Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

تاج و تحت ختم نبوت کامحافظ عطا اللہ شاہ بخاری

شاہ جی سٹیج پر آتے، لاکھوں کا مجمع ساکت و جامد ہو جاتا، سانس لینے کی آوازیں بھی مدہم ہو جاتیں، لوگوں کی نظریں شاہ جی کے سرخ و سپید چہرے پر مرکوز ہو جاتیں۔ شاہ جی مجمع پر ایک بھر پور نگاہ ڈالتے، خطبہ پڑھتے، ادھر شاہ جی کی زبان سے الحمد للہ نکلتا ادھر لوگوں کے سینوں سے قلوب نکل کر شاہ جی کی مٹھی میں بند ہو تے۔ شاہ جی جب ان قلوب کو عشق رسول ﷺ کی حدت دیتے تو لوگ تڑپ تڑپ جاتے۔

 وہ جب چاہتے مجمع کو رْلا دیتے، جب چاہتے ہنسا دیتے اور جب چاہتے اسی مجمع کو ایک تحریک بنا دیتے۔انگریزی دور کا ایک ڈپٹی کمشنر کہتا ہے ’’سید عطا اللہ شاہ بخاری کی خطابت کے دوران ایک ایسا وقت بھی آتاہے کہ اگر وہ اپنے مجمع سے کہتے کہ آگ اور خون کے سمندر میں چھلانگ لگا دو تو پورا مجمع پلک جھپکنے میں آگ اور خون کے سمندر میں کود پڑتا۔ وہ لوگوںکے دلوں پر حکومت کرتے تھے اور لوگ ان کے اشارہِ ابرو پر جان کا نذرانہ پیش کرنے کو ہر دم تیار رہتے تھے، غازی علم الدین شہیدبھی ان کی خطابت کا شاہکار تھا۔

زمانہ ان کی خطابت کا معترف تھا۔ وقت نے ان کی خطابت پر تحسین و آفرین کے سنہرے پھول نچھاور کئے۔ فخر المحدثین حضرت علامہ انور شاہ کاشمیری انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ قادیانیوں کے خلاف ان کی ایک تقریر ہماری پوری تصنیف سے بڑھ چڑھ کر ہے۔‘‘ مولانا محمد علی جوہر انہیں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’مقرر نہیں ساحر ہیں، تقریر نہیں کرتے جادو کرتے ہیں۔ ‘‘ حکیم الامت علامہ اقبال فرماتے ہیں ’’شاہ جی اسلام کی چلتی پھرتی تلوار ہیں۔ ‘‘ مولانا حسرت موہانی کہتے ہیں وہ خطابت کے شہسوار ہیں۔ مولانا مودودی کہتے ہیں وہ اپنے دور کے سب سے بڑے خطیب تھے۔

 مختار مسعود صاحب نے کیا خوبصورت پیرائے میں کہا ہے ’’انہیں حسرت موہانی اور ابو الکلام کی خطبات کا زمانہ نصیب ہوا اس میں ان ے کے ہمسفر تو بہت تھے مگر ہمسر کوئی نہ تھا۔‘‘ انہوں نے خطابت کو دنیاوی مفادات کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ان کی خطابت فرنگی اور اس کے خود کاشتہ پودے ’’قادیانیت‘‘ کی سرکوبی کے لئے وقف تھی۔ وہ ساری زندگی فرنگی کے تخت پر زلزلے بپاکرتے رہے اور اس کے گریبان کی تاروں سے کھیلتے رہے۔ نبی افرنگ مرزا قادیانی اور اس کی انگریزی نبوت کی دھجیاں اڑاتے رہے۔ 

انگریز نے قادیانیوں کو سیم و زر سے لاد کر قادیان کو جھوٹی نبوت کے قلعے میں تبدیل کر دیا تھاا ور ان کے سروں پر اپنی سنگینیوں کا سایہ کر رکھاتھا۔ قادیانی اپنے مرکز ارتداد قادیان میں بڑی تیزی سے اپنی جھوٹی نبوت کی دکان چلا رہے تھے۔ شاہ جی کو جب قادیانیوں کی ان خطرناک سرگرمیوں کا علم ہوا تو انہوں نے فوراً قادیان میں تحفظ ختم نبوت کانفرنس کا اعلان کر دیا اور اپنے لاکھوں جانبازوں سمیت فرنگی اور قادیانیوں کی ساری رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے قادیان جا پہنچے۔ قادیان میں ایک ولولہ انگیز، آتش فشاں اور تاریخ ساز کانفرنس ہوئی۔ حضرت سید عطا اللہ شاہ بخاری نے مرزا قادیانی کے جانشین اس کے بیٹے مرزا بشیر الدین کو للکارتے ہوئے کہا ’’کہ فیصلہ آج ہی ہو جاتا ہے۔

 تم اپنے باپ کی خانہ ساز نبوت لے کر آئو میں اپنے نانا کی نبوت کا علم لہراتا ہوا آئوں گا۔ تم اپنے آبا کی عادت کے مطابق یا قوتیاں کھائو اور پلومر کی ٹانک وائن پی کر آئو میں اپنے نانا کی سنت کے مطابق جو کے ستو کھا کر آئوں گا، تم حریر وپریناںپہن کر آئومیں اپنے نانا کے مطابق موٹا جھوٹا پہن کر آئوں گا۔ آئو اور اپنے باپ کو ایک صحیح العقل انسان تو ثابت کر دکھائو۔ مناظرہ میرا تمہارا اس بات پر ہے اور یہ فیصلہ کن مناظرہ ہوگا۔ 

میں ملت اسلامیہ کا نمائندہ ہوں تم میدان میں اترو لکھنو، دلی یا تمہارے مرقد قادیان میں کہیں بھی جہاں تم چاہو۔ بس تجربہ کردیم دیرں دیر مکافات با درد کشاں ہر کہ در افتادہ بر افتاد نبوت کے ڈاکوئو! تم میں اتنی ہمت کہاں کہ تم بخاری کے مقابلہ میں آئو، ہمارے مقابلہ میں جو بھی آیا ہم نے اسے پچھاڑا ہے۔ تم انگریز کے ذلہ خوار ہو اور میں ابن حیدر کرار، حیدر نے یہودیت کے مرکز خیبر کواْکھاڑا اور میں مرزائیت کے مرکز تمہارے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دوںگا۔‘‘ محمدؐ کا شیر گرجتا رہا لیکن بناسپتی نبوت کے کسی کارندے کو سامنے آنے کی جرآت نہ ہوئی۔ شاہ جی تحفظ ختم نبوت کے لئے آندھی بن کر پورے ہندوستان میں پھرتے رہے اور مسلمانوں کو عقیدہ ختم نبوت کی حرمت اور حفاظت کا درس دیتے رہے۔ 

ہندوستان کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں شاہ جی نے ختم نبوت کا نعرہ بلند نہ کیا ہو، اسی لئے فرمایا کرتے تھے کہ میری آدھی زندگی جیل اور آدھی ریل میں گزر گئی۔ انہوں نے ختم نبوت کے تحفظ کے لئے گیارہ سال جیل میں گزارے لیکن جیل کی سلاخیں ان کے جذبے کو ٹھنڈا نہ کر سکیں بلکہ ہر دفعہ جیل ان کے جذبات میں ایک نئی آگ لگا دیتی او روہ جیل سے نکلتے ہی مسلمانوں سے کہتے ’’میں حیران ہوتا ہوں کہ خدا نے جس قوم کو آمنہ کا لعل دیا ہو، جسے امام الانبیاء ،فخر رْسل، باعث کْل، پیغمبر آخر الزماں ، ملا ہو اسے اور کیا چاہئے۔ پورا قرآن، اسلام احادیث، آئمہ کی محنت، یہ سجادے، یہ تصوف، یہ بس حضور ہی حضور ہیں۔ بیچ میں اگر ختم نبوت پر بال آئے گا تو پوری عمارت نیچے آگرے گی۔

محمد طاہر عبدالرزاق

Post a Comment

0 Comments