اب جو کابل سے نئے دستے وہاں بھیجے گئے اور امریکی فضائی قوت بھی میدان میں آئی تو شہر کے سقوط سے پہلے گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران ایسا کیوں نہیں کیا گیا۔

قندوز صوبے کے گورنر عمر صافی جو خود کارروائی سے قبل پراسرار دورے پر تاجکستان چلے گئے تھے کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی ماہ پہلے مرکزی حکومت کو تحریری طور پر آگاہ کیا تھا کہ اگر مزید فوج نہ بھیجی گئی تو قندوز ہاتھ سے نکل جائے گا لیکن مرکز سے کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہلمند جیسے کم آبادی والے صوبے میں تو بیس ہزار کی فوج رکھی گئی ہے لیکن قندوز صوبے میں جنگ کے باوجود ان کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم تھی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس موقع پر امریکہ اور اس کے اتحادی افغان حکومت کو کمزور کرکے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ وہ لوگ احمقوں کی جنگ میں رہتے ہیں کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی افغانستان کو مکمل طور پر بھلا رہے ہیں ۔

 اپنے اڈوں کی موجودگی کے لئے افغان حکومت سے اس نے اگلے دس سال کا معاہدہ کررکھا ہے ۔ مکمل امن کی صورت میں افغان عوام اور خطے کے ممالک ان اڈوں کے خلاف آواز بلند کرسکتے ہیں لیکن اب قندوز کے واقعہ کے بعد خود افغان منت کرنے لگے ہیں کہ امریکہ اڈوں اور ٹرینرز کے ساتھ جنگی فوج بھی رکھے ۔ لیکن امریکی خود اڈوں میں محدود رہ کر سارا معاملہ اپنے کنٹریکٹرز کو سونپنا چاہتے ہیں۔

جب مشرقی اور شمالی صوبوں میں طالبان اور داعش وغیرہ موجود رہیں گے تو
 کوئی بھی امریکی اڈوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائے گا۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ ہندوستان اور ایران کی مدد سے بڑی ہوشیاری کے ساتھ جنگ کو افغانستان کے جنوب اور مرکز سے نکال کر شمال اور مشرق میں منتقل کررہا ہے ۔ دوسری طرف داعش جس کا فطری ٹھکانہ افغانستان کا جنوب ہونا چاہئے تھا ۔ مشرقی اور شمالی علاقوں میں جڑ پکڑ رہا ہے ۔

 ننگرہار کے بعد اب وہ کونڑ اور بدخشان میں بھی سامنے آنے لگا ہے ۔ اسی طرح وزیرستان سے نکلنے والے ازبک، تاجک اور چینی جنگجو بھی قندوز، بدخشان، کونڑ اور نورستان وغیرہ منتقل ہوگئے ہیں ۔ اب قندوز اور بدخشان کے درمیان میں صرف تخار صوبہ ہے ۔ بدخشان میں پہلے سے ایک ضلع حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا ہے ۔ بدخشان ، پاکستان کے چترال کے ساتھ ساتھ چین سے بھی واخان کی پٹی کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔

یوں جنگ اور انارکی جنوب سے شمال اور مرکز یا مغرب سے مکمل طور پر مشرقی افغانستان منتقل ہوجائے گی ۔ افغان حکومت اور طالبان کی لڑائیاں بھی یہاں ہوں گی ۔ داعش اور طالبان کی جنگ کا میدان بھی یہ بن سکتا ہے جبکہ چینی جنگجوئوں کیلئے یہاں سے چین میں یا پھر تاجک یا ازبک جنگجوئوں کیلئے یہاں سے تاجکستان اور ازبکستان میں مداخلت آسان ہوجائے گی۔ اسی طرح ان علاقوں میں انارکی رہے گی تو یہاں سے اپنی پراکسیز کے ذریعے پاکستان میں بھی مداخلت کی جائے گی۔ اس وقت اگر دیکھاجائے تو مغربی اور جنوبی افغانستان نسبتاً خاموشی کی طرف جارہا ہے لیکن ہاکی اسٹک کے طرز پر پوری پاکستانی سرحد اور چین یا تاجکستان سے متصل علاقوں میں جنگ منتقل ہورہی ہے ۔ 

مجھے تو یہ پاکستان کو سبق سکھانے اور چین پاکستان اقتصادی شاہراہ کے خلاف سازش کی کڑی دکھائی دے رہا ہے ۔ ایک طرف افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں فساد کی وجہ سے اسے ناکا م بنانے کی کوشش کی جائے گی اور دوسری طرف جب چاہیں امریکہ کے تعاون سے ایران اور ہندوستان بندرعباس اور چاہ بہار کے ذریعے وسط ایشیاء کے ساتھ تجارتی روٹ کو فعال بنالیں گے
 
سلیم صافی
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘

Post a Comment

0 Comments