Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

اپنی تاریخ سے سبق سیکھیں....خالد المعینا

عرب دنیا اپنی تاریخ کے تاریک ترین دور سے گزر رہی ہے۔حتیٰ کہ اگر کوئی انتہا درجے کا خوش اُمید بھی ہے تو اس کے لیے بھی خوش ہونے کا کوئی بہت زیادہ سامان موجود نہیں ہے۔عرب کے سیاسی پنڈت اور حال ہی میں خود ساختہ مقرر شدہ سوشل میڈیا کے تجزیہ کار بہت سے نظریات پیش کررہے ہیں لیکن ہم جس دلدل میں پھنس چکے ہیں،اس سے نکلنے کے لیے یہ نظریات کوئی لگا نہیں کھاتے اور زیادہ تر یبوست زدہ ہیں۔

وہ سورج کے نیچے ہر کسی کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں مگر وہ کوئی ایسا ٹھوس جواز بیان کرنے سے قاصر ہیں جس کے نتیجے میں ہم اس افسوس ناک صورت حال سے دوچار ہوئے ہیں۔ صاحب! دل لگتی بات یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی معاملہ پیش آیا ہے،یہ ہمارے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔عرب حرّیت کی تحریک سے لے کر مابعد آزادی کے مراحل تک بہت سے عرب لیڈر ناکامی سے دوچار ہوئے تھے۔بہت سے لوگوں نے خود کو پوری زندگی کے لیے جنرل اور صدور بنا لیا اور دوسرے اپنے عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے بجائے جابرانہ اقدامات کے ذریعے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے میں لگ گئے تھے۔

میں ریڈیو پر یہ پیغامات سنتے ہوئے جوان ہوا تھا کہ عرب دنیا پر قبضے کے لیے سامراجی منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ ہم نے بہت سی بغاوتیں اور ان کے ردعمل میں ہونے والی بغاوتیں دیکھیں۔ نئے آنے والے جنرل کے ہاتھوں ہزاروں لوگوں تہ تیغ ہوگئے کیونکہ نئے جنرل کو ان کے بارے میں شُبہ تھا لیکن اس سب کے باوجود امید کی کرن ہمیشہ دکھائی دیتی تھی۔

مگر آج تو سرنگ کے دوسرے سرے پر کوئی روشنی دیکھائی نہیں دیتی ہے۔بم دھماکے ،سرقلم اور قتل عام ہماری خبروں کی خوراک کا روزانہ کا فیچر ہیں۔عرب بہاریہ نے ہمیں اپنی آگ کی لپیٹ میں لے رکھا ہے حالانکہ اس سے متعلق تو یہ فرض کیا گیا تھا کہ اس سے امید بندھے گی مگر اس نے ہمیں ایسی دنیا کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیا ہے جہاں اتھل پتھل کا عمل جاری ہے جبکہ بعض عرب ریاستیں مخالفانہ آوازوں کو دبانے کے لیے سخت اقدامات کررہی ہیں۔

اپنی تاریخ سے سبق سیکھیں

کیا ہم اس صورت حال کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں؟اس کا جواب یکسر نفی میں ہے۔عرب ریاستوں کو دوسری ریاستوں کی مثالوں سے سبق سیکھنا چاہیے جہاں نظم وضبط کو برقرار رکھا گیا لیکن آوازوں کو بھی سنا گیا ہے۔سنگاپور اور جنوبی کوریا دو ایسی مثالیں ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک آزاد اور ذمے دار پریس کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہوسکتی ہے۔اگر قائد صفِ اول میں رہ کر قیادت نہیں کرتا،اچھی حکمرانی کا نفاذ نہیں کرتا،احتساب کا تقاضا نہیں کرتا،شفافیت کا اس سے آغاز ہوتا ہے اور نہ وہ بدعنوانی کے خلاف قائدانہ کردار ادا کرتا ہے تو پھر تو قابل عمل ریاست برقرار نہیں رہ سکتی ہے۔

میڈیا کو شراکت دار کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور حکمران کو یہ جانا لینا چاہیے کہ تنقید تعمیری ہوگی تو اس سے ریاست کو فائدہ پہنچے گا۔صحافیوں کا یہ کردار ہے کہ وہ ریاست کو اس کی خامیوں سے خبردار کریں۔ایسا معاشرہ تخلیق کیا جانا چاہیے جہاں خیالات اور معلومات کا آزادانہ بہاؤ ایک ایسا ماحول پیدا کرنے میں معاون بنے جہاں ترقی پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔

ایک نئے عرب آرڈر میں میرٹ کو ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ہمیں برسوں کی اقربا پروری اور بدعنوانی سے بہت نقصان پہنچ چکا ہے۔ ذمے داروں کی نااہلیت اور خراب کارکردگی نے ہمارا راستہ روک رکھا ہے۔اب ہم اس صورت حال کو مزید برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔

معاشرے میں خطرات وہیں منڈلاتے ہیں جہاں خلا پیدا ہوتا ہے۔ہمیں اس کو رونما ہونے سے روکنا ہوگا۔عرب حکومت اور سوسائٹی کے تمام ارکان کے درمیان ایک اعتماد ہونا چاہیے۔اعتماد اور احتساب کے ماحول کو ریاست کی ترقی کے لیے برقرار رکھا جانا چاہیے اور اعتماد پیدا کرنے کے لیے ہمیں ایک خاص طبقے کی جانب سے معاشرے پر اپنی بالادستی کے لیے روا رکھے جانے والے تقسیمی طریقوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

خواتین معاشرے کا اہم حصہ ہیں اور انھیں قائدانہ کردار ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔انتہا پسندوں اور شرپسندوں کی آوازوں کو ترقی کے خواہاں لوگوں کی آوازوں پر بھاری پڑنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ارباب اقتدار کے ذہنوں سے صوبائیت ،قبائلیت اور نسلی بنیاد پر طرف داری کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جانا چاہیے۔

عرب حکومتوں کو اپنی ہی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔وہ سوشل میڈیا کے دور میں محض طاقت کے بل پر اور مطلق العنان کنٹرول کے ذریعے حکمرانی نہیں کر سکتے ہیں۔جدید ٹیکنالوجی کے اس دورمیں ،جہاں انسانی جسم میں ایسی چپ لگائی جاسکتی ہے جس سے وہ ایک دوسرے کے نظریات کو پڑھ سکیں تو ایسے میں عوام الناس کو طاقت کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش فضول ہی ہوگی۔
عرب عوام دنیا بھر میں اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی طرح امن اور وقار کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔آج کی دنیا میں یہ ناگزیر ہے کہ ہر کوئی امن اور وقار کے حصول کے لیے کام کرے۔ہمارے قائدین جتنا جلد اس کا ادراک کر لیں گے،اتنا ہی تیزی سے ہم ترقی اور خوش حالی کو پاسکیں گے۔

(خالد المعینا سعودی عرب کے سینیر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔وہ سعودی میڈیا میں گذشتہ تیس سال کے دوران مختلف عہدوں پرکام کرچکے ہیں۔آج کل وہ اخبار سعودی گزٹ کے ایڈیٹر ایٹ لارج ہیں۔ان سے ای میل kalmaeena@saudigazette.com.sa پر برقی مراسلت کی جاسکتی ہے۔ان کا ٹویٹر اکاؤنٹ یہ ہے:: @KhaledAlmaeena

Post a Comment

0 Comments