Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بھائی کے نام...


پیارے بھائی ، پہلے آپ یہی سمجھے ہوں گے کہ اب بھی وہی ہو گا جو پچھلے پچیس ، تیس برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے،پرویز مشرف نے بھی تو اس محبت کی انتہا کر دی تھی جس کی بنیاد ضیاءالحق مرحوم نے رکھی تھی ،آپ سوچ بھی نہیں سکتے ہوں گے کہ عشروں سے چلی آنے والی آپ کے لئے محبت اور بہت ساروں کے لئے مصیبت پر مبنی روایت اچانک ختم ہوجائے گی ، وہ روایت جس میں بلدیہ ٹاو ¿ن کی فیکٹری کو آگ لگے یا چیف جسٹس افتخار چودھری کی آمد پر کراچی لہو لہو ہوجائے ، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ، اور آپ کا اقتدار برقرار رہتا ہے۔ بھائی !آپ حیران ہو رہے ہوں گے مگر اب وہ بہت کچھ ہو رہا ہے جو پاکستان کی سیاسی اور معاشرتی تاریخ میں پہلے نہیں ہوا۔

 کبھی تو چھوٹے موٹے لانگ مارچ ہی حکومتوں کی برطرفی کی وجہ بن جایا کرتے تھے اور کبھی سیاستدانوں کو ان کے گھر بھیجنے کے لئے ان کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ یہ اب ہی ہوا ہے کہ مہینوں چلنے والے دھرنے کے بعد بھی حکومت قائم و دائم ہے۔ بھائی! آپ اتنے برسوں سے ہزاروں میل دورخود کو ایک کمرے میں بند کئے بیٹھے ہوئے ہیں، آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ پاکستان بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے، جمہور کی سلطانی کا زمانہ آ رہا ہے ،بہت سارے نقش کہن مٹ رہے ہیں۔بھائی!آپ کی حالت ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص کئی برسوں کے بعد لاہور کا رخ کرے تو اسے نئے بھول بھلیوں جیسے بننے والے اوورہیڈ برجز اور انٹر چینجز کی وجہ سے سڑکوں اور رستوں کی سمجھ ہی نہ آئے، اسے جانا کہیں اور ہو ، وہ پہنچ کہیں اور جائے ، ڈر تو یہ بھی ہے کہ وہ چالان ہی نہ کروا بیٹھے، اپنی گاڑی ہی نہ بند کروا بیٹھے۔ بھائی! آپ کوبہت کچھ ان جانا ، ان جانا لگ رہا ہے، آپ بری طرح کنفیوژ ہیں، کبھی آپ دھمکیاں دے رہے ہیں، کبھی معافیاں مانگ رہے ہیں۔

ویسے بھائی آپ کا کنفیوژ ہونا بنتا ہے کہ ابھی بظاہر بہت کچھ پہلے جیسا ہے، جیسے عشرت العباد اب بھی سندھ کے گورنر ہیں، خود گورنر ہاو ¿س کی فرمائش اور ضرورت پرآپ نے ان سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی باپ اپنے اشتہاری بیٹے سے عاق نامے کا اشتہار شائع کروا دے تاکہ پولیس اس کے گھر چھاپے نہ مارے ، اسے تنگ نہ کرے، عشرت العباد کے لئے تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ آپ سے لاتعلقی کا اعلان کرتے، یہ باہمی مفاد میں ہونے والا بہترین اقدام تھا۔

 بھائی! آپ یہ بھی سوچ رہے ہیںکہ پچھلے پچیس ، تیس برسوںمیں آپ جتنی مرتبہ بھی ایم کیو ایم سے الگ ہوئے ہیں، جذباتی کارکنوں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو اور ہونٹوں سے نکلنے والی سسکیاں بھی نہیں بدلیں،کئی تواب بھی دھاڑیں مار مار کے روتے ہیں اور آپ اب بھی پچھلی صدی کی طرح اپنا استعفا واپس لے لیتے ہیں۔ بھائی!اگر مجھے کوئی الٹی سیدھی مثال دینے کی اجاز ت ہو توکہوںکہ ابھی تک کچھ ٹارگٹ کلرز اپنے کام میں اسی طرح لگے ہوئے ہیں جس طرح پچھلے تین عشروں میں انہوں نے محنت کے ساتھ اپنا نام اور مقام بنایا ہے۔ 

جمہوری مثال ہے کہ نائین زیرو پر پڑنے والے چھاپوں اور درجنوں اشتہاریوں کی گرفتاریوں کے باوجود کنور نوید خالد کو اتنے ووٹ ملے ہیں کہ ان کی مخالفت میں بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کے لئے بھی آپ کا مینڈیٹ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا، آپ کا یقین درست ہو سکتا ہے کہ جب اگلی عید قرباں آئے تو خدمت خلق فاونڈیشن دوسروں کے مقابلے میں اتنی ہی زیادہ کھالیں جمع کرنے میں کامیاب ہوجائے، جس شرح سے کنور نوید نے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ اب بھی کراچی سے تعلق رکھنے والے شہری چند منٹوں کے نوٹس پر جناح گراونڈ کو یوں بھر دیتے ہیں جس طرح دس، بیس اور تیس برس پہلے بھرا کرتے تھے ۔

اسے خوف کہیں یا احترام، یہ روایت بھی برقرار ہے کہ جب آپ ٹیلی فون پر اپنی گرجدار آواز میں ون، ٹو ، تھری کہتے ہیں تو آپ کی ذات سے زمینی فاصلے میں ہزاروں میل دوربیٹھے لوگوں میں کوئی بچہ تک رونے کی جرا ¿ت نہیں کرتا۔ دہشت گردی کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن بھی تو ایک روایت بن گیا ہے ، بانوے کے آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسران میں سے زندہ بچ جانے والے واحد پولیس افسرراو ¿ انوار نے ایسی پریس کانفرنس کر ڈالی کہ مشرقی پاکستان کا سانحہ یاد آ گیا، بھائی ! ابھی آپ صرف علیحدہ صوبے کی بات کر رہے ہیں مگرجاننے والے جانتے ہیں کہ آپ کے دل میںبلاشرکت غیرے حکمرانی کے حق والی ایک سرزمین کی خواہش کبھی کبھی بہت شدید ہوجاتی ہے۔ 

یہ ملک اس سے پہلے بھی ایسی خواہش کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ یہ الزام اپنی جگہ موجود ہے کہ آپ کراچی کی اردو سپیکنگ اکثریت کو اسی طرح استعمال کر سکتے ہیں جس طرح آج سے چوالیس سال قبل مشرقی پاکستان میں بنگالی بولنے والوں کو کیا گیا مگر جان لیجئے کہ اب حالات اتنے سازگار نہیں جتنے آج سے چوالیس برس پہلے تھے۔

بھائی ! مگرکیا آپ نے غور کیا کہ بہت سارے روئیے بدلے ہوئے ہیں، آپ کو تھوڑے ہی دنوں میں کتنی زیادہ معافیاں مانگنی پڑی ہیں۔ ایک خیال تھا کہ کنور نوید کے جیتنے کے بعد دوسرے آپ سے معافی مانگیں گے اور جان لیں گے ان کے لئے ایم کیو ایم سے بہتر کوئی حلیف نہیں ۔ خیال یہ بھی تھا کہ آپ کی طرف سے مارشل لاءلگانے کی بار بار ظاہرکی جانے والی خواہش کا صرف احترام ہی نہیں ہو گا بلکہ کوئی اہم ذمہ داری بھی دے دی جائے گی جوخوابوں کے نئے متوقع سیٹ اپ میں آپ کے حصے کی ضمانت ہوگی۔ 

آپ سے پہلا افسوس تو اس آئیڈئیے کے مسترد ہونے کا کرناہے جو اس سے پہلے متعدد بار آپ اور ہم نوا کامیاب کرواچکے ہیں مگر اس سے پہلے کہ آپ مزید افسردہ ہوں ، آپ جان اور مان لیں کہ کوئی بھی آپ کو سیاسی طور پر ختم نہیں کرنا چاہتا،اس کا اندازہ آ پ کو کنور نوید کی کامیابی سے ہو گیا ہو گا مگر چاہے جتنی مرضی مزاحمت کر لی جائے آخر کار پارٹی کا وہ عسکری ونگ ختم کرنا ہی پڑے گا جو کراچی کا سیاسی کلچر بن چکا جس کے مقابلے میں دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی بھتے لینے اور مخالفین کو سبق سکھانے کے لئے گینگ بنانے پڑے۔ 

ذرا سوچیں ، اگر فیصلہ سازامن و امان یقینی بنانے کے لئے فاٹا میں ان طالبان کے خلاف ہتھیار اٹھا سکتے ہیں جو کبھی پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کاایک سٹریٹیجک تقاضا سمجھے جاتے تھے تو پھر آپ کی حیثیت اور اہمیت تو آمریت کے قیام کے لئے ایک سیاسی ضرورت سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔آپ کو پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کو اپنے پاو ¿ں تلے دبائے رکھنے کی اجازت کیسی دی جا سکتی ہے،جان لیں،ماضی کے وہ تمام این او سی ختم ہو گئے ۔ 

پاک فوج کے ترجمان کی طرف سے آپ کی دھمکیوں کے جواب میں لفظ بے ہودہ کا استعمال ، ہمارے ریاستی اداروں کی طرف سے، امن و امان یقینی بنانے کے لئے آخری حد تک جانے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ آپ خود سوچ لیں کہ ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ موجود الزامات کی وجہ سے آپ پاکستان واپس نہیں آ سکتے لیکن اگر آپ نے اپنی پرانی چال ہی برقرار رکھی تو آپ کا اپنے نئے وطن میں رہنا بھی محال ہو جائے گا۔ ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں کہ اب ان سیکٹر انچارجوں کے ساتھ سیاست ناممکن ہے جن کے خوف سے زمانہ لرزتا ہے۔

بھائی! جہاں آپ نے اتنی معافیاں مانگی ہیں تو ایک معافی مزید مانگ لیں، اپنی صفوں میں موجود ان تمام لوگوں کو قانون کے حوالے کر دیں جو قانون شکنی میں ملوث رہے۔ پارٹی تنظیم کی تطہیر کرتے ہوئے ذمہ داریاں ، اختیارات اور طاقت ان لوگوں کو دیں جو سیاسی سوچ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آنے والوں کی نسلیں اگر آپ کو اپنا لیڈر سمجھتی ہیں تو انہیں اس تعلق اور اعتمادکی سزا مت دیں۔ آپ امن، روشنیوں، ادبی،ثقافتی اور کاروباری سرگرمیوں سے بھرا کراچی واپس کر دیں ، آپ ہمیں معاف کر دیںگے تو ہم بھی آپ کو معاف کر دیںگے۔ہم آپ کے مشکور ہوں گے۔

فقظ

آپ کے کروڑوں پاکستانی بھائی۔

نجم ولی خان

Post a Comment

0 Comments