Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پاکستان میں اب اچھا بھی ہوتا ہے

غیر ممالک میں آباد پاکستانی اگرچہ جسمانی طور پر تو غیر ممالک میں رہائش پذیر ہوتے ہیں لیکن ان کا ذہن ہمیشہ ہی پاکستان کے معاملات میں اٹکا رہتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، کمپیوٹر اور سافٹ وئیر نے ان تمام پاکستانیوں کو پاکستان سے دور ہونے کے باوجود ذہنی طور پر پاکستان ہی میں موجود ہونے کا موقع فراہم کررکھا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز اپنی خبروں اور ٹاک شوز کے ذریعے ان کو تازہ ترین حالات سے آگاہ بھی کرتے ہیں۔ ان ٹاک شوز میں پاکستان کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں طرح کی خبریں اور بحثیں ہوتی ہیں۔ 

بُری خبروں سے ملک سے دور بیٹھے پاکستانیوں کو شدید دھچکا لگتا ہے اور بہت مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ناامیدیوں یا مایوسیوں کے دور کا آغاز دراصل مشرف کے آخری دنوں میں ہوا جبکہ پیپلز پارٹی کے دور میں مایوسیوں کے یہ بادل گھنے، گہرے سیاہ روپ اختیار کرتے چلے گئے۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اس وقت کوئی موثر اقدامات نہ کئے گئے اور دہشت گرد نہ صرف جی ایچ کیو میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے بلکہ ان دہشت گردوں نے کراچی میں نیول بیس پر کھڑے طیاروں تک کو تباہ کردیا۔
اُس دور میں دہشت گردوں نے جنوبی اور شمالی وزیرستان میں ڈیرے ڈال رکھے تھے اور یہاں سے پورے پاکستان میں پھیل کر وقتاً فوقتاً مختلف تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے اور لوگوں کا قتلِ عام کرتے رہے۔ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے وزیرستان میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے آپریشن شروع کرنے میں تاخیر کردی اور وقت پر آپریشن شروع نہ کیا جاسکا حالانکہ سوات آپریشن کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے علاقے میں دہشت گردوں کا صفایا کیا جاسکتا تھا لیکن اُس وقت کی حکومت چند ایک سیاسی جماعتوں کے دبائو کی وجہ سے یہ آپریشن شروع نہ کرواسکی۔

 اس سلسلے میں آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اطہر عباس ریٹائر ہونے کے بعد بیان دے چکے ہیں کہ "شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دو سال پہلے آپریشن شروع کرنے کی ضرورت تھی تاکہ اب تک اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرلیا جاتا۔" ان حالات میں جنرل راحیل شریف نے آرمی کے نئے چیف کی حیثیت سے چارج سنبھالنے کے فوراً بعد ہی وزیرستان میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نےاس سلسلے میں " ضربِ عضب" کے نام سے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کیا اور آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہرکیا۔ آپریشن ضربِ عضب کے دوران آئی ڈی پیز کے مسئلے کو بھی بڑی حد تک حل کرلیا گیا ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے بعد پورے پاکستان میں دہشت گردی کو کم کرنے میں مدد ملی ہے بلکہ پاکستان میں دہشت گردی میں ستر فیصدتک کمی ہونے کا اعتراف غیر ملکی اشاعتی ادارے بھی کررہے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کی جانب سے ملک بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات اور حاصل ہونے والی کامیابیوں کی وجہ سے ان کو عوام میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور وہ مقبولیت کے لحاظ سے جنرل ایوب اور جنرل مشرف کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو یہ مقبولیت کراچی میں رینجرز کی طرف سے کئے جانے والے کامیاب آپریشن کی وجہ سے بھی حاصل ہوئی ہے۔
 جنرل راحیل کے دور سے قبل بھی کراچی میں رینجرز موجود رہی ہے لیکن رینجرز وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی جو کہ موجودہ دور میں حاصل کررہی ہے۔ کراچی دہشت گردی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا گزشتہ کئی دہائیوں سے شکار رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے دور سے قبل کراچی شہر کو "عروس البلاد" یا روشنیوں کے شہر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ مگر پھر یہاں پر بھتہ خوری، ٹار گٹ کلنگ نے اپنے نہ صرف پاؤں جمائے بلکہ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دہشت گردی کراچی کے باشندوں کے پاؤں کی زنجیر بن گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں شامل ہونے لگا۔ تین دہائیوں کی لوٹ مار اور ٹارگٹ کلنگ کے بعد اب جنرل راحیل شریف ہی کے دور میں کراچی میں امن قائم ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

اب لوگ چاند رات کو اربوں روپے کی شاپنگ کرتے ہیں اور بھتہ خوری یا ٹارگٹ کلنگ کاکوئی واقعہ تک پیش نہیں آتا جس سے کراچی میں حالات کے بدلنے کی واضح عکاسی ہوتی ہے۔ پھر لوگوں نے اس بار یومِ پاکستان جس جذبے اور جوش و خروش سے منایا اس کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کراچی میں حالات اس قدر بدل چکے ہیں کہ اس سے قبل کسی بھی ٹی وی چینل کیلئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ الطاف حسین کی تقریر کو ٹیلی کاسٹ کرنے سے انکار کرے بلکہ یہ ٹی وی چینلز کئی کئی گھنٹے کے دورانیے کی تقاریر بغیر کسی چوں چراں کے ٹیلی کاسٹ کیا کرتے تھے۔ کیا اس سے قبل یہ ممکن تھا کہ ایم کیو ایم ہڑتال کی اپیل کرے اور کراچی میں ہڑتال نہ ہو؟ 

لوگ ہڑتال کی کال والے دن ہی سے دکانیں بند کردیا کرتے تھے اورگھر سے نہیں نکلتے تھے۔ اس بار آخر کیا ہوا ہے کہ کراچی پر اپنی مکمل گرفت رکھنے والی جماعت کے ہاتھوں سے یہ شہر نکلنا ہونا شروع ہوگیا ہے؟ ایم کیو ایم نے اگر مستقبل میں سیاست میں رہنا ہے تو اسے فوری طور پر اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ اس کو اپنی تنظیم نو کرنا ہوگی اور پارٹی سے تمام جرائم پیشہ افراد کی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھٹی کروا کر اپنے آپ کو ایک سیاسی جماعت کا روپ دینا ہوگا کیونکہ اس جماعت کو اب بھی سندھ کے شہری علاقوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہے تاہم اب اس جماعت کو اپنے طور طریقے بدلنا ہوں گے۔

 موجودہ دور میں صرف کراچی ہی میں حالات بہتر نہیں ہوئے ہیں بلکہ بلوچستان میں بھی مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اس بار یومِ پاکستان جس جوش و خروش سے منایا گیا اور پاکستان کے پرچم لہرائے گئے اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔علاوہ ازیں نواب اکبر بگٹی کے صاحبزادے برہمداغ بگٹی جو اس سے قبل ریاستِ پاکستان کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کئے ہوئے تھے، نے واپس پاکستان آنے اور بلوچستان کی ترقی میں کردار ادا کرنے کی حامی بھری ہے اس سے بھی بلوچستان میں حالات کے بہتر ہو نے کا ثبوت ملتا ہے۔ بلوچستان میں حالات کو بہتر بنانے میں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اس سے علاقے میں جمہوریت کو بھی مضبوط بنانے اور لوگوں کو جمہوریت کی طرف گامزن کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔

میں سب کچھ بُرا نہیں ہے ، پاکستان میں اچھے کام بھی ہو رہے ہیں۔ پاکستان آرمڈ ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے پانچویں بڑے ملک کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس سے قبل متحدہ امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور چین کے پاس یہ ٹیکنالوجی موجود تھی جبکہ بھارت اس ٹیکنالوجی سے اب تک محروم ہے اگرچہ، فرانس، ایران اور ترکی جیسے ممالک یہ ٹیکنالوجی رکھنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ان ممالک نےابھی تک اس قسم کا کوئی تجربہ نہیں کیا ہے۔

پنجاب میں ان دنوں پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر عائشہ ممتاز اور ان کی ٹیم کی جانب سے ہوٹلوں اور کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کی جانچ پڑتال کیلئے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے جس سے لوگوں کو پہلی بار بڑے بڑے ہوٹلوں میں غیر معیاری اشیاء استعمال ہونے کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی ہے اور اگر چھاپوں کا یہ سلسلہ تسلسل سے جاری رہا تو پورا پنجاب غیر معیاری گوشت اور کھانوں سے نجات حاصل کرلے گا لیکن حکومت پنجاب اور دیگر صوبوں کی حکومتوں کو فوری طور پر جعلی ادویات کے کاروبار کو روکنے کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں جعلی ادویات استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان پہلے چند ممالک میں شامل ہے۔ اس مسئلے سے جتنی جلد نجات حاصل کی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ عوام کی صحت اور پاکستان کی عزت اور وقار کا معاملہ ہے۔

ڈاکٹر فرقان حمید 

بہ شکریہ روزنامہ  جنگ 

Post a Comment

0 Comments