Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سی ایس ایس کے امتحانات میں


بدقسمتی سے ہمارے ملک کا نظامِ تعلیم طبقاتی ہے۔ یہ دراصل وطن عزیز ہی کا عکس ہے کہ ہمارا سماج مختلف طبقات میں تقسیم ہے۔ حصول تعلیم کے مواقع اور ثمرات عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دُور ہیں۔ بڑھتی ہوئی بے مہار مہنگائی اور والدین کی کمر شکن امتحانی تعلیمی فیسوں نے غریبوں اور بے نواؤں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے بالکل ہی محروم کر دیا ہے۔

اس پر ستم یہ کہ غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی نوجوان گریجوایشن یا ماسٹرز کر بھی لے تو اسے نوکری حاصل کرنے کے لیے آزمائشوں کے مزید کئی دریا عبور کرنا پڑتے ہیں۔ معقول روزگار نہ ملنے کے سبب وہ نوجوان گھر کی ذمے داریوں کی کفالت کے لیے کوئی بھی نوکری یا مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جسکے باعث اس کی عمر کا سنہرا دور نکل چکا ہوتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں کیے گئے بیشمار ایسے اقدامات تھے جن کے دَرد کا اثر معاشرے کی ہڈیوں تک سرایت کر گیا۔ چودہ سال قبل سی ایس ایس کے لیے عمر کی حد میں کمی کے فیصلے نے متوسط اور غریب طبقے کے لاکھوں پڑھے لکھے نوجوانوں کا مستقبل تاریک کر دیا۔ سی ایس ایس کے ذریعے نوجوان اپنے کیرئیر کا آغاز گریڈ 17 کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ کر کرتے ہیں اور 30 سے 35 سال بعد صرف 5 گریڈ تک ترقی کرتے ہوئے گریڈ 22 میں پہنچ کر ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔

تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اعلیٰ سول سروس میں داخل ہونے کے لیے بنیادی طور پر سخت ترین امتحانی مقابلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ امتحان کی ضروری شرائط میں طالبعلم کا کم از کم گریجوایٹ ہونا اور انگریزی پر عبور رکھنا شامل ہے۔ جو لوگ امتحان کی سختی اور نزاکتوں سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ قانونی طور پر تو امیدوار کے لیے کم از کم گریجوایٹ ہونا ضروری ہے لیکن حقیقت میں 2001ء سے قبل امتحان میں شامل ہونے کے لیے امیدواروں کو زیادہ سے زیادہ 30 برس کا ہونا ضروری تھا جب کہ سرکاری ملازمین اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد 35 سال کی عمر تک امتحان میں شرکت کے اہل تھے مگر سابق آمر نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے عمر کی حد میں مزید دو سال کمی کر دی جس سے بالائی عمر 30 سے منہا کر کے 28 سال قرار دیدی گئی۔

سی ایس ایس کے امتحان کے لیے عمر کی حد کم کرنے کے فیصلے کے حق میں بعض لوگ کئی توجیہات پیش کرتے ہیں مگر ان کی مخالفت میں صرف دو سوال ہی کافی ہیں، کیا پاکستان کا تعلیمی نظام اپنے پڑوسی ممالک سے بہت اچھا ہو گیا ہے اور اس کے ثمرات معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد تک پہنچ رہے ہیں؟ اور یہ کہ کیا جب سی ایس ایس کے لیے عمر کی حد کم کی گئی تو اس وقت پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سے معاشی اور تعلیمی میدانوں میں بہت آگے نکل گیا تھا کہ عمر کی حد کم کرنا پڑی؟ حقائق یہ ہیں کہ پاکستان معاشی اور تعلیمی لحاظ سے اپنے پڑوسی ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے اور معاشرے کے افراد کے لیے ترقی کی راہیں اور مواقع مسدود اور محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

جب کلرک کی نوکری کے لیے سفارش اور رشوت کا کلچر نشوونما پا چکا ہے تو ایسے میں ایک سی ایس ایس کا امتحان ہی ہے جسکے شفاف طریقہ کار پر عام آدمی کا کسی حد تک اعتماد ہے، اس سلسلے میں عمر کی بالائی حد میں پانچ سال کی رعایت سے ہر سال سیکڑوں نوجوانوں کی قسمت بدل سکتی ہے۔ انڈیا میں سول سروسز کے لیے عمر کی بالائی حد 30 سال تھی جو 2014 ء میں 32 سال کر دی گئی، اور اب یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کے رولز کے مطابق کوئی بھی امیدوار 21 سال سے لے کر 32 سال کی عمر تک ناکامی کی صورت میں چار کے بجائے چھ بار اٹیمپٹ کر سکتا ہے۔

نئے نوٹیفیکیشن کی روسے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے امیدواروں کے امتحان میں شامل ہونے کی تعداد کی کوئی بندش نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ 5 فیصد نشستیں جسمانی طور پر کمزور امیدواروں کے لیے مختص ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بھارت بھر میںد رج فہرست قبائل اور پسماندہ علاقوں کے طالبعلموں کے لیے بالائی عمر کی حد میں 5 سال کی خصوصی چھوٹ دی گئی ہے جب کہ پاکستان میں 21 سے 28 سال کی عمر تک صرف تین بار کی اٹیمپٹ ہے اور یہ اٹیمپٹ ان خوش نصیبوں کا مقدر بنتی ہے جو کم سنی میں کوالیفائیڈ ہو چکے ہوں۔ بنگلہ دیش جیسے ملک میں بھی مقابلے کے امتحانات کے لیے حتمی عمر کی حد 32 سال ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا نظام تعلیم ان دونوں ممالک کے نظام ہائے تعلیم سے زیادہ بہتر ہے کہ یہاں عمر کی بالائی حد28 سال رکھی گئی ہے؟ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں سول سروسز کے لیے عمر کی بالائی حد35 سال ہے۔ پھر بلوچستان، فاٹا، خیبر پختونخوا کے کچھ اضلاع اور اسی طرح سندھ کے دیہی علاقوں کے طلبہ کے لیے بھی عمر کی بالائی حد 30 سال ہے، اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے وہ علاقے جہاں عمر کی حد 28 سال رکھی گئی ہے‘ وہاں کے طلبہ کے لیے ایسی کون سی نمایاں سہولیات ہیں جن کے لیے عمر کو محدود کر دیا گیا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج بھی اکثر طلبہ پارٹ ٹائم ملازمت کر کے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں؟

اس سے تو یہی سمجھ آتی ہے کہ پاکستان کے مراعات یافتہ طبقات اور افسر شاہی نے اپنی اولادوں ہی کو مستقبل کی بیوروکریسی پر قبضہ جمانے کی ناقابل رشک سازش کی ہے۔ ایک مزدور کا بیٹا جب اپنی تعلیم مکمل کرتا ہے تو وہ زندگی کے 25،26 سال گزار چکا ہوتا ہے اوپر سے اس کے ناتواں کندھوں پر گھریلو ذمے داریوں کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔ اب کیا اس کو اتنا حق بھی نہیں کہ وہ ملازمت (اگر مل جائے تو) کے ساتھ ساتھ ایک دو سال تیاری کر کے مقابلے کے امتحان میں شرکت کر سکے؟ کیا حد ِ عمر میں کمی کے ہتھکنڈے کو بروئے کار لا کر غریب والدین کے اہل بچوں کے بنیادی حقوق غصب نہیں کیے جا رہے؟ یہ دراصل ڈس کریمینیشن ہے۔

اس معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مقابلے کا امتحان منعقد کرنیوالے متعلقہ ادارے کے سربراہان اور ممبران بار بار یہ تجاویز دے چکے ہیں کہ مقابلے کے لیے بالائی عمر کی حد 28 سال نہیں بلکہ کم از کم 30 سال ہونی چاہیے۔ کمیشن کے سابقہ ممبران آنجہانی رانا بھگوان داس اور ملک آصف حیات اس مسئلے پر اپنی سفارشات پیش کر چکے ہیں۔ 2014ء میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے لگ بھگ 300 کے قریب ایسے طلباء و طالبات کے داخلہ فارم داخل دفتر کر دیے تھے جن کی عمر 28 سال سے زیادہ تھی اور اس بات پر کمیشن کے افسران کی آپس میں لے دے بھی ہوئی تھی جس کی وجہ سے بالآخر کمیشن کو تین سو داخلہ فارم منسوخ کرنا پڑے۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں سی ایس ایس کے امتحان کی بالائی عمر میں اضافے کے لیے بہت سے لوگوں نے تگ و دو کی مگر نقاب پوشوں نے اپنے مفادات کے لیے ان کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیا۔

یہاں تک کہ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر پبلک سروس کمیشن کے کچھ کرتا دھرتا ارکان نے مقابلہ کے امتحان (سی ایس ایس) کے لیے بالائی عمر میں اضافے کے حوالے سے خاصا دباؤ ڈالا اور اسٹیبلشمنٹ نے ایک سمری بھی وزیراعظم کو ارسال کی مگر وفاقی کابینہ نے اسے بِنا دلیل، یکسر مسترد کر دیا۔ بعد میں یوسف رضا گیلانی یہ کہہ اپنا دامن کشاں ہو گئے کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر سی ایس ایس کی حد ِعمر میں اضافہ ممکن نہیں۔ دسمبر2010ء میں حدِ عمر میں اضافہ کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی سربراہی نیک نام اور فعال تجربہ کار انسان جسٹس بھگوان داس کو سونپی گئی۔ کچھ عرصہ اخبارات میں سی ایس ایس کے امتحان کے لیے مقررہ عمر پر بحث جاری رہی مگر کوشش کے باوجود کمیشن کی جانب سے کوئی فعال اور قابل عمل رپورٹ منظر عام پر نہ آ سکی۔

ابھی یہ چرچا جاری تھا کہ لاہورہائیکورٹ نے سول سروسز کے امتحانات میں امیدواروں کی بالائی عمر کی حد میں رعایت نہ دینے کے خلاف رائے نصر علی سمیت 9 امیدواروں کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا مگر اس وقت بھی حکومت کے ذمے داران کوئی سنجیدہ جواب پیش کرنے سے قاصر رہے۔ کیا دانستہ؟ درخواست دہندگان کا موقف تھا کہ وہ سی ایس ایس کا امتحان دینا چاہتے ہیں لیکن ان کی عمریں 30 سال سے زیادہ ہیں، اس امتحان کے لیے عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 28 سال مقرر کی گئی ہے جب کہ وفاقی حکومت کی دیگر ملازمتوں کے لیے امیدواروں کو عمر کی مد میں پانچ سال رعایت دی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں 2010ء کے نوٹیفکیشن کا بلاامتیاز اطلاق ہونا چاہیے، دیگر امتحانات میں شرکت کرنیوالے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں جب کہ سی ایس ایس والے امیدوار اس سے محروم رہتے ہیں جو آئین کے آرٹیکل 25 کے منافی ہے، لہٰذا مذکورہ نوٹیفکیشن کی روشنی میں سی ایس ایس کے امیدواروں کو بھی عمر کی بالائی حد میں 5 سال کی رعایت دی جائے، کیونکہ آرٹیکل 25 شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے روکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد حکومت ِوقت سے کئی بار جواب طلب کیا مگر جواب نہ دینا تھا نہ دیا گیا۔

موجودہ حکومت کے دور میں بھی بلوچستان کی جمعیت علمائے اسلام کی صوبائی رکن اسمبلی محترمہ حسن بانو رخشانی نے ایوان میں قرار داد پیش کر کے صوبائی حکومت سے سفارش کی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال اور تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے نوجوانوں کی اکثریت سی ایس ایس کے امتحانات میں شمولیت کے لیے عمر کی موجودہ بالائی حد 28 سال کی وجہ سے محروم رہ جاتی ہے جسکے باعث وہ اعلیٰ سول سروس کے مقابلے کے امتحانات میں مقررہ حد پر پوری نہیں اترتی، لہٰذا بلوچستان کی پسماندگی اور مخصوص حالات کے پیش نظر نوجوانوں کی اعلیٰ سول سروس میں شمولیت کی بالائی عمر کی حد 28 سال سے بڑھا کر 35 سال کی جائے تا کہ بلوچستان کے اہل اور قابل نوجوانوں کو اپنے صوبائی کوٹہ کے مطابق ملازمتیں مل سکیں اور ان میں پھیلے احساس محرومی کا ازالہ بھی ہو سکے۔

پھر 2014ء میں ہی تحریک ِانصاف کی صوبائی سیکریٹری اطلاعات محترمہ فردوس جتوئی نے بھی سندھ اسمبلی میں احتجاج کیا کہ سی ایس ایس امتحان کے لیے مقررہ عمر بہت کم ہے اور آج کے حالات اور معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونیوالے اکثر طلبہ عمر کی اس پابندی پر پورے اتر نہیں سکتے، اسلیے سی ایس ایس کے خواہشمندوں کے لیے عمر میں اضافہ کیا جائے۔

آج کل بھی مختلف عوامی حلقوں سے یہ مطالبہ شدومد سے جاری ہے کہ موجودہ حد (28سال) میں اضافہ کیا جائے۔ محدود انگلش میڈیم طبقہ عمر میں اضافے کے خلاف ہے جب کہ اُردو میڈیم‘ دیہی پس منظر اور پسماندہ صوبوں کی اکثریت اس حد میں اضافہ کی خواہاں ہے۔ سی ایس ایس کے نصاب اور طریق کار کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ انگلش میڈیم کے سبب اس امتحان میں بنیادی کردار ہی انگریزی زبان کا ہوتا ہے نہ صرف سوالوں کے جوابات بلکہ انٹرویو بھی انگریزی میں، اس پر مستزاد یہ کہ لازمی انگریزی پرچے کا معیار الامان و الحفیظ! ہمارے ہاں اسکولوں، کالجوں کی سطح تک مضامین کی اکثریت مادری زبان یا پھر اردو میں پڑھائی جاتی ہے ۔

بی اے کا عمومی نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ ’’جسے موت بھی نہ آئی اسے زندگی نے مارا‘‘ کے مصداق باقی سارے مضامین میں پاس ہونے والا انگریزی سے مات کھا جاتا ہے۔ اب انگریزی کی ڈسی ہوئی اکثریت سی ایس ایس میں خاک سرخرو ہو گی؟ یہ بیچاری اکثریت چار پانچ سال زخم چاٹنے کے بعد ہوش میں آتی ہے اور جب رگڑ‘ رگڑا کر انگریزی میں منہ مارنے کے قابل ہوتی ہے تو زائد المعیاد ہونے کی گھنٹی بج جاتی ہے۔

اگر سی ایس ایس کے ذریعے ذہانت اور ٹیلنٹ کی دریافت و پیمائش مطلوب ہے تو پھر بدیشی زبان کی قید نہیں ہونی چاہیے اور اگر بالفرض محال انگریزی میں دسترس ناگزیر ہے تو پھر دوڑ میں شامل کرنے کے لیے اُردو میڈیم کی لنگڑاتی اکثریت کو بھی اپنی ٹانگیں سیدھی کرنے کا موقع دینا چاہیے ورنہ مہنگے اسکولوں‘ کالجوں سے نکلے امراء کے بچے صرف انگریزی میں برتری کے سبب بازی لے جاتے رہیں گے اور سرکاری اسکولوں والے صرف زبان کی عارضی لکنت کے سبب عمر بھر کے لیے محروم و مایوس رہ جاتے رہیں گے۔
یہ بھی عجب طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف قومی زبان اُردو ہے اور دوسری جانب اُردو کو سی ایس ایس کے امتحان میں ثانوی حیثیت بھی نہیں جاتی بلکہ دانستہ اس سے گریز کیا جاتا ہے۔ غریب اکثریت کو تو دہری مار ہے، مہنگی اعلیٰ تعلیم سے محرومی! صلاحیتوں کا اظہار کرنے پر زبان کی قدغن! یہ ناانصافی انگریز کے دور میں تو روا تھی مگر آج نہ صرف سمجھ سے بالاتر ہے بلکہ آزاد مملکت خداداد اور نظریۂ پاکستان کے خلاف بھی ہے۔ سی ایس ایس کے لیے مطلوب بنیادی تعلیمی استعداد بی اے مقرر ہے جو بذاتِ خود سراسر ایک کھلے مذاق سے کم نہیں۔ اس مذاق میں اضافہ کرنے میں اس حقیقت کا بھی دخل ہے کہ یہ نظام قائدانہ‘ صلاحیت‘ دانش اور قابلیت کے معیار کے بجائے صرف امتحان کے نمبروں کے گرد طواف کر رہا ہے ۔

نمبروں کی دوڑ میں شعبوں کا تقدس پامال ہو رہا ہے‘ انگلش میڈیم والے ایم بی بی ایس ڈاکٹر اپنے مقدس پیشے کو چھوڑ کر صرف نمبر لینے کی استعداد کے سبب یہاں بھی آٹپکتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ڈاکٹر نہیں بننا تھا تو ڈاکٹری میں داخلے کا استحقاق استعمال کر کے ایک اور سنجیدہ مستحق امیدوار کی خواہشات پر پانی کیوں پھیرا؟ ارے بھئی سیدھے محنت کر کے سی ایس ایس میں نمودار ہوتے۔ ایسے بیشمار سوالات ہیں جو عمر کی بالائی حد کے علاوہ سی ایس ایس کے موجودہ طریق کار پر اٹھائے جا سکتے ہیں۔ سی ایس ایس کی حدِعمر میں اضافہ کر کے اجتماعی عوامی مطالبے کو پذیرائی بخشی جائے اور غریبوں کی تالیف قلب کا سامان کیا جائے۔

اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مقابلے کے امتحان کے لیے پرویز مشرف نے اسٹیبلشمنٹ کے مفاد پرست ٹولے کے ایماء پر بالائی عمر کی حد30 سال سے کم کر کے28 سال کر دی تھی، جس کی وجہ سے ان گنت طلبہ ہر سال مقابلے کے امتحان میں شرکت سے محروم رہتے ہیں۔ ایک آمر کا بنایا ہوا یہ قانون جو اس کے خوشامدیوں پر مشتمل نام نہاد مجلس شوریٰ نے پاس کیا تھا، اب ہر حال میں ختم ہونا چاہیے اور مقابلے کے امتحان کے لیے بالائی عمر کی حد 28 سے بڑھا کر 32 یاکم از کم 30 سال ہونی چاہیے۔

آخر میں ایبٹ آباد سے شمائلہ ریاض کا ایک خط جس میں انھوں نے خیبرپختونخوا حکومت کی توجہ ایک اہم مسئلے کی جانب مبذول کرائی ہے۔ اُنکا کہنا یہ ہے کہ گزشتہ برس پبلک سروس کمیشن خیبرپختونخوا نے محکمہ اسٹیٹ اینڈ ریونیو میں تحصیلدار کی آسامیوں کے لیے اشتہار دیا تھا، جس میں بھرتی کے لیے تعلیمی معیار اور طریقہ کار وضع کیا گیا تھا۔ اس آسامی کے لیے گریجوایٹ ہونا اور تحریری امتحان میں 50 فیصد نمبر لینا ضروری تھا لیکن بعد میں کمیشن نے اپنا فیصلہ تبدیل کر دیا اور کسی پیشگی اطلاع کے بغیر تحصیلدار کی آسامی کے لیے پہلے قابلیت کا ٹیسٹ لازمی قرار دیدیا۔ اس ٹیسٹ کا انعقاد دسمبر 2014ء میںکیا گیا اور نتیجے کا اعلان فروری 2015ء میں ہوا۔

کے پی کے پبلک سروس کمیشن نے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ تحریری امتحان کے لیے میرٹ بنانے کے بعد اعلان کیا جائے گا اور میرٹ کے لیے 60 فیصد نمبر کی شرط رکھی گئی اور تحریری امتحان میں بھی ان ہی لوگوں کو بیٹھنے کی اجازت دی گئی جن کے نمبر 60 فیصد یا اس سے زائد تھے، حالانکہ اس سے قبل میرٹ 50 فیصد نمبر رکھے جاتے تھے۔

ان آسامیوں پر بھرتیاں تین سے چار سال کے بعد ہوتی ہیں۔ میرٹ بڑھانے کے نتیجے میں وہ افراد جن کی عمر 29 سال تھی، اگلی مرتبہ امتحان میں عمر کی مقررہ حد بڑھ جانے کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکیں گے‘ یہ سراسر ناانصافی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ کے پی کے میں مقابلے کے امتحانات میں عمر کی حد 30 سال سے بڑھا کر 35 سال کی جائے۔ اس کے علاوہ تحریری امتحان کے بعد حتمی نتیجہ آنے میں تین برس کا عرصہ لگ جاتا ہے اور تین برس بعد بھی بہت سے لوگ ملازمت کے حصول میں ناکام رہتے ہیں، لہٰذا صوبائی حکومت سے ہماری استدعا ہے کہ وہ مقابلے کے امتحان میں پاس ہونیوالے تمام افراد کو دوسرے محکموں میں بھرتی کا موقع دیں

رحمت علی رازی

Post a Comment

0 Comments