Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

حج ۔ اس بار

اس ہفتے بدھ کے دن تیس لاکھ سے زائدفرزندان توحید حج ادا کریں گے ۔ پاکستان سے اس سال ایک لاکھ چوراسی ہزار عازمین حج مکہ گئے ہیں جن میں نصف سرکاری سکیم کے تحت جبکہ باقی نصف پرائیویٹ حج آپریٹرز کے ذریعے فریضہ حج ادا کریں گے۔ اس بار حرم شریف کے احاطے میں کرین گرنے کے حادثے کی بنا پر یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ عازمین کو ارکان حج کی ادائیگی میں شاید مشکل کا سامنا ہو لیکن شکر الحمد اللہ کہ حالات جلد معمول پر آ گئے۔

حج ملت اسلامیہ کا ایک ایسا رکن ہے جس کی ادائیگی کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں موجزن ہے۔ ہر صاحب استطاعت مرد اور عورت پر زندگی میں حج ایک بارفرض ہے۔ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ استطاعت ہو تو حج فوراً واجب ہو جاتا ہے ، لیکن امام شافعیؒ کا خیال ہے کہ حج کا فریضہ آخر عمر تک موخر کیا جا سکتا ہے۔ خارجی شکل ایک حد تک ویسی ہی ہے۔ داخلی اعتبار سے حج ایک کیفیت ہے۔ ایک جذبہ ہے، ایک سرشاری ہے۔ حج اللہ کا حکم ہے اور حکم میں نہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ حج ایک اجتماعی رسم کی ادائیگی بھی ہے اور ایک ذاتی تجربہ بھی اور ایک روحانی منزل بھی۔

تاریخی اعتبار سے حج 9 ھجری (630 عیسوی) میں مسلمانوں پر فرض ہوا۔ حضورﷺ نے اپنی زندگی میں ایک ہی بار 10 ھجری (631 عیسوی) میں حج کیا۔ حج کے لئے مسلمان اپنی جان، اپنا مال، اپنا وقت صرف کر کے احرام کی دو چادروںمیں خود کو لپیٹ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو جاتا ہے۔ وقوف عرفات کو حج کا رکن اعظم یعنی سب سے بڑا رکن قرار دیا گیا ہے اگر عازمین حج باقی تمام مناسک ادا کر لیں لیکن اگر وہ نو ذوالحج کو کسی بھی وجہ سے میدان عرفات کی حدود میں نہ پہنچ سکیں تو ان کا حج ادا نہیں ہوتا۔ عرفات میں کوئی تحریری امتحان نہیں.... زبانی انٹرویو نہیں.... نمبر بھی نہیں لگتے.... پاس فیل کی فہرست بھی تیار نہیں کی جاتی.... بس اس میدان میں مقررہ وقت میںحاضری ہو جائے تو حاجی ہو جاتے ہیں۔

 عرفات میں روشن دن میں داخل ہوتے ہیں اور غروب آفتاب کے ساتھ کُوچ کر جاتے ہیں جبکہ مزدلفہ میں رات کو داخل ہوتے ہیں اورفجر کے بعد وہاں سے روانہ ہو جاتے ہیں۔ میدان عرفات میں عازمین حج جب دو سفید کپڑوں کے ٹکڑوں (احرام) میں گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں تو بعض مفسرین اس منظر کو میدان حشر میں پیش آنے والے منظر سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جب لوگ کفن پہنے میدان حشر میں اعمال کا حساب دے رہے ہوں گے تو منظر کچھ اسی طرح کا ہو گا۔
عرفہ کا دن مغفرت اور گناہوں سے معافی کا دن ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کا دن ہے۔ میدان عرفات میں حاضرین ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے خدائے بزرگ و برتر سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ سب کو صرف ایک ہی فکر ہے اور وہ فکر ہے قبولیت حج کی ۔ عرفات میں قیام کے دوران آپ چائے پئیں، کھانا کھائیں، نوافل پڑھیں یا ذکر الہٰی کریں یہ سب آپ پر منحصر ہے۔ یہاں شرطِ اول صرف قیام ہے۔ آپ اللہ سے جو چاہیں مانگیں، کوئی پابندی نہیں۔اس دن قدرت نے آپ کو مانگنے کا کھلا وقت دیا ہے۔ عرفات میں قیام کے دوران زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی بھی دن شیطان اتنا چھوٹا، ذلیل اور حقیر اور پریشان نہیں ہوتا جتنا عرفہ کے دن کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت کثرت کے ساتھ نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ بڑ ے بڑے گناہ معاف فرماتا ہے۔

یہاں دعائیں مانگی جاتی ہیں لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور اللہ کریم کی تسبیح بیان کی جاتی ہے۔ بیسویں صدی میں جب سعودی عرب میں تیل دریافت نہیں ہوا تھا اور جدید ترقی کے ثمرات یہاں تک نہ پہنچے تھے تب عازمین حج بڑی صعوبتیں اٹھا کر حج کے لئے آتے تھے۔ ان ایام میں عمرہ کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی تھی۔ اس دور میں ارض مقدس کا سفر کئی ماہ میں طے ہوتا تھا۔ حج کے قدیم سفر ناموں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات توعازمین حج کو آمدرفت میں ایک سال بھی لگ جاتا تھا۔ ان ایام میں حج کے راستے لٹیروں کی آماج گاہ تھے۔ عازمین حج یقین سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ سعودی عرب سے بخیریت واپس لوٹ آئیں گے۔
زائرین کے قافلے جب اونٹوں کی لمبی لمبی قطاروں پر سوئے مدینہ سفرپر ہوتے تو طویل راستے اور موسمی اثرات سے عمر رسیدہ اور بیمار زائرین کو بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا۔ راستے میں بسنے والے بدﺅوں اور صحرائی قزاقوں کی ماردھاڑ کا دھڑ کا بھی ہر وقت لگا رہتا تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ جدہ سے مکہ کا سفر اونٹ پر تین دن اور مکہ سے مدینہ کی مسافت بارہ دن میں طے ہوتی تھی، اب سٹرک کے راستے جدہ سے مکہ ایک گھنٹہ سے کم اور مکہ سے مدینہ کی مسافت چند گھنٹوں میں طے پا جاتی ہے۔

 ابن بطوطہ کے مطابق حج کے قافلے اونٹوں اور گھوڑوں پر سفر کرتے۔ قافلے کا ایک لیڈر یا امیر ہوتا۔ بھوپال کی رانی سکندر بیگم جنہوں نے ابن بطوطہ کے سفر حج کے 539 سال بعد 1864ء میں حج کا سفر کیا ان کا کہنا ہے کہ مکہ سے مدینہ کا فاصلہ بارہ دنوں میں طے ہوتا تھا، راستے میں پانی ناپید تھا، راستے میں بدو قافلے لوٹ لیتے تھے۔ ایک بڑی رسی سے چالیس، پچاس اونٹوں کے قافلے کو اس طرح باندھا جاتا ہے کہ کوئی اونٹ قافلے سے جدا نہ ہو سکے۔ اکثر اونٹوں کے گلے میں گھنٹی بندھی ہوتی ہے۔ اس گھنٹی کی آوازکو صدائے جرس کا نام دیا جاتا ہے۔

عازمین حج کا انتظام و انصرام کرنا یقینی اعتبار سے نہایت مشکل کام ہے۔ میدانِ عرفات میںاتنی بڑی تعداد میں مقررہ وقت میں لوگوں کو پہنچانے اور خورد و نوش کا انتظام کرنے کے لیے بھی خصوصی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ ہزارہا بسیں، گاڑیاں اور لاکھوں پیدل افرادجب منیٰ سے عرفات اور پھر اُسی شام عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو انسانوں کا سمندر متحرک نظر آتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں عازمین حج کی ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی ایک بڑا امتحان ہے۔ اب تو ٹرانسپورٹ کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے خصوصی میٹرو ٹرین سروس بھی شروع ہو چکی ہے۔ یہ میٹرو ٹرین پہاڑی سرنگوں اور دشوار گزار راستے سے گزرتی ہوئی۔ عازمین کو منیٰ، عرفات اور مزدلفہ پہنچاتی ہے۔ 

سرور منیر راؤ

بہ شکریہ روزنامہ  نوائے وقت 

Post a Comment

0 Comments