Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

خدا کے لیے چند گھنٹے میت سرد خانے میں رکھ لیں

کراچی شہر کے مضافات میں واقع ایک عمارت کے باہر آدھے درجن کے قریب لوگ جمع ہیں، بیک وقت کئی نگاہیں تصویروں کے ایک البم پر مرکوز ہیں اور ان تصویروں میں سے کسی کو شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک تصویر پر ہاتھ رکھ کر وہ کاؤنٹر کے دوسری طرف بیٹھے ہوئے نوجوان سے معلومات چاہتے ہیں جو انھیں بتاتا ہے کہ یہ لاش پرانی ہو چکی تھی اور مزید انتظار نہیں کیا جاسکتا تھا اس لیے اس کی تدفین کر دی گئی ہے۔

ایدھی سرد خانے کے باہر جب یہ لوگ ان تصویروں میں اپنے کسی لاپتہ رشتے دار کو تلاش کر رہے تھے، تو اس ہی وقت کئی دیگر لاشیں بھی لائی جا چکی تھیں اور یہ سلسلہ 24 گھنٹے جاری رہتا ہے۔ شہر میں کسی بھی واردات، واقعے یا حادثے میں ہلاک ہونے والے ورثا کے ہاتھوں میں جانے سے قبل اس سرد خانے کے مہمان ہوتے ہیں۔
ویسے تو یہاں روزانہ 40 سے 50 لاشوں کی آمد ہوتی ہے لیکن جون کے مہینے کے آخری ہفتے میں گرمی کی شدت سے ہلاکتوں کے باعث یہاں لاشوں اور ورثا کی قطاریں لگ گئیں ہیں۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار اور عبدالستار ایدھی کے فرزند فیصل ایدھی نے بتایا کہ انھوں نے اس ہفتے 900 لاشیں یہاں رکھیں جبکہ لاوارث لاشیں ان سے الگ تھیں۔ واضح رہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن نے ان دنوں پونے تین سو لاوراث لاشوں کی تدفین کی تھی۔

فیصل ایدھی کے مطابق ایدھی سمیت شہر کے دیگر نجی سرد خانوں میں بھی لاشیں رکھنے کی جگہ نہیں بچی تھی۔ لوگ ان کے پاس آ کر رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہ کئی قبرستانوں کے چکر لگا چکے ہیں لیکن کہیں بھی جگہ دستیاب نہیں۔ صرف چند گھنٹوں کے لیے میت رکھ لیں تاکہ وہ قبر کا بندوبست کرسکیں، جس کی وجہ سے ان کے پاس رش بڑھ گیا تھا۔
شہر میں ٹارگٹ کلنگز، بم دھماکوں، ڈکیتیوں اور حادثات میں ہلاکتیں کبھی کبھار اموات کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کر دیتی ہیں۔ ان میں سے کئی کی جب تک شناخت نہ ہو انھیں ایدھی سرد خانے کے حوالے کر دیا جاتا ہے، پھر چاہے کوئی مشتبہ دہشت گرد اور ملزم ہو یا عام شہری۔

اکتوبر کو بےنظیر بھٹو کی وطن واپسی پر بم دھماکے، بلدیہ میں فیکٹری میں آتشزدگی اور ایئرپورٹ پر حملے میں ہلاک ہونے والے کئی لوگوں کی شناخت نہیں ہو سکی تھی جس کے باعث یہ میتیں ایدھی سرد خانے میں رکھی گئیں کیونکہ شہر کے چاروں بڑے سرکاری ہپستال میں انھیں چند روز رکھنے کی بھی سہولت دستیاب نہیں۔

قانونی طور پر میڈیکو لیگل افسر (ایم ایل او) غیر فطری موت کا شکار بننے والے افراد کی لاشوں کے اس وقت تک نگران ہیں جب تک ان کو ورثا کے حوالے نہیں کر دیا جاتا۔

ایم ایل او ڈاکٹر نثار شاہ کا کہنا ہے کہ سرد خانے کی عدم موجودگی کے باعث لاشوں کے فوری ڈسپوزل میں تاخیر ہوتی ہے اور دوسرا گرمی میں لاش کے خراب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں وہ انھیں ایدھی سرد خانے یا دیگر نجی سرد خانوں میں بھیج دیتے ہیں کیونکہ حکومت کا کوئی سرد خانہ فعال نہیں۔

دو کروڑ آبادی کے اس شہر میں لانڈھی، نیو کراچی، اورنگی، جعفر طیار سوسائٹی اور دیگر علاقوں میں بعض سیاسی و مذہبی تنظیموں نے بھی سرد خانے بنائے ہیں، جہاں ہر شہری کو دسترس حاصل نہیں۔

کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ ایمبولینس سروس کی طرح سرد خانوں میں بھی نجی شعبہ ہی زیادہ فعال اور کارآمد ہے، تاہم محکمہ صحت کو گزارش کی گئی ہے کہ شہر میں سرد خانوں کی ضرورت ہے۔

’آفات اور بحران کی کوئی حدود نہیں ہوتیں جب بھی لاتعداد ہلاکتیں ہوتی ہیں تو لاشیں رکھنے کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ پچھلے دنوں کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ لاشوں کو شادی ہالوں میں رکھ لیں لیکن یہ رسک والا معاملہ ہے جس میں مہارت چاہیے جو ایدھی سینٹر کے لوگوں یا ہپستالوں کے اسٹاف کے پاس ہی موجود ہے۔

روشنیوں کا یہ شہر ہر سال بدامنی کے اندھیروں کی زد میں ہے۔ اس صورت حال میں قدرتی آفات اور بحران سرد خانوں کی اہمیت اور افادیت میں اضافہ کر دیتے ہیں۔

ریاض سہیل

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Post a Comment

0 Comments