Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

انتخابی معرکے سے سبق

لاہور کے انتخابی معرکے میں قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ ن کی کامیابی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد بھی سیاسی جنگ جاری ہے۔ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے حلقہ 122 کے ریٹرننگ افسر سے دوبارہ گنتی کی درخواست کی ہے مگر ریٹرننگ افسر کا کہنا ہے کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا۔

ادھر الیکشن کمیشن نے کامیاب امیدواروں سے انتخابی اخراجات کے گوشوارے طلب کیے ہیں۔ان گوشواروں کے موصول ہونے کے بعد کامیاب امیدواروں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا۔ انتخابی قوانین کے تحت ہر امیدوار 15 لاکھ روپے سے زیادہ کے اخراجات نہیں کر سکتا تھا۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کہتے ہیں کہ انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں ان کے حامی کئی ہزار ووٹروں کو دوسرے حلقے میں بھیج دیا گیا اور دوسرے حلقے کے ووٹ حلقہ 122 میں شامل کر دیے گئے۔

لاہور کا ضمنی انتخاب کسی بھی لحاظ سے اب تک منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات سے منفرد تھا۔ ایک طرف 2008ء سے پنجاب پر حکومت کرنے والی پارٹی کے اسپیکر انتخاب لڑ رہے تھے، دوسری طرف عمران خان گزشتہ سال کے ناکام دھرنے اور عدالتی کمیشن کے اپنے موقف کے خلاف فیصلے کے بعد جوش و خروش سے میدان میں اترے تھے۔
وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف براہ راست انتخابی مہم میں شریک نہیں تھے مگر لاہور ہائی کورٹ کے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کو معطل کیے جانے کے بعد عمران خان پارٹی مہم کی قیادت کر رہے تھے۔ ضابطہ اخلاق کی معطلی کے بعد وزراء، مشیروں، اراکین اسمبلی پر کسی قسم کی پابندی نہیں رہی تھی۔

یہ ہی وجہ تھی کہ خیبرپختون خوا کے وزیر اعلیٰ پشاور سے آ کر لاہور میں مقیم تھے۔ یوں وہ اپنے امیدوار علیم خان کے لیے کنویسنگ کر رہے تھے۔ دوسری طرف کئی وفاقی وزراء ایاز صادق کی مہم کو منظم کر رہے تھے۔ علیم خان سابق وزیر اعلیٰ پنجاب  پرویز الٰہی کے ساتھ رہ چکے ہیں اور کنسٹرکشن کے پیشے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔  انھوں نے انتخابی مہم پر رقم خرچ کی۔ اسی طرح برسر اقتدار حکومت کے وزراء ایاز صادق اور ان کے حامیوں نے  بھی کسی قسم کا تکلف نہیں کیا یوں یہ پاکستان کا مہنگا ترین انتخاب ثابت ہوا۔

انتخابات میں اس طرح سرمائے کے استعمال سے  متوسط طبقے کے انتخاب میں حصہ لینے کے امکانات مخدوش ہو گئے۔ یہ بات ایک سوال بن گئی کہ جو لوگ ایک انتخاب پر کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں وہ اس رقم کی واپسی کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کریں گے یوں انتخابات کے ساتھ کرپشن کا معاملہ ایک دفعہ پھر منسلک ہو گیا اور جمہوریت پر اعتماد نہ رکھنے والوں کو یہ کہنے کا جواز مل گیا کہ صرف امیر لوگ ہی انتخاب میں حصہ لے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکتے ہیں اور اقتدار پر قابض رہنے والے صرف امرا کے معاملات کو اپنی ترجیحات میں شامل کر سکتے ہیں۔ اس طرح  طالع آزما قوتوں سے حرارت حاصل کرنے والوں کو جمہوری نظام کے خلاف فضاء ہموار کرنے کا موقع ملا۔ ایک نام نہاد دانش ور کو جو کالم نگار بھی کہلاتے ہیں اس معاملے کی آڑ لے کر جمہوریت کے خلاف دشنام طرازی کرنے کا موقع ملا۔

اس انتخابی معرکے کے نتائج اور رائے عامہ کے رویے میں تبدیلی کے تناظر میں کچھ نئے حقائق سامنے آ گئے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے لاہور شہر کی ترقی پر کروڑوں روپے خرچ کیے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ترکی سے میٹرو بس کا ماڈل لیا۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے شہریوں کو ائر کنڈیشن بسوں کا سستا نظام ملا مگر لاہور کے نوجوانوں کی اکثریت اس نظام سے مرعوب نہیں ہوئی۔

اگرچہ  ان کے سامنے عمران خان کا ناکام دھرنے کا تجربہ بھی موجود تھا اور تحریک انصاف کی قیادت کے دھرنے اور غیر جمہوری رویے کا ماڈل بھی موجود تھا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت ان ووٹروں کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے میں ناکام رہی۔ شہباز شریف نے تعلیم، صحت ، صاف پانی کی فراہمی، گندے پانی کی نکاسی جیسے اہم پروجیکٹ کے بجائے سارا زور میٹرو بس اور اورنج بس منصوبے پر لگا کر تحریک انصاف کو اپنے ووٹروں کو متحرک کرنے کا موقع دیا مگر ان انتخابات میں ضابطہ اخلاق انتخابی فہرستوں انتخابی عملے کی نااہلی کے بارے میں بہت سی شکایات ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں۔ یہ شکایات تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی کی اور مسلم لیگی وزراء نے بھی۔ جب کہ متعدد شکایات الیکشن کمیشن کی کارکردگی سے متعلق ہیں۔

آئین میں 18 ویں ترمیم میں الیکشن کمیشن کو خود مختار بنا دیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے منسلک ہوا الیکشن کمیشن کے اراکین کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوا، چیف الیکشن کمشنر اور چاروں اراکین کے اختیارات یکساں ہو گئے۔ چیف الیکشن کمشنر کے پاس مکمل انتظامی اختیارات نہ ہونے کی بناء پر کمیشن میں قیادت کا بحران پیدا ہوا۔ نادرا سے ملنے والی فہرستوں کی بنیاد پر انتخابی فہرستیں تیار ہوئی تھیں۔ انتخابی تاریخ کے اعلان کے نوٹیفکیشن جاری ہونے تک انتخابی فہرستوں میں ووٹرز کے اندراج کا سلسلہ جاری رہا۔

اس بنا ء پر ووٹروں کے رہائشی پتہ کی بناء پر دوسرے حلقوں میں منتقلی کا سلسلہ بھی جاری رہا قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی انتخابی فہرست کی بنیاد پر منعقد ہوئے۔ تمام امیدواروں کو 15 دن قبل انتخابی فہرستیں مل گئیں مگر تحریک انصاف نے کوئی اعتراض داخل نہیں کیا۔ اب انتخابی نتائج کے بعد اس معاملے پر اعتراض کا جواز نظر نہیں آتا۔ دراصل انتخابی فہرستوں کی تیاری، پولنگ اسٹیشن، بائیو میٹرک سسٹم، انتخابی عملے کی تربیت، ضابطہ اخلاق ، ووٹوں کی دوبارہ گنتی، عبوری حکومت کا قیام، الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے کے معاملات انتخابی اصلاحات سے منسلک ہیں۔

برطانیہ سے آنے والے چوہدری سرور ایک دفعہ پھر انتخابی دھاندلیوں کا شور مچا کر اپنے ووٹروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر انھیں اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ انتخابی مسائل کا حل جامع اصلاحات ہیں۔ ایسے مسائل ان ممالک میں رہے جہاں جمہوریت ارتقاء پذیر تھی اور اصلاحات کے ذریعے ہی انتخابی عمل کو بہتر بنایا گیا۔ حلقہ 122 کے انتخابات کے نتائج سے یہ ہی سبق ملتا ہے کہ جامع اصلاحات سے ہی انتخاب عمل کو آسان اور شفاف بنایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان


Post a Comment

0 Comments