Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

دو سفری دستاویز کی کہانی

بھارت کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی نے پارلیمنٹ کو تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ ایک چھوٹے سے معاملے کو اٹھاتی ہیں‘ جو قابل ذکر بھی نہیں ہوتا اور اسے کھینچ تان کر پارلیمنٹ میں بحث شروع کرا دیتی ہیں۔
یہ درست ہے کہ پوری قوم کی توجہ اس پر منعطف ہو جاتی ہے لیکن لوگ اس سب سے اعلیٰ منتخب ادارے کی کارکردگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سنکی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر سید علی گیلانی کو سفری دستاویز جاری کرنے کا معاملہ لیں جو ریاست جموں کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈر ہیں اور للت مودی کا معاملہ جو انڈین پریمیئر لیگ کرکٹ کے میچ فکسنگ اور جوا لگانے کے سکینڈلوں میں ملوث ہیں۔ یہ دونوں معاملات کم و بیش مماثل نوعیت کے ہیں۔

پہلے معاملے میں گیلانی اپنی علیل بیٹی کی تیمار داری کے لیے جدہ جانا چاہتے تھے‘ دوسرے معاملے میں للت مودی اپنی بیوی کی خبر گیری کے لیے پرتگال جانا چاہتے ہیں جو کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ وزارت خارجہ نے، جو پاسپورٹ جاری کرتی ہے، کہا ہے کہ گیلانی کی درخواست موجودہ شکل میں منظور نہیں کی جا سکتی کیونکہ انھوں نے اپنے پاسپورٹ میں اپنی قومیت کا ذکر نہیں کیا بلکہ لکھا ہے کہ وہ جموں کشمیر کے شہری ہیں جو ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بی جے پی اور جموں کشمیر میں اس کی اتحادی جماعت پی ڈی پی دونوں اس مسئلے پر مختلف رائے رکھتی ہیں۔

پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے یہ موقف پیش کیا ہے کہ گیلانی کو انسانی ہمدردی کی بنا پر سفری دستاویز جاری کر دی جانی چاہئیں، جب کہ بی جے پی کا کہنا ہے کہ انھیں اس وقت تک سفری دستاویز نہیں ملیں گی جب تک کہ وہ اپنی ملک دشمن سرگرمیوں پر معافی نہیں مانگتے نیز سید علی گیلانی کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ بھارتی شہری ہیں اور بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہونگے تب ہی بھارتی حکومت ان کی سفری دستاویز جاری کرنے کی درخواست پر غور کر سکتی ہے۔
دوسری طرف جموں کشمیر کے لیے بی جے پی کے ترجمان خالد جہانگیر نے اپنی مخالفانہ رائے دیتے ہوئے الزام عاید کیا ہے کہ سید علی گیلانی وادی کشمیر میں کشیدگی پیدا کرنے کے ذمے دار ہیں۔ کشمیر کے بارے میں ان کے نظریات کا سب کو علم ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کو پاسپورٹ جاری کرنا ہمارے قومی مفاد میں ہو گا۔

سید علی گیلانی نے مئی میں سفری دستاویز کے لیے درخواست دی تھی۔ انھیں حکومت نے اب پاسپورٹ جاری کر دیا ہے جو نو مہینے تک قابل استعمال رہے گا۔ اس کے برعکس وزیر خارجہ سشما سوراج نے للت مودی کی مدد کرنے کے لیے اسے برطانوی حکومت سے سفری دستاویز حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سشما نے ذاتی طور پر برطانوی وزیر کو لکھا ہے کہ وہ اپنے ملک کے قانون کے مطابق للت کی مدد کریں۔ بعد ازاں سشما نے کہا کہ انھوں نے للت مودی کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کی ہے۔ حالانکہ یہ واضح طور پر ایک بے موقع حرکت ہے، جس کے لیے انھیں معافی مانگنی چاہیے۔ اس کے بجائے کانگریس نے سشما سوراج سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ پارٹی پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کی کوشش بھی کرتی ہے۔ جب وزیر خزانہ ارون جیٹلے نے لوک سبھا کے ایوان میں اعلان کیا کہ سشما سوراج کو بیان جاری کرنا چاہیے جس پر بعد میں بحث کی جائے۔

چنانچہ یہ معاملہ وہیں ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن کانگریس کا مطالبہ ہے کہ سشما سوراج پہلے استعفیٰ دیں اور بعد میں اس معاملے پر بحث ہو۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے اور کوئی معقول ایشو نہیں ہیں۔ حالانکہ اس وقت تک سشما سے استعفیٰ طلب نہیں کیا جا سکتا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ان کی طرف سے للت مودی کو سفر کی اجازت دینے کے پیچھے ان کے اپنے کوئی مخصوص مفادات تھے۔

یہ درست ہے کہ سشما سوراج کے شوہر مودی کے وکیل ہیں۔ لیکن یہ وہ پوزیشن ہے جس پر وہ کئی سال سے فائز ہیں۔ نیز اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ سشما سوراج کو خصوصی مفادات پہنچائے گئے ہیں جس کی وجہ سے انھوں نے سفری دستاویز جاری کرنے کی بات کی ہے۔

ویسے بھی کانگریس کو بغیر ثبوت کے الزامات عائد نہیں کرنے چاہئیں۔ تاہم وزیر خارجہ کو یہ نصیحت بھی کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے صوابدیدی اختیارات اس انداز میں استعمال نہ کریں کہ ان پر تنقید کا جواز پیدا ہو سکے۔ موصوفہ بی جے پی کی ایک قابل احترام لیڈر ہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ اپنے سوشلسٹ پس منظر کے باعث اپنے نظریات اور عمل میں اسقدر آزاد خیال ہوں۔

آر ایس ایس جو اپنے کٹر ہندوتوا نظریات کے حوالے سے جانی جاتی ہے، وہ سشما سے خوش نہیں۔ لیکن بی جے پی کی قیادت کو اس بات کا احساس ہے کہ سشما کے آزاد خیال تاثر کے باعث انھیں ان لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہو جاتی ہے جو پارٹی سے قدرے فاصلے پر ہوتے ہیں۔ انھی کا ووٹ پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کا باعث بن سکتا ہے۔

اور آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ مرکز میں اقتدار میں آنے کے لیے مسلمانوں کا ووٹ اس قدر لازمی نہیں رہا جیسا کہ قبل ازیں ہوتا رہا ہے۔ یہ ملک کے لیے ایک افسوسناک سبق ہے جسے اپنی اجتماعیت کی پالیسی پر فخر تھا جب کہ ایک طرف مسلم لیگ کے مذہبی وعظ تھے تو دوسری طرف ہندو مہاسبھا کے متعصبانہ نظریات تھے۔ بائیں بازو کی جماعتوں کی حالت قابل رحم ہے جو بھارت کے سیکولر نظریات کے لیے ایک افسوس ناک تبصرہ ہے۔

اس صورت حال کا مداوا صرف اسی طرح ہو سکتا کہ وہ لوگ جو سیکولر نظریات پر یقین رکھتے ہیں انھیں میدان میں جا کر عام لوگوں کی حمایت حاصل کرنی چاہیے۔ اگرچہ یہ کام آسان نہیں ہے لیکن اس کے سوا اور کوئی راستہ بھی تو نہیں۔ اگرچہ تقسیم سے قبل مسلم لیگ نے اپنے حامیوں پر ایک سحر سا طاری کر دیا تھا اس کے باوجود کانگریس نے برطانوی دور حکومت میں اپنی سیکولر ازم کی سیاست سے انحراف نہیں کیا تھا۔ لیکن 6عشروں تک کانگریس نے جس بری طرح سے حکمرانی کی اس نے ہندو مسلم خلیج میں اضافہ کر دیا اور اس کے مضمرات ہم سب بھگت رہے ہیں۔

پارلیمنٹ کی کارکردگی میں کانگریس کی طرف سے رخنہ اندازی کے ایشو پر واپس آتے ہوئے ہمارے خیال میں یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس کے لیڈر کپل سبل نے اپنی رخنہ اندازی کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ یہ ان کی پارلیمانی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کی مثال ماضی میں خود بی جے پی نے قائم کی تھی۔
آل پارٹیز اجلاس میں راجیہ سبھا کے اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا کانگریس ایوان کو کارروائی جاری نہیں رکھنے دیگی جب تک کہ سشما کے استعفیٰ کا مطالبہ پورا نہیں ہوتا۔ تاہم کانگریس کا ہی ایک دھڑا اس مطالبے کے خلاف ہے جس کو خدشہ ہے کہ اس طرح ان کی پارٹی پارلیمنٹ میں الگ تھلگ ہو کر رہ جائے گی۔

یہ معاملات جس انداز سے چل رہے ہیں اس روش کو صحت مند نہیں کہا جا سکتا۔ مجھے ڈر ہے کہ مون سون کا پورا عرصہ ہی اس سیاسی سیلاب میں نہ بہہ جائے جس سے بھارت کی توانائیوں کا ضیاع ہو گا اور ملک کی تعمیر و ترقی متاثر ہو گی۔ جیسا کہ مہاتما گاندھی نے کہا تھا اگر ذرایع ناجائز ہوں تو نتیجہ بھی جائز نہیں نکلے گا۔ اور ایک ایسے ملک کے لیے بدشگونی کی بات ہے جو پارلیمانی جمہوریت کا دعویدار ہو۔


بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس 

Post a Comment

0 Comments