Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سیاسی کارکن یا ٹشو پیپر

صولت مرزا کی باقی باتوں میں صداقت ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر مجھے اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ صرف ایم کیو ایم ہی نہیں، بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو ٹشو پیپر ہی سمجھتی ہیں۔ سیاسی کارکنوں کے لئے ٹشو پیپر کی اصطلاح مَیں نے بہت سال پہلے اس عنوان سے لکھے گئے کالم میں استعمال کی تھی۔ یہ کالم مَیں نے اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر لکھا تھا۔ میرے اردگرد آج بھی ایسے بے شمار افراد ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کسی سیاسی جماعت کے لئے وقف کئے رکھی، لیکن اس کا نتیجہ انہیں سوائے رائیگانی کے اور کچھ نہ ملا۔ ایم کیو ایم شاید کارکنوں کو کسی اور طرح ٹشو پیپر بناتی ہو، تاہم تلخ حقیقت یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں وقت پڑنے پر کارکنوں کے پاؤں پکڑ لیتی ہیں، وقت گزر جائے تو انہیں استعمال شدہ کارتوس کی طرح پھینک دیتی ہیں۔ مَیں ایسے کتنے ہی کارکنوں کو جانتا ہوں، جنہوں نے پولیس کی ماریں کھائیں، جیلیں بھگتیں، مخالفین کا تشدد برداشت کیا، لیکن اپنے راستے سے نہ ہٹے، مگر جواب میں انہیں کیا ملا؟۔۔۔ در در کی ٹھوکریں، بیروزگاری،مایوسی اور صعوبتیں۔

سیاسی کارکن ہمارے سیاسی نظام کی وہ مظلوم مخلوق ہیں، جو خود رو پودوں کی طرح سیاسی جماعتوں کو مل جاتے ہیں۔مفت کے یہ خدمت گزار شاید دُنیا میں اور کہیں نہ پائے جاتے ہوں۔ایک بار مَیں نے سیاسی کارکنوں کے لئے ’’کرائے کے مقتول‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی تھی، جس پر بعض سیاسی جماعتوں کے بڑے رہنما جو مجھے اپنا دوست کہتے نہیں تھکتے، مجھ سے ناراض ہو گئے تھے۔ مَیں نے لکھا تھا کہ دُنیا بھر میں کرائے کے قاتلوں کی تو دستیابی کسی نہ کسی ذریعے سے ہو ہی جاتی ہے، لیکن کرائے کے مقتول صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں ، سیاسی جماعتیں اپنی تحریکوں میں جان ڈالنے کے لئے ایک دو سیاسی کارکنوں کی لاشوں کا انتظار ضرور کرتی ہیں، جب کسی طرح یہ خواہش پوری ہو جاتی ہے تو اُن لاشوں کو کندھوں پر اُٹھا کر سربازار نکل آتی ہیں۔ 

مرنے کے بعد سیاسی کارکن کی عزت سیاسی جماعتوں کی نگاہ میں دو چند ہو جاتی ہے، کیونکہ اُس کی لاش درحقیقت قارون کا وہ خزانہ ہوتا ہے، جس سے اُن کی تحریک میں جان پڑتی ہے۔ وہ اس خزانے کو اٹھائے اٹھائے پھرتی ہیں۔ جب وقت گزر جاتا ہے تو کوئی اس بے چارے کے ورثاء کی طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا، سیاسی کارکن زندہ ہو یا مردہ، اس کا مقدر بالآخر ٹشو پیپر جیسا ہی ہوتا ہے۔

صولت مرزا آج خود کو نشانِ عبرت قرار دے کر ٹشو پیپر سے تشبیہ دے رہے ہیں، لیکن جس وقت وہ استعمال ہو رہے ہوں گے، انہیں ٹشو پیپر بننے میں بھی بڑی راحت محسوس ہوتی ہو گی، جس طرح کھانے کے دوران ٹشو پیپر کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،اسی طرح کسی تحریک یا خاص مقاصد کے لئے سیاسی کارکن بڑی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ انتخابات کے دِنوں میں تو سیاسی کارکن سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے لئے ایک ایسی جنسِ نایاب بن جاتے ہیں، جس کے ناز اٹھائے جاتے ہیں اور جسے اس طرح سر پر بٹھایا جاتا ہے، جیسے وہ سر کا تاج ہو۔۔

 دُنیا میں ہر جگہ چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہیں، پودے توانا درخت بن جاتے ہیں، بچے بڑے ہو کر نوجوان کا روپ دھار لیتے ہیں، کلرک بھرتی ہونے والا ترقی کرتے کرتے افسر بن جاتا ہے، پہلی جماعت میں داخلہ لینے والا بچہ پڑھتے پڑھتے ایم اے کرتا ہے، غرض ارتقا کا عمل ہر جگہ نظر آتا ہے، لیکن سیاسی کارکن وہ واحد مخلوق ہے جو کارکن کی حیثیت سے کسی سیاسی جماعت میں آتا ہے اور اِسی حیثیت میں زندگی گزار کر دُنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔

اُسے زندگی میں اپنے لیڈروں کی کاسہ لیسی کرنا پڑتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے اُن کی منتیں، چھوٹی موٹی ملازمت کے لئے اُن کے ڈیروں پر ڈیرے ڈالنے پڑتے ہیں، کوئی انہیں جیالا کہتا ہے اور کوئی متوالا، کوئی لیڈر دیکھو یا کوئی سیاسی جماعت،اُس کا تکیہ کلام یہ ضرور ہوتا ہے کہ کارکن ہمارا سرمایہ ہیں، یہ وہ سرمایہ ہے جو سڑکوں پر کیچڑ اور گارے کی صورت میں بڑی گاڑیوں کے ٹائروں تلے روندا جاتا ہے، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان جب سیاسی کارکن کا روپ دھارتے ہیں، تو اُن کی تعلیم کا پہیہ رُک جاتا ہے۔
 
مَیں بے شمار ایسے لوگوں کو جانتا ہوں، جنہوں نے جمہوریت کے جنون اور اپنے کسی پسندیدہ لیڈر کی محبت میں سیاسی کارکن کا لباس پہنا، اپنی تعلیم کو ثانوی حیثیت دی۔ طلبہ تنظیموں کے لڑائی جھگڑوں میں شامل رہے، مقدمات بنوائے، تعلیم ادھوڑی چھوڑی اور پھر کسی سیاسی رہنما کے آلۂ کار بن گئے۔ اُن کی حالت عملاً سیاسی مزارعوں جیسی ہو گئی، جس طرح مزارعے وڈیروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اُسی طرح یہ سیاسی کارکن بھی چند سیاسی بڑوں کے کاسہ لیس بن کر رہ جاتے ہیں۔

سال تو مجھے بھی ہو گئے ہیں، سیاسی کارکنوں کے ساتھ ہونے والا ڈرامہ دیکھتے۔ سیاست دانوں کو ہر دور میں یہ نئی فصل دستیاب ہو جاتی ہے۔ آج تک مجھے تو کوئی ایک بھی ایسی مثال نظر نہیں آئی کہ کسی سیاسی جماعت نے اپنے لئے قربانیاں دینے والے کسی عام کارکن کو انتخابات میں ٹکٹ دی ہو، اُسے اسمبلی کا رکن بنوایا ہو۔ سیاسی کارکن تو ٹکٹ کے لئے درخواست بھی نہیں دے سکتے، کیونکہ اُس کے ساتھ بھی50ہزار روپے یا زائد کا ڈرافٹ لگانا پڑتا ہے۔ کیا کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ آج تک مختلف سیاسی جماعتوں کے جو کارکن مظاہروں کے دوران جاں بحق ہوئے، اُن کے لواحقین کو کیا ملا۔ کیا کسی نے مڑ کر بھی اُن کی طرف دیکھا۔

سیاست دانوں کو اپنے اردگرد بکھری اس مخلوق پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ہوتی، چہ جائیکہ وہ مرنے والوں کے لواحقین کو دیکھیں۔ کسی جماعت نے اگر بھولے سے کسی کارکن کو ٹکٹ دے بھی دیا ہو تو اس کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے جیسے اسمبلیوں میں سیاسی کارکنوں کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں۔ مجھے اُس وقت بڑی ہنسی آتی ہے جب کوئی بڑا سرمایہ دار یا وڈیرا خود کو سیاسی کارکن کہہ کر اپنا تعارف کراتا ہے۔ گویا ایک طرف اُن کے لئے سیاسی کارکن ہونا فخر کی بات ہے، مگر دوسری طرف وہ اس ورثے کے حقیقی وارثوں کو حقارت کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔

مَیں سمجھتا ہوں پاکستان میں جمہوریت کا جتنا بھی حسن ہے، وہ سیاسی کارکنوں کا مرہون منت ہے۔ جمہوریت کی جتنی بھی بدنمایاں ہیں، اُن کی ذمہ داری سیاسی کارکنوں پر عائد نہیں ہوتی۔ جمہوریت کو بحال کرانے میں ہمیشہ سیاسی کارکنوں نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا، لیکن انہیں جمہوریت کے ثمرات کبھی نہیں ملے۔ میرے نزدیک وہ سیاسی کارکن نہیں، جو اپنی قیادت کے حکم پر بندوق اٹھاتا ہے اور قتل و غارت گری کا مرتکب ہوتا ہے۔ سیاسی کارکن تو بس سیاسی کارکن ہوتا ہے، وہ سیاست کے ذریعے تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ مَیں صولت مرزا جیسے کرداروں کو سیاسی کارکن نہیں مانتا، ایسے لوگوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور آج انہیں نشانِ عبرت بننا پڑا ہے۔
 
سیاسی کارکن کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہتی ہے، لیکن جو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جائیں، اُن سے سیاسی جماعتیں جان چھڑاتی ہیں، انہیں ڈس اون کر دیتی ہیں۔ پاکستان میں جب تک سیاسی جماعتیں کارکنوں کو تنظیمی معاملات میں شامل نہیں کرتیں، اسمبلیوں میں انہیں نمائندگی نہیں دیتیں اور سب سے بڑھ کر اُن کی رائے کا احترام نہیں کرتیں، اُس وقت تک پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ سیاسی کارکنوں کو بھی اب یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ انہیں کون بے وقوف بناتا ہے اور کہاں انہیں ناجائز طور پر استعمال کیا جاتا ہے؟ انہیں اپنے قائدین پر نظر رکھنے کا پورا حق ہے اور اس حق کا دانشمندانہ استعمال ہی انہیں ٹشو پیپر بننے سے بچا سکتا ہے۔

نسیم شاہد

Post a Comment

0 Comments