Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

یہ تو اندھیر نگری تک نہیں - وسعت اللہ خان



پچیس اپریل دو ہزار آٹھ کو بینک آف پنجاب کے سابق صدر ہمیش خان کا نام بیرونِ ملک سفر پر پابندی کی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا۔ کیونکہ ان پر نو ارب روپے کی بدعنوانی کا الزام تھا۔ ایک ماہ بعد ہمیش خان پشاور ایئرپورٹ سے ایف آئی اے کے امیگریشن افسروں کی مبینہ مدد سے امریکی پاسپورٹ پر دوبئی پہنچ گئے۔

مغربی ممالک میں ملازمت و نقل مکانی کے نام پر جھانسہ دے کر ایک سو پانچ
پڑھے لکھے خواتین و حضرات سے پانچ سو ملین روپے کا فراڈ کرنے کے الزام میں عاصم ملک کا نام دو ہزار بارہ میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا۔ صرف لاہور پولیس کو ہی ملک صاحب اٹھانوے مقدمات میں مطلوب تھے۔ ایک دن خبر آئی کہ وہ آرام سے طیارے میں بیٹھ کر لندن پہنچ گئے۔

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے سابق سربراہ توقیر صادق کا نام بیاسی ارب روپے کی خُرد برد کے الزام میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا۔ اور پھر وہ براستہ نیپال دوبئی پہنچ گئے۔

امن و امان کی بہتری کے لیے موجودہ کراچی آپریشن شروع ہونے سے پہلے پولیس اور ایجنسیوں کو مطلوب متعدد تجربہ کار بھتہ خور، ٹارگٹ کلرز، اور مافیا ڈان یورپ، جنوبی افریقہ، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا وغیرہ نکل لیے۔ ان میں سے بیشتر ملزمانِ کرام کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے سہولت سےگزر گئے۔

لیاری کی پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ جو سندھ پولیس کو پچاس سے زائد سنگین مقدمات میں مطلوب تھے۔ کراچی آپریشن شروع ہونے سے دو ماہ پہلے آرام سے دوبئی پہنچ گئے۔ جانےسے کچھ عرصہ پہلے محترم مطلوب ملزم صاحب نے حکومتِ سندھ کے متعدد طاقتوروں کو لیاری میں لنچ پر مدعو کیا اور صحافیوں کی کثیر تعداد کو دعوتِ افطار الگ سے دی اور کئی ٹی وی ٹاک شوز میں کراچی کے ابتر حالات پر ماتم بھی کیا۔ چونکہ عزیر بلوچ کبھی بھی وفاقی وزارتِ داخلہ کو کسی جرم میں مطلوب نہ تھے۔ اس لیے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں کیوں ہوتا اور انہیں کون روکتا؟تینوں ٹیکسی پکڑ کے کراچی پریس کلب کے باہر فٹ پاتھ پر لگے لاپتہ افراد کے ورثا کے کیمپ میں واپس پہنچ جاتے ہیں اور حسبِ معمول پاکستان دشمن سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

چوبیس دسمبر دو ہزار بارہ کو ایک نوجوان شاہ رخ جتوئی کے ہاتھوں دوسرا نوجوان شاہ زیب خان قتل ہوجاتا ہے۔ تین دن بعد ملزم شاہ رخ جتوئی اپنے ایک بھائی اور دوست کے ہمراہ ایئرپورٹ پر صوابی کے ایک رہائشی کے نام پر بنے پاسپورٹ پر بورڈنگ پاس حاصل کرتا ہے۔ اتفاقاً امیگریشن کاؤنٹر پر لگے کیمرے میں شاہ رخ اور اس کے ہمراہیوں کی تصویر بھی کھچتی اور نہ ہی پاسپورٹ پر ایگزٹ کی مہر لگتی ہے۔ چنانچہ فلائٹ کے ایک سو انتالیس مسافروں کے ریکارڈ میں شاہ رخ اور اس کے ساتھیوں کا نام بھی شامل نہیں ہو پاتا اور طیارہ آزاد فضاؤں میں بلند ہوجاتا ہے۔

اب سے چار روز قبل وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے نائب صدر ماما قدیر بلوچ، جنرل سیکرٹری فرزانہ مجید بلوچ اور ان کی ساتھی فائقہ بلوچ کراچی ایئرپورٹ پہنچتے ہیں۔ ان تینوں کے پاسپورٹوں پر پانچ سال کا ملٹی پل امریکی ویزا لگا ہوا ہے۔ وہ نیویارک میں انسانی حقوق کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جارہے ہیں۔ انہیں بورڈنگ پاس جاری ہوچکا ہے۔ ان کا سامان بُک ہوچکا ہے۔

اور پھر امیگریشن کاؤنٹر پر ایک افسر انہیں بتاتا ہے کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ہے اور ایک گھنٹے پہلے پاکستان مخالف سرگرمیوں کے الزام میں ان کے خلاف ایف آئی آر کٹ چکی ہے۔ لہذا وہ طیارے پر سوار نہیں ہوسکتے۔ فائقہ بلوچ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نہیں ہے مگر وہ چونکہ دو ملزموں کے ساتھ سفر کررہی ہے لہذا وہ بھی پرواز نہیں کر سکتی۔

تینوں کو الگ الگ کمروں میں تین سے چار گھنٹے بٹھایا جاتا ہے۔ اور پھر پاکستان مخالف سرگرمیوں کے الزام میں حراست میں لیے بغیرگھر واپسی کی اجازت مل جاتی ہے اور پھر تینوں ٹیکسی پکڑ کے کراچی پریس کلب کے باہر فٹ پاتھ پر لگے لاپتہ افراد کے ورثا کے کیمپ میں واپس پہنچ جاتے ہیں اور حسبِ معمول پاکستان دشمن سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments