Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سانحات کعبہ …تاریخی جائزہ

مسجد الحرام کے صحن میں جمعہ کے دن شدید طوفان کے نتیجے میں کرین گرنے کے حادثے میں 107 سے زائد افراد شہید جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ حادثے کے وقت 83 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں چل رہی تھیں، جو اس حادثے کا سبب بنی ہیں۔ کرین تیز ہواؤں کی وجہ سے مسجد کی چھت پھاڑتے ہوئے نیچے آ گری۔ اطلاعات کے مطابق کرین مقامی وقت کے مطابق شام کو 5.23 منٹ پر گری اور اس وقت مسجد میں نمازیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے مکہ پہنچے ہوئے ہیں اور اس سال حج کیلئے مجموعی طور پر 30 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کی سعودی عرب آمد متوقع ہے۔ مکہ میں بلند و بالا ہوٹلوں اور دیگر کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے ۔ماضی میں بھی حج کے موقع پر سعودی عرب میں حادثات پیش آتے رہے ہیں۔ سن 2006ء میں شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے 360 افراد بھگدڑ میں شہید ہوئے۔

 اسی سال حج میں ایک دن پہلے مکہ میں ایک 80 منزلہ عمارت کے گرنے سے 73 عازمین حج شہید ہو گئے۔ سن 2004ء میں منیٰ میں ہونیوالی بھگدڑ سے 244 حجاج شہید ہوئے جبکہ 2001ء کی بھگدڑ میں منیٰ میں 35حاجی لقمہ اجل بنے۔ 1998ء میں 180 حجاج کرام منیٰ میں بھگدڑ کا نشانہ بنے۔ 1997ء میں 340 عازمین حج منیٰ کی خیمہ بستی میں جان بحق ہوئے۔ 1994ء میں 270 حجاج کرام منیٰ میں شہید ہوئے جبکہ 1990ء میں شیطان کو کنکریاں مارنے کیلئے جانیوالے 1426 حجاج کرام پیدل جانیوالی سرنگ میں بھگدڑ کی وجہ سے جان بحق ہوئے۔

تاریخ اقوام عالم کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ خانہ کعبہ اورحرم شریف اس سے پہلے بھی سانحات سے متاثر ہوتا رہا ہے۔ طوفان نوح کی وجہ سے سیدنا آدم علیہ السلام کی بنائی ہوئی بیت اللہ کی بنیادیں بھی غرق آب ہو گئیں۔پانی کے ریلے نے خانہ کعبہ کی جگہ ریت اور مٹی اکٹھی کر دی۔ریت اور مٹی کا یہی انبار بعد میں ایک ابھر ے ہوئے سرخ ٹیلے کی شکل میں مرجع عوام بن گیا۔ مظلوم اور بیمار لوگ اس ٹیلے پرآ کر دعا کرتے۔حج کیلئے بھی لوگ اس ٹیلے پر آتے۔ یہ عمل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کعبہ تک جاری رہا۔
طوفان نوح کے بعد خانہ کعبہ کئی دفعہ بارشوں کے پانی اور سیلابی ریلوں کی زد میں آیا یہاں تک بھی ہوا کہ کعبے کا چوتھا حصہ پانی میں ڈوب گیا۔ حجاج بن یوسف کی فوج نے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو یہاں محاصرے میں شہید کیا گیا ۔ بحرین سے قرامطہ آئے اور حجر اسود نکال کر لے گئے۔ بیس سال سے زائد عرصے تک کعبہ کا طواف حجر اسود کے بغیر ہوا۔

تاریخ ابن خلدون میں ہے کہ اموی جرنیل حصین بن نمیر نے کوہ ابو قبیس اور کوہ قیعقعان پر منجنیقین نصب کر کے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی۔ سنگ باری اتنی شدید تھی کہ کوئی شخص طواف نہ کرسکا۔ اس حملے میں خانہ کعبہ کی چھت اور پردے بھی جل گئے ۔ لڑائی جاری تھی کہ یزید مر گیا۔ اسکی موت کی خبر جب عبداللہ بن زبیر کو ملی توانہوںنے پکار کر کہا۔ ارے کم بختو اے عدواللہ!اب تم کیوں لڑ رہے ہو تمہارا گمراہ سردار تو مر گیا۔(تاریخ ابن خلدون ص684 
   
قرامطہ فرقے کے پیروکار ابو طاہر سلیمان بن الحسن نے ایک لشکر جرار کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی اور حرم شریف میں داخل ہو کر قتل عام شروع کر دیا۔ ابو طاہر قرامطہ فرقے کے بانی"ابو سعید کا بھائی تھا۔اس قتل عام میں مکہ شہر اور گرد ونواح میں تیس ہزار افرادشہید کئے گئے ۔ جن میں طواف کرنیوالے سات سو افراد بھی شامل تھے۔ بحرین کے شہر ہجر سے آنیوالے قرامطہ حجر اسود نکال کر ساتھ لے گئے۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ بیس سال سے زائد عرصے تک کعبہ کا طواف حجر اسود کے بغیر ہوا۔ابو طاہر نے مکہ کا راستہ بھی بند کرنے کی کوشش کی تا کہ عازمین حج وہاں جانے کی بجائے ہجر آئیں لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی۔
کعبہ کی حالیہ تاریخ میں بھی ایک المناک سانحہ پیش آیا۔ کعبہ شریف پر مرتدین کا قبضہ ہو جانے کی وجہ سے چودہ دن تک طواف معطل رہا اس عرصے میں حرم کعبہ کے در و دیوار اذان اور جماعت کی سعادت سے محروم رہے۔ یکم محرم الحرام مطابق 20 نومبر 1979ء منگل کی صبح امام حرم شیخ عبد اللہ بن سبیل نے نماز فجر کا سلام پھیرا ہی تھا کہ چند آدمیوں نے امام صاحب کو گھیرے میں لے لیا ان میں سے کچھ لائوڈ سپیکر پر قابض ہو گئے اس وقت حرم شریف میں ایک لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔ ان حملہ آوروں کا سرغنہ 27 سالہ محمد بن عبد اللہ قحطانی تھا جس نے چار سال تک مکہ یونیورسٹی میں اسلامی قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کا دست راست جہیمان بن سیف العتیبہ تھا۔ ان لوگوں نے بڑی باریک بینی سے پلاننگ کر کے جنازوں کا بہروپ بنا کر چارپائیوں کے ذریعے اسلحہ کی بڑی مقدار تہہ خانوں میں جمع کر لی تھی۔

جب تمام تیاریاں مکمل ہو گئیں تو اچانک حرم کے تمام دروازے بند کر کے ان پر اپنے مسلح افراد کھڑے کر دئیے۔ ایک آدمی نے عربی میں اعلان کیا کہ مہدی موعود جس کا نام محمد بن عبدا للہ ہے آ چکا ہے۔ نام نہاد مہدی نے بھی مائیک پر اعلان کیا کہ میں نئی صدی کا مہدی ہوں میرے ہاتھ پر سب لوگ بیعت کرینگے۔اس گمراہ ٹولے نے مقام ابراہیم کے پاس جا کر گولیوں اور سنگینوں کے سائے میں لوگوں کو دھمکاتے ہوئے بیعت شروع کروا دی۔

سعودی فرمانروا شاہ خالد نے 32 علماء پر مشتمل سپریم کونسل کا اجلاس فوری طور پر طلب کر لیا۔ علماء کرام نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ مسلح گمراہ افراد کیخلاف کارروائی شریعت کے عین مطابق ہے۔ اس فتوے کی روشنی میں بیت اللہ کے تقدس کے پیش نظر بھاری اسلحہ استعمال کرنے سے گریز کیا گیا۔ مرتدین کا مکمل صفایا کرنے کے بعد 7 دسمبر 1979ء کو دوبارہ حرم شریف کو عبادت کیلئے کھولا گیا۔ اس لڑائی میں 75 باغی مارے گئے اور نیشنل گارڈز کے 60 فوجی شہید ہوئے۔ چار پاکستانیوں سمیت 26 حاجی شہید اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ مرتدین کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا۔سزائے موت پانے والے مرتدین میں 41 سعودی عرب، 10 مصر، 6 جنوبی یمن، 3 کویت سے جبکہ عراق ، سوڈان اور شمالی یمن کا ایک ایک مرتد شامل تھا۔

حرم شریف میں کرین گرنے کے سانحے کے حوالے سے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ بلاشبہ سعودی حکومت عازمین حجاج کی مناسب دیکھ بھال کیلئے تسلسل سے خصوصی اقدامات کر رہی ہے لیکن جب کوئی قدرتی آفت طوفان کی شکل اختیار کر لے تو تمام تر انسانی کاوشیں ناکام ہو جاتی ہیں

سرور منیر راؤ 

بہ شکریہ روزنامہ  نوائے وقت 

Post a Comment

0 Comments