Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

را اور پاکستانی خفیہ ادارے ۔ ایک جائزہ

امریکہ کا تزویراتی اتحادی اور خطے کی بڑی اقتصادی طاقت ہونے کے ناطے ہندوستان آس لگائے بیٹھا تھا کہ 2014ء کے بعد امریکہ افغانستان میں اسے اپنا جانشین بنادے گا۔ اس مقصد کے لئے اس نے سابق افغان حکومت پر کثیر سرمایہ کاری بھی کی تھی اور ایران کے ساتھ بھی لمبے چوڑے منصوبے بنا رکھے تھے۔ شروع میں امریکی رویے سے بھی یہ دکھائی دیتا تھا کہ وہ افغانستان میں ہندوستان کو اپنا جانشین بناکے نکلے گا لیکن جس طرح امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سوچا تھا ، اس طرح نہیں ہوسکا۔ 
افغانستان سے انخلاکا وقت قریب آیا تو امریکیوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ پاکستان کے بغیر بات نہیں بن سکتی۔ چنانچہ انہوں نے مستقبل کی صورت گری میں مجبوراً پاکستان پر انحصار بڑھا دیا۔

ہندوستان کو یہ بھی توقع تھی کہ نئی افغان حکومت حامد کرزئی حکومت سے بڑھ کر پاکستان مخالف ہوگی لیکن ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے یکسر الٹ اور حقیقت پسندانہ پالیسی اپنا کر پاکستان کی طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھا دیا۔ اس نے عسکری اور تزویراتی حوالوں سے پاکستان کے وہ مطالبات تسلیم کرلئے جو حامد کرزئی صاحب بارہ سال میں تسلیم نہیں کررہے تھے ۔ یوں افغانستان سے متعلق سیاسی ، سفارتی اور تزویراتی حوالوں سے ہندوستان کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے ۔ اس تناظر میں ہندوستان کے پاس پاکستان کے ساتھ حساب برابر کرنے کا واحد راستہ اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ذریعے پاکستان اور افغانستان میں اپنے پراکسیز کو استعمال کرنے کا ہی رہ گیا۔ 

چنانچہ ’’را‘‘ نے ایک طرف افغانستان میں اپنے مہروں کو پاکستان کے خلاف متحرک کر دیا۔ دوسری طرف ایک پڑوسی خلیجی ملک کی انٹیلی جنس کے تعاون سے بلوچستان میں نئے منصوبوں پر کام شروع کر دیا اورتیسری طرف افغانستان اور پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کو وسائل کی فراہمی بڑھا دی ۔ اس دوران چین پاکستان اکنامک کاریڈور کا منصوبہ حقیقت کا روپ دھارنے لگا۔

ہمارے خود غرض اور سطحی سوچ کے مالک سیاسی رہنما سمجھیں یا نہ سمجھیں لیکن ہندوستان اور ایران کے تزویراتی ماہرین بخوبی سمجھتے ہیں کہ اپنی اصل روح کے مطابق اس منصوبے کی کامیابی پورے خطے کے لئے خوشحالی کا موجب بنے گی جس کی چابی گوادر کی صورت میں پاکستان کی جیب میں آجائے گی اور نتیجتاً ہندوستان نہیں بلکہ چین خطے کا بادشاہ بن جائے گا۔ چنانچہ ایران اور ہندوستان نے مل کر اس منصوبے کے خلاف ایکا کرلیا ۔ ایک طرف وہ دونوں مل کر چاہ بہار کو گوادر کے متبادل کے طور پر تیار اور پیش کرنے لگے۔

 دوسری طرف وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو پاکستان کے اندر متنازع کرنے کی کوششوں میں لگ گئے (بدقسمتی سے اس کے لئے مواد خود حکومت فراہم کر رہی ہے) اور تیسری طرف ’’را‘‘ نے پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا تاکہ چین اور پاکستان اس منصوبے کو آگے ہی نہ بڑھاسکیں اور بیرونی سرمایہ کار پاکستان کارخ کرنے کا سوچ ہی نہ سکیں۔ ’’را‘‘ کی یہی فعالیت اور کردار ہے جس کا اظہار کورکمانڈرز کے اجلاس کے بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں کیا گیا اور جس کا اب پاکستانی دفتر خارجہ بھی ذکر کرنے لگا ہے۔

سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب ’’را‘‘ ایسا کررہی ہے تو پاکستانی ایجنسیاں تدارک کیوں نہیں کرسکتیں۔ اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ پاکستانی ایجنسیاں کمزور نہیں۔ پاکستان کی ایک ایجنسی کا شمار آج بھی دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ پاکستانی ایجنسیاں بے اختیار ہیں بلکہ ان کا شمار دنیا کی بااختیار ترین ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔ عملاً وہ پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں اور نہ عدالتیں ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں ۔ پی پی او اور نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد تو انہیں قانونی طور پر بھی غیرمعمولی حد تک آزاد اوربااختیار بنا دیا گیا ہے ۔

 تو پھر سوال یہ ہے کہ ’’را‘‘ کی مذکورہ سازشوں کو وہ کیوں خاطر خواہ حد تک روک نہیں سکتیں۔ میرے نزدیک پہلی وجہ اس کی یہ ہے کہ ’’را‘‘ اور پاکستانی ایجنسیوں کے وسائل کا کوئی موازنہ نہیں۔ ہندوستان کے دفاعی بجٹ اور پاکستان کے دفاعی بجٹ کا موازنہ کر کے دیکھ لیا جائے تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جہاں پاکستانی ایجنسیاں سو روپے خرچ کر سکتی ہیں ، وہاں ہندوستانی ایجنسیاں دس ہزار خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک میں آج بھی سب سے بڑا ہتھیار پیسہ ہی ہے ۔

وہ لوگ جو ٹینک اور توپ کے آگے ڈٹ کے کھڑے رہتے ہیں، نوٹ کے آگے ڈھیر ہوجاتے ہیں ۔ دوسری وجہ ا سکی یہ ہے کہ ’’را‘‘ کی بیشتر توانائیاں بیرون ملک اور خصوصاً پاکستان کی طرف صرف ہوتی ہیں لیکن ہماری ایجنسیوں کی زیادہ تر توانائیاں اندرونی محاذ پر صرف ہوجاتی ہیں ۔ ماضی قریب میں ایک ایجنسی کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ دھرنے کامیاب بنارہی تھی اور دوسری ناکام بنارہی تھی۔ میڈیا کے وہ عناصر جن پر اس غرض سے سرمایہ کاری کی گئی تھی کہ وہ پاکستان دشمنوں کے خلاف پروپیگنڈا کریں گے ، داخلی محاذ پر استعمال کئے گئے۔

 پچھلے سال وہ تنظیمیں جو ہندوستان کے مقابلے میں تیار ہوئی تھیں، ایک میڈیا گروپ کی سرکوبی کے لئے استعمال کی گئیں۔ تیسری وجہ اس کی یہ ہے کہ ہندوستان میں فوجی اور سول ادارے پاکستان کے خلاف یک زبان ہیں۔ وہاں کی خفیہ ایجنسیوں کے اقدامات کو ان کی سیاسی قیادت ، میڈیا یا پھر سول سوسائٹی کی مکمل تائید حاصل ہوتی ہے جبکہ سیاسی قیادت کے پاکستان سے متعلق عزائم کو کامیاب بنانے کے لئے فوج اور خفیہ ادارے اس کے ہمنوا رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے سول ملٹری ہم آہنگی کا شدید فقدان ہے۔

وزیراعظم کے ذاتی خیالات بھی کچھ اور ہیں اور ان کی کابینہ کے وزراء بھی خلوتوں میں کچھ اور کہہ رہے ہوتے ہیں ۔ سول ملٹری قیادت کی ہم آہنگی کے لئے کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی و دفاع تشکیل دی گئی ہے ۔ اس کے ایجنڈے پر درجنوں ایشوز جن میں پاک بھارت تعلقات سرفہرست ہے ، پڑے ہوئے ہیں لیکن وزیراعظم صاحب پچھلے چھ سات ماہ سے اس کا اجلاس بلانے سے گریزاں ہیں ۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے درمیان کوآرڈنیشن موجود ہے اور سب ایک سمت میں عمل کرتے نظر آتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا کوئی میکنزم موجود نہیں ۔ 

نیکٹا کا ادارہ اسی مقصد کے لئے بنایا گیا تھا اور موجودہ حکومت کی پیش کردہ داخلی سلامتی پالیسی میں اسی نیکٹا میں سب کچھ اکٹھا کیا گیا ہے لیکن اس حکومت نے نہ اس ادارے کو فنڈز دئیے، نہ ا سٹاف مہیا کیا اور نہ اس کو فعال بنانے کے لئے کوئی قدم اٹھایا۔ گویا جس بنیاد پر ساری عمارت کھڑی ہونی تھی، سرے سے وہ عمارت ہی موجود نہیں۔ الٹا پچھلے چند ماہ کے دوران وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا کوآرڈنیشن بھی ختم ہوگیا ہے ۔ کئی ماہ سے وزیر اعظم اور وزیرداخلہ کی بات چیت بند ہے۔ اسی طرح وزیرداخلہ اور وزیر دفاع بھی ایک دوسرے کا نام سننا گوارا نہیں کرتے ۔

اب جس حکومت میں وزیراعظم اور وزراء کے درمیان یا پھر وزراء کا آپس میں کوآرڈنیشن نہ ہو، وہ سول ملٹری اداروں یا پھر خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان خاک کوآرڈنیشن کرسکے گی ؟۔ پانچویں وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ پاکستان نے ہندوستان کی ریشہ دوانیوں کے مقابلے کے لئے جو پراکسیز تیار کررکھے تھے، وہ پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے ساتھ خلط ملط ہوگئے۔ اگر ان پراکسیز کو پاکستان میں دوستانہ ماحول فراہم کیاجاتا ہے تو پاکستان سے لڑنے والے عسکریت پسندوں کا کام مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے اور اگر سختی کی جاتی ہے تو پھر وہ پراکسیز بھی زد میں آتی ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کی مشرقی سرحد پر کشمیری مجاہدین اور ان کے حامی عسکریت پسندوں کا داخلہ تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے ۔ چنانچہ ہندوستان کو جواب نہیں مل رہا اور وہ آزادی کے ساتھ اپنی خفیہ ایجنسی اور ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں پوری قوت کے ساتھ دہشت گردی کو ہوا دینے لگا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان کے خفیہ ادارے یا قانون نافذ کرنے والے کمزور ہیںاور نہ نااہل۔ مسئلہ قیادت کی ترجیحات کا ہے، مسئلہ یکسوئی کے فقدان کا ہے، مسئلہ کوآرڈنیشن کے فقدان کا ہے اور مسئلہ سول ملٹری عدم ہم آہنگی کا ہے۔

سلیم صافی
"بشکریہ روزنامہ "جنگ

Post a Comment

0 Comments