Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

مغربی ذرائع ابلاغ کی جانبداریت


یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ذرائع ابلاغ رائے سازی، ذہن سازی اور رجحان سازی میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ حکومتیں بھی پالیسی سازی میں ذرائع ابلاغ کے آراء و افکار کو کلیدی اہمیت دینے پر مجبور ہیں۔امریکی و مغربی ممالک کے شہریوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنے میڈیا کی فراہم کردہ اطلاعات کو اس لئے درست تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں ’’متبادل ذرائع‘‘ موجود نہیں ہیں۔ حقائق و حالات نے ثابت کیا ہے کہ امریکی و مغربی میڈیا بھی مکمل طور پر آزاد میڈیا نہیں۔ان کی طنابیں بھی اپنے اپنے ممالک کی بعض نادیدہ اور غیر مرئی ایجنسیوں کے آہنی ہاتھوں میں ہیں۔

ان آہنی ہاتھوں نے امریکا و مغرب کے معصوم شہریوں کے اذہان و قلوب کومیڈیا کے زنداں خانے میں یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ذرائع ابلاغ پر امریکا و مغرب کی اجارہ داری ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس پرخالی خولی برہمی، خفگی اور ناراضگی مسئلہ کا حل نہیں اور نہ ہی اس پر کسی کو نالاں اور ناراض ہونے کی ضرورت ہے۔ اظہار برہمی سے حقائق بدل نہیں جایا کرتے۔ عالم اسلام کے مقتدر طبقات اس زندہ حقیقت کو فراموش کر چکے ہیں کہ عالمی سطح پر ان کی پسپائی اور ہزیمت کی ایک بڑی وجہ عالم اسلام کے پاس آزاد اور موثر سیٹلائٹ میڈیا کی عدم موجودگی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ جدیدجنگ صرف اسلحی بالادستی کے بل بوتے پر ہی نہیں بلکہ کارگر اور موثر میڈیا کے ہتھیار کے ذریعے بھی لڑی جاتی ہے۔
اس ضمن میں عالم اسلام کے متمول ممالک کی بے حسی اور غفلت ایک لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے پاس وسائل وذرائع کی اس قدرفراوانی اور طغیانی ہے کہ ایک بڑے میڈیا چینل کا قیام ان کیلئے کسی بھی طور کارناممکن نہیں۔عالم اسلام کو ابلاغیاتی سطح پر بھی ناقابل تسخیر بنانے کی ضرورت ہے۔ان متمول اور دولت مند ممالک کے مقتدر طبقات کو یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ امریکا و مغرب کے وہ ذرائع ابلاغ جو اپنے شہریوں کے قلوب و اذہان کومخصوص پروپیگنڈا کے حصار میں مقید کر سکتے ہیں، ان کیلئے کوئی بعید نہیں کہ وہ عالم اسلام کے شہریوں کے اذہان و قلوب پر شبخون نہ مار سکیں۔وقت آ گیا ہے کہ ثروت مند اور دولت مند اسلامی ممالک کے ارباب اقتدار و اختیار خواب غفلت سے بیدار ہوں اور عالم اسلام کے شہریوں کو اغیار کے پروپیگنڈا کے پنجہ تسلط سے رہائی دلوائیں۔ اس باب میں سنجیدہ کردارکی ادائی کیلئے انہیں اب کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے۔

جب تک میڈیا کے محاذ پر امریکا و مغرب کی بالادستی اور تسلط کا توڑ نہیں کیا جاتا، عالمی رائے عامہ اجارہ داروں کے پروپیگنڈا کے طلسم کا شکار رہے گی۔ عالم اسلام کے شہریوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اصل حقائق تک رسائی کیلئے ان کے پاس سرے سے کوئی اپنا اور قابل اعتمادابلاغیاتی ادارہ موجود نہیں۔ جب تک ایک ایسا موثر ادارہ قائم نہیں کیا جاتا، امریکی و مغربی شہری گمراہ کن تصورات و نظریات کی دھند کے اسیر رہیں گے۔ یہ امرغنیمت ہے کہ مغرب کے معدودے چند باضمیر اور باخبرحلقے امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ کے اس یک طرفہ مسموم و مذموم پروپیگنڈے کا طلسم توڑنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اکیسویں صدی کے پہلے عشرہ کے پہلے سال ہی سے عالم اسلام کو عالمی طاقت اور اس کے ہمنوا مغربی ممالک کے ایجاد کردہ اور تخلیق کردہ مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
عالمی طاقت ستمبر 2001ء کے بعد سے ایک ایسے روڈ میپ پر عمل پیرا ہے جس کا مقصود و منتہا عالم اسلام کے عام شہریوں کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ اہلیتوں، صلاحیتوں اور قابلیتوں سے محروم ایک ایسا منتشر گروہ ہیں جو کبھی ترقی، بہبود اور فلاح کی منازل تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ ستمبر 2001ء کے بعد سے عالمی طاقت عالم اسلام کے ہر ملک کے داخلی معاملات میں جس خطرناک حد تک مداخلت کر رہی ہے، اس کے خلاف عالم اسلام کے اکثر قدآور اور جرأت مند رہنما صدائے احتجاج بلند کر چکے ہیں۔

مہاتیر محمد،رجب طیب اردوان ، مصر کے جمہوری صدر محمد مرسی عالمی برادری کو بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ ’’امریکا نے طاقت کا استعمال جاری رکھا تو عالمی جنگ خارج از امکان نہیں‘‘۔ یہ الگ بات کہ امریکہ بعض شہ دماغ مفکرین کی رائے کے مطابق ستمبر2001ء سے’’ ملی ٹینٹ سول‘‘ رکھنے والے مسلم ممالک کے خلاف غیر علانہ تیسری علمی عالمی جنگ کا آغاز کرچکا ہے۔ امریکہ کی ترجیح ان ممالک کو ڈی ملٹریلائز کرکے ان کے جملہ وسائل و ذرائع پر قبضہ کرنا ہے۔ عالمی طاقت اپنے ایجنڈے کو طاقت کے بل بوتے پر مشرق وسطیٰ کے شہریوں پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ اسی ایجنڈے کے تحت اس نے افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن اور مصر کو دائمی عدم استحکام کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ یہ روش یقیناً غیر مستحسن اور غیر جمہوری ہے ۔

اقوام متحدہ ایسے اداروں کی موجودگی میں دنیا کے کسی بھی ملک کے کسی بھی حکمران کی جانب سے پیشگی حملے کی ڈاکٹرائن پیش کرتے ہی عالم اسلام کے کسی شہر پر دھاوا بولنے اور چڑھائی کرنے کے اقدام کو آزادی کی بحالی اور جمہوریت کے فروغ کی جانب پیشرفت قراردینا یقیناً فسطائیت کا مظہر ہے۔دنیا کا کوئی بھی قانون کسی بھی ملک کے حاکم کو اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی کی جمہوریت اور اپنی من پسند آزادی کو فروغ دینے کیلئے عالم اسلام کے کسی بھی ملک کے خلاف فوجی طاقت کا اندھا دھند استعمال کرے اور تمام عالمی قوانین اور ضوابط اخلاق کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اندھی طاقت کے جنونی زعم میں اسے جائز بھی قرار دے۔ فوجی طاقت کا استعمال کر کے آزادی اور جمہوریت کی بحالی اور استحکام کی فسطائیانہ اور جنگجویانہ کوششیں اور کاوشیں امن عالم کو تہ و بالا کر رہی ہیں۔

دنیا کا کوئی قانون امریکا یا اس کے کسی حواری ملک کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ آئے روز عالم اسلام یا دنیا کے کسی اور ملک کے داخلی معاملات اور صورت حال کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس حد تک آگے جائے کہ وہ اس ملک کے خلاف کارروائی کا حق محفوظ رکھنے کا دعویٰ کرے۔

ایک امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق 2005 ء میں امریکی دفتر خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے یونائیٹڈ سٹیٹ کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے حوالے سے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کا اعلان کرنے کے بعد یہ کہا تھا کہ ’’امریکا پاکستان میں مذہبی آزادی کی صورت حال کو قریب سے مانیٹر کر رہا ہے‘‘۔ اس عہدیدار نے پاکستانی پارلیمنٹ سے منظور شدہ قوانین کے حوالے سے بھی منفی ریمارکس پیش کئے اور تجویز کے عنوان سے پاکستانی حکومت کو ڈکٹیشن دی کہ وہ حدود آرڈیننس اور دیگر قوانین میں ترامیم کے حوالے سے حوصلہ افزا اقداما ت کرے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی ایک خودمختار ریاست کے ارباب حل و عقد کو دنیا کا کونسا قانون اختیار دیتا ہے جس کے تحت وہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے قانون ساز اداروں اور حکمرانوں کو قانون سازی کے حوالے سے بھی بے طلب ہدایات کا اجرا کرے۔

پاکستانی شہریوں کی اکثریت امریکی حکام اور بعض مغربی ممالک کے حکمرانوں کی اس روش کی بھرپور مذمت کرتی ہے کہ وہ پاکستان میں رائج عوامی اور شہری اکثریت کی امنگوں اور محسوسات کے عکاس توہین رسالت کے قانون کے استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کے ’’احکامات‘‘ جاری فرما رہے ہیں۔ امریکا ہو، اس کے حواری ممالک ہوں یا کوئی بین الاقوامی ادارہ، قطعاً اس امر کا مجاز نہیں کہ وہ ایک آزاد، باوقار اور خودمختار مملکت کے قوانین کو نقد و نظر کے پیمانوں سے ماپے۔ خاص طور پر ایسے قوانین جنہیں پاکستانی پارلیمان، عوام اور اس کی عدلیہ کی بھرپور تائیدو توثیق حاصل ہے۔ اس امر کا اختیار صرف اور صرف پاکستان کے 20 کروڑ عوام کو ہے کہ وہ اپنے معروضی حالات اور مخصوص تہذیبی روایات اور دینی اقدار و شعائر کی روشنی میں کن حدود و دوائر میں قانون سازی کرتے ہیں۔

یہ مانے بناء چارہ نہیں کہ اگر اب بھی تغافل اور تساہل کی روایتی روش سے چمٹے رہنے کی بد عادت کو عالم اسلام کی رولنگ کلاس نے فی الفورخیرباد نہ کہا تو آنے والے دنوں میں عالم اسلام کے شہریوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالم اسلام کے مقتدر طائفہ کو بھی اس ضمن میں انتہائی سنجیدگی، فرض شناسی، تندہی ، سرگرمی اور فعالیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ اہم ترین بین الاسلامی پلیٹ فارموں پر اعلیٰ ترین شخصیات کا اظہار خیال عالم اسلام کے شہریوں کے زخموں کا مرہم، دکھوں کا مداوا اور مسائل کا حل نہیں۔

تجاویز پیش کرنے والی یہ اعلیٰ ترین شخصیات ہی مجاز ہیں کہ وہ ان تجاویز پر عملدرآمد کیلئے اخلاقی جرأت اور فطری دلاوری کا مظاہرہ کریں۔ عالمی طاقت، عالمی ادارے یا کسی بھی عالمی مالیاتی ادارے کی ڈکٹیشن پر کسی بھی اسلامی ملک کے نظام معیشت اور نظم مملکت کو چلانے والے تابع مہمل قسم کے حکمرانوں کو سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا، انہیں آزاد اسلامی ریاستوں کے آزاد قائدین کی حیثیت سے عالم اسلام کے تمام ممالک کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ اور دفاع کیلئے جرأت مندانہ مؤقف اپنانا ہوگا۔ انفعالیت پسندانہ رویئے کسی بھی ملک کے قائد کو خوشحالی، حقیقی ترقی اورسچی بہبود کے جنت زار آباد کرنے کی اہلیت اور استعداد ودیعت نہیں کر سکتے۔

حافظ شفیق الرحمان
بہ شکریہ روزنامہ نئی بات


Post a Comment

0 Comments