Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

احساس کمتری یا احساسِ برتری....

الفریڈ ایڈلر ایک مشہور نفسیات دان ہے، اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ احساسِ کمتری اور احساسِ برتری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ احساسِ کمتری انسانی شخصیت کی وہ کیفیت ہے جس میں وہ اپنے آپ کو جسمانی، ذہنی یا سماجی طور پر دوسروں سے کمتر محسوس کرے۔ احساسِ کمتری کسی بھی عمر میں پیدا ہو سکتی ہے، مگر عموماً یہ بچپن میں پیدا ہوتی ہے، جس میں والدین، اساتذہ، دوست یا رشتہ دار کوئی بھی اس احساسِ کمتری کو اُبھارنے کا موجب بن سکتا ہے۔ 

اگر اِن میں سے کوئی بچے کی تضحیک کرے، اس پر بے جا تنقید کی جائے، اُس کا مذاق اُڑایا جائے تو وہ کم اعتمادی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتا ہے اور اپنا تقابل دوسروں سے کرنے کی عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔احساس کمتری کبھی کبھی ایک محرک کا کام کرتا ہے اور انسان میں یہ لگن پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنی خامی کو خوبی میں بدل دے، اِس طرح وہ اپنے احساس کمتری پر قابو پا لیتا ہے، جیسا کہ ڈومیسدھن بچپن میں قوتِ گویائی کے خلل میں مبتلا تھا، مگر بڑے ہو کر ایک عظیم سپیکر بنا۔

احساس کمتری پر اگر قابو نہ پایا جائے تو یہ انسان میں مایوسی، افسردگی یا بے چینی کی کیفیت پیدا کرتا ہے جو آگے جا کر کئی نفسیاتی مسائل کا موجب بن جاتا ہے، جبکہ احساسِ برتری میں مبتلا انسان اصل میں احساسِ کمتری کا ہی شکار ہوتا ہے، لیکن لاشعوری طور پر اس احساس کو دباتے ہوئے احساس برتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ دوسروں پر تنقید، طنز بازی اور تحقیر آمیز رویہ اُس کی شخصیت کا خاصہ بن جاتی ہے۔ 

وہ دوسروں کی غلطیوں اور کمزوریوں کو اُچھال کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ غرض بہت سی اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایسا انسان اپنے آپ کو بہت خاص سمجھتا ہے اور اُس کو اپنے آپ میں کوئی خامی نظر نہیں آتی، اسی لئے وہ اپنی اصلاح کی بھی کوشش نہیں کرتا۔

احساسِ کمتری یا احساسِ برتری کے حامل انسان کا نفسیاتی، اخلاقی اور فکری رجحان صحت مندانہ طور پر پروان نہیں چڑھتا، جبکہ خود اعتماد انسان دوسروں کی عزتِ نفس کی قدر کرتا ہے اور مجروح نہیں ہونے دیتا۔ اپنی خوبیوں، خامیوں کا ادراک رکھتا ہے اور اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔علم نفسیات، تحقیق و جستجو اور غور و فکر میں لگی ہوئی ہے کہ کس طرح انسان کو جسمانی، ذہنی اور جذباتی طور پر بہتر بنایا جائے۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ اللہ جو ہمارا خالق ہے اُس سے بہتر ہمیں کون جان سکتا ہے، اِس لئے اللہ نے قرآن و سنت کے ذریعے ہمارے جسمانی، روحانی، جذبا تی اور سماجی طور پر صحت مندانہ طور پر پروان چڑھنے کے اُصول بنائے ہیں جن پر عمل کر کے ہم دنیا و آخرت دونوں سنوار سکتے ہیں۔قرآن مجید میں غور و فکر اور تحقیق و جستجو کی اہمیت کا بار بار ذکر ہے۔

 اسی طرح حدیثِ نبویؐ ہے:’’تھوڑی دیر غور و فکر کرنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے‘‘۔ اسلام نے ہمارے کردار اور اخلاق کو بہتر بنانے کے لئے بار بار اخلاقِ حمیدہ پیدا کرنے پر اُبھارا اور زبان کے غلط استعمال کے نقصانات سے آگاہ کیا۔ارشاد نبویؐ ہے:لوگوں کی برائیاں ڈھونڈنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔(مسلم)۔

دوسروں کی دِل آزاری کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا۔ایک اور جگہ ارشاد ہے:مومن طعنے دینے والا ہوتا ہے نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش بکنے والا اور نہ دوسروں کے ساتھ حقارت آمیز رویہ رکھنے والااِسی لئے ایک اور جگہ ارشاد ہے :آدمی کے لئے اتنی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر قرار دے ۔۔۔(مسلم

مسلمانوں کو ایک جسم قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ ایک حصے میں تکلیف ہو گی تو سارے جسم کو تکلیف ہو گی۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری زبان سے نکلے ہوئے لفظ دوسروں پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ تلوار کا زخم تو مٹ جاتا ہے، کیا ہمارے کہے ہوئے لفظوں کا زخم کبھی مٹ سکتا ہے۔ ہم دوسروں کی عزتِ نفس آسانی سے مجروح کرتے ہیں، لیکن ہم پر بات آئے تو مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا کبھی ہم نے اپنے آپ سے ملنے کے لئے وقت نکالا؟ جس دین نے ہمیں سکھایا کہ دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لئے کرتے ہو تو کیا ہم واقعی ایسا کرتے ہیں؟ 

کیا ہمیں یہ احساس ہے کہ ہمارا رویہ، ہمارا بات کرنے کا انداز دوسروں کی شخصیت کو بگاڑنے یا سنوارنے میں کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ دوسرے اور کوئی نہیں ہمارے اپنے رشتے دار، دوست احباب اور ہمارے کولیگز ہوتے ہیں۔ اگر ہم سب دوسروں کی خودی اور عزت نفس کو اُبھاریں تو سوچیں کہ جیسے قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، ہم ایک پر اعتماد، پر امن اور صحت مندانہ رجحان رکھنے والا معاشرہ تشکیل دینے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں ایسا نہ ہو کہ یہ احساس محرومی و احساس کمتری کا دائرہ وسیع ہوتے ہوتے ہماری قوم کا مزاج بن جائے اور احساس کمتری کی ماری قوم کیا ترقی کرے گی؟ ذرا سوچئے

اشفاق احمد صاحب کی اس بات پر اختتام کرتی ہوں کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔۔۔ آمین

صائمہ وحید

Post a Comment

0 Comments