Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

عزت سادات کی قیمت، صرف ایک ہار؟

سوچتا ہوں ہار نام کا زیور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی کیوں کمزوری ہے، وہ جسکے لیے کوئی بھی خطرہ مول لینے کو تیار رہتے ہیں۔ پہلے بینظیر بھٹو پر الزام لگا کہ انہوں نے ایک لاکھ اسی ہزار ڈالر کا ہار تحفے میں لیا۔ سابق صدر جناب زرداری نے کچھ ماہ قبل سوئس حکومت سے کہا، وہ ہار جو اسکے قبضے میں ہے واپس کیا جائے کیونکہ وہ اسکے قانونی مالک ہیں۔ ایک سوئس وکیل کو جو ماضی میں حکومت پاکستان کی طرف سے زرداری اور بینظیر کے مقدمات میں پیش ہوتے رہے، اسکی بھنک پڑی تو اس نے حکومت پاکستان کو خط لکھا، اگر وہ چاہتے ہیں تو وہ اعتراض داخل کر سکتے ہیں، یہ ہار زرداری کو نہیں ملے گا۔ 

اس وقت کے سیکرٹری قانون بیرسٹر ظفر اللہ سوئس وکیل کا خط لے کر وزیر اعظم نواز شریف کے پاس گئے تو نواز شریف مسکرائے اور کہا ، بالکل یہ ہار پاکستان کی جائیداد ہے کیونکہ لوٹی ہوئی دولت سے خریدا گیا تھا، لہذا سوئس وکیل سے کہیں وہ اس ہار پر حکومت پاکستان کا دعوی کرے۔ ایک طرف ہار پر ملکیت کا دعوی کرنے کا گرین سگنل دیا تو دوسری طرف زرداری کو رائے ونڈ بلا لیا کہ آپ سے سیاسی مشورے کرنے ہیں اور بیس ڈشوں کی تیاری کا حکم دے دیا۔ اسے کہتے ہیں سیاست
خیر، وزیر اعظم سے اجازت ملنے کے بعد بیرسٹر ظفر اللہ نے سوئس وکیل کو لکھا کہ وہ حکومت پاکستان کی طرف سے اعتراض داخل کر دیں۔ سوئس وکیل کو ڈالروں میں ادائیگی بھی کی گئی۔ جونہی زرداری کیمپ کو پتا چلا تو انہوں نے خبر چلوا دی کہ انکا ہار سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انہوں نے وہ ہار سوئس حکومت سے مانگا ہے۔ تاہم اصل معاملے کی تصدیق کیلئے وہ دستاویزات میں نے خود دیکھیں ہیں جو وزارت قانون کے پاس موجود ہیں اور حیران ہوا کہ ہم کیسے پکڑے جانے پر مکر جاتے ہیں۔

فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی بیگم صہبا مشرف کو بھی سعودی عرب میں ہیروں کا سیٹ ، زیور ، نیکلس اور سونے کی چوڑیاں تحفے میں ملیں ، وہ بھی اپنے گھر لے گئیں۔

خیر سے اب ایک نئے ہار کی کہانی سامنے آئی ہے۔ ترکی کی خاتون اول نے دورہ پاکستان کے دوران سیلاب زدگان کی مدد کیلئے اپنے گلے سے ہار اتار کر دے دیا کہ اسے بیچ کر مظلوموں کی مدد کی جائے۔ اس ہار کے بارے میں پتا چلا کہ وہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پسند آ گیا تھا اور وہ انہوں نے دو لاکھ روپے دے کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ اسکے پیچھے بھی ایک کہانی ہے کہ ترکی کی خاتون اول نے سیلاب زدگان اور مصیبت کے شکار غریبوں کے لیے نقد پیسے دینے کے بجائے وہ ہار ہی کیوں اپنے گلے سے اتار کر دیا؟

ترک خاتون اول کے اس عمل کو سمجھانے کیلئے مجھے ایک واقعہ سنانا پڑے گا جو مجھے میرے ایک کزن نے سنایا جو ان دنوں ترکی میں موجود تھے اور شاید اس واقعہ کے چشم دید گواہ بھی۔ 2005ء میں جب بڑے پیمانے پر زلزلہ آیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوئے تو دنیا بھر میں پاکستان کیلئے عطیات اکٹھے کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ ترکی میں پاکستانی سفارتخانے نے بھی عطیات جمع کرنے شروع کیے۔ جہاں بہت سارے پاکستانیوں نے عطیات دیے وہاں ترک مرد و خواتین بھی سفارتخانے کے سامنے ایک قطار میں لگ کر عطیات دیتے رہے۔ ایک دن ایک خاتون سفارت خانے آئی، کافی دیر قطار میں لگنے کے بعد جب اس کی باری آئی تو اس نے کھڑکی پر بیٹھے پاکستانی افسر کے سامنے گلے میں پہنے ہوئے تمام سونے کے زیورات اتارے اور اس کے حوالے کر دیے۔ افسر حیران ہوا تو وہ خاتون بولی، یہ میری طرف سے پاکستانی قوم کیلئے عطیہ ہیں۔ افسر بولا:

آپ کا جذبہ سر آنکھوں پر لیکن ہم زیورات عطیے میں نہیں لے سکتے۔ اس پر وہ خاتون بولی، آپ کو یہ لینے ہوں گے۔ افسر نے کہا، آپ انہیں بیچ کر ہمیں پیسے دے دیں جو ہم فنڈ میں جمع کر دیں گے۔ ترک خاتون بولی، نہیں آپ کو یہ زیورات ہی لینے ہوں گے۔

آپ انہیں بیچ کر پیسے فنڈ میں جمع کرا دیجئے گا۔ افسر کی حیرت دیکھ کر وہ خاتون بولی، دراصل ہمیں اپنی درسی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ جب خلافت عثمانیہ کا زوال شروع ہوا اور ترکوں کی حالت بہت خراب ہوئی اور وہ دربدر ہوئے تو اس وقت برصغیر کی مسلم خواتین نے اپنے زیور ترکی بھیجے تھے۔ عورت ہونے کے ناتے مجھے علم ہے کہ عورت کیلئے اپنے بچوں کے بعد دنیا کی سب سے قیمتی چیز زیور ہوتے ہیں۔ ہم آج تک پاکستانی خواتین کے اس جذبے سے متاثر ہیں۔ انہوں نے ہمارے دکھ کا احساس کیا۔ اپنے قیمتی زیورات تک ہمیں بھجوائے۔ میں بھی چاہتی تو ان زیورات کو بیچ کر آپ کو دوسروں کی طرح نقد پیسے دے سکتی تھی، لیکن میں نے اس لیے اپنے زیورات گلے میں پہن کر آئی ہوں اور یہاں جمع کرانا چاہتی ہوں تاکہ پاکستانیوں کو پتا چلے کہ اگر ہندوستان کی مسلمان خواتین نے مشکل وقت میں ترکوں کیلئے اپنے زیورات اتار کر بھیجے تھے تو آج ترک خواتین بھی اپنے زیور اتار کر اپنے پاکستانی بھائیوں کی مشکل میں مدد کرنےکیلئے تیار ہیں۔ اس خاتون نے یہ کہہ کر گلے میں پہنے تمام زیورات اتارے اور کھڑکی پر چھوڑ کر چلی گئی۔

وزیر اعظم گیلانی اور انکی ٹیم کو سمجھنا چاہیے تھا کہ ترک وزیر اعظم کی بیگم کیوں نقدی کی بجائے ایک ہار تحفے میں دے رہی تھیں۔ وہ چاہتیں تو پیسے بھی دے سکتی تھیں۔ ہم یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ ترکی کی خاتون اول نے بھی دوسروں کی طرح اپنے درسی نصاب میں پڑھ رکھا ہوگا کہ کیسے ہندوستان کی مسلم خواتین نے ترکوں کو اپنے زیورات بھجوائے تھے۔ ترک آج تک پاکستانی قوم کی عزت کرتے ہیں۔ اگر دنیا میں کہیں پاکستانیوں کی تھوڑی بہت عزت کی جاتی ہے تو وہ ترکی ہے۔ اسکا پس منظر یہی ہے۔ انکی نسلوں کو پڑھایا گیا کہ ہندوستان سے کیسے زیورات بھیجے گئے تھے۔ پاکستان مشکل میں تھا تو ترک وزیر اعظم کی بیگم اور خود ترک وزیر اعظم نے یہی سوچا ہوگا کہ اس وقت انہیں علامتی طور پر ہار پیش کرنا چاہیے تاکہ پاکستانی اس احساس کو سمجھ سکیں کہ ترکوں کیلئے زیورات کی قربانی صرف ہندوستان کی مسلم خواتین دینے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھیں بلکہ آج کی ترک خواتین بھی اپنے گلے سے زیورات اور ہار اتار کر دے سکتی ہیں۔۔

خاتون اول کو یہ ہار اپنے گلے سے اتار کر جو دلی مسرت ہوئی ہوگی اسکا اندازہ شاید ہم لوگ نہیں کر سکتے، اس لیے کہ اب پیسہ اور بے ایمانی ہمارا کلچر بن گیا ہے۔ ترک خاتون اول کو محسوس ہوا ہوگا کہ اس نے شاید ترک نسلوں پر ہندوستان کی خواتین کا قرض اتار دیا ہے۔ کتنی مطمئن ہوئی ہوں گی۔

ہمیں اگر احساس ہوتا اور ترکوں کے ان جذبات کی قدر کرتے تو ہم اس ہار کو محفوظ کر کے رکھتے اور فخر سے دوسروں کو دکھاتے کہ کیسے ترکی کی خاتون اول نے اپنا قیمتی ہار پاکستانیوں کی محبت میں دیا تھا۔ کوئی میوزیم ہوتا جہاں ایسی چیزیں اپنی آنے والی نسلوں کو دکھاتے اور اپنے بچوں کو بھی اس طرح پڑھاتے جیسے ترکی میں آج تک ہندوستان کی خواتین کی قربانی کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔

مجھے ذاتی طور پر دکھ ہے کہ میرا یوسف رضا گیلانی سے اچھا تعلق رہا ہے۔ میں انہیں ایک اچھا انسان سمجھتا ہوں۔ انہوں نے اپنے بیٹے علی حیدر کے اغوا کے بعد بہت تکلیف سہی ہے۔ جتنی مشکلات انہوں نے جیل میں دیکھی تھیں وہ بہت کم لوگوں نے دیکھی ہوں گی۔ خدا نے انہیں مشکلات کے بعد عزت دے کر وزیر اعظم بنایا۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ اس عہدے کی عزت کرتے۔ ایک دوبارا نہیں منہ پر کہا کہ کرپشن کی کہانیاں انکے قدر کاٹھ کو کم کریں گی۔ سب کچھ پیسہ نہیں ہوتا۔ کتنے بڑے بڑے امیر لوگ مر گئے، مٹی میں مٹی ہو گئے آج انہیں کوئی جانتا نہیں۔ تاریخ بڑے بے رحم چیز ہے۔ یہ کسی کو نہیں بخشتی۔ مرنے کے بعد عزت زندہ رہتی ہے، دولت نہیں۔

شاید گیلانی صاحب نے دل میں کہا ہوگا چھوڑیں جی، پانچ برس جنرل مشرف کی جیل میں بیٹھ کر کیا ملا؟ بچوں کی فیسوں کیلئے گھڑیاں تک بیچنے پڑ گئی تھیں۔ اب موقع ملا ہے تو جو جی چاہتا ہے کرلو۔ وہ بھول گئے کہ جیل میں ہی عزت سے بیٹھ کر انہیں وزیر اعظم کا عہدہ ملا تھا۔ ایمانداری کی بات ہے، یوسف رضا گیلانی خدا کی طرف سے دی گئی اس عزت کو نہیں سنبھال سکے اور اس عہدے کے ساتھ جڑی توقعات پر بھی پورے نہیں اترے۔

معلوم نہیں کیوں اپنے منہ میاں مٹھو بننے کو جی چاہ رہا ہے۔ مجھے بھی سعودی عرب میں وفد کے ساتھ ایک لاکھ بیس ہزار روپے کی گھڑی تحفے میں ملی تھی۔ اس وقت کے سیکرٹری کابینہ رؤف چوہدری، جو آج کل وفاقی محتسب ٹیکس ہیں کے حوالے کر دی کہ توشے خانے میں جمع کرا دیں۔ رؤف چوہدری نے کہا، قانون کے تحت آپ سولہ ہزار روپے دے کر ایک لاکھ بیس ہزار روپے کی گھڑی رکھ سکتے ہیں۔ میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور کہا، اگر ایسا قانون ہے تو وہ غلط ہے۔ یہ گھڑی ریاست کی ہے، میری نہیں۔

سید یوسف رضا گیلانی صاحب کو اس سے بڑی مثالیں قائم کرنی چاہیے تھیں۔ کاش وہ کبھی تاریک اور طویل اندھیری رات مٰں اس پر سوچ سکیں کہ انسان کی زندگی میں وزیر اعظم کے عہدے سے بڑی عزت کیا ہو سکتی ہے؟ بیس کروڑ انسانوں میں سے وزیر اعظم بننے کے بعد کیسی دولت ، کیسی لالچ، کیسا بھتہ، کیسا سوئس اکاؤنٹ، کیسا محل ، کیسے ہار اور کیا قارون کا خزانہ، سب کچھ ہیچ ہے۔

چلیں مان لیتے ہیں، پاکستانی میں وزیر اعظم کے عہدے کی قیمت دو تین لاکھ روپے کا ہار ہو سکتی ہے، لیکن کیا عزت سادات کی قیمت بھی صرف ایک ہار؟؟

رؤف کلاسرا
بہ شکریہ روزنامہ دنیا

Post a Comment

0 Comments