Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سول سوسائٹی کی جنت و جہنم....


ایک زمانہ تھا جب لوگ اپنے کسی پیارے کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد فوراً دستِ دعا بلند کرتے تھے، اللہ سے اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتے، اس کے درجات کی بلندی کی استدعا کرتے اور اسے جنت الفردوس میں مقام عطا کرنے کے لیے اللہ کے سامنے درخواست گزار ہوتے۔ یہ کیفیت صرف مسلمانوں کی ہی نہیں تھی بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والے اپنے پیارے کو آیندہ دنیا کے سفر پر روانہ کرتے تو اس کی یاد میں جو بھی تقریب منعقد ہوتی وہ دعائوں اور رب کے حضور التجائوں سے آغاز اور انجام پاتی۔

ہم میں سے ہر کسی کا یہ ایمان تھا کہ مرحوم جس دنیا میں چلا گیا ہے وہاں اسے ہماری نعرہ بازی، جلسوں اور پوسٹر بازی سے زیادہ ہماری دعائوں کی ضرورت ہے۔ کوئی مظلوم کسی ظالم کے ہاتھوں قتل ہوتا، کوئی وطن کی حفاظت میں جان دیتا، یا چوروں ڈاکوئوں سے لڑتا زندگی کی بازی ہارتا، ہم ایسے شہیدوں کے لیے دعائیہ تقریبات منعقد کرتے کہ ہمارا ایمان تھا کہ یہ لوگ تو اللہ کے ہاں بخشے جا چکے ہیں لیکن ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے سے ہمارے اپنے گناہ کم ہوں گے اور ہماری بھی بخشش کا سامان مہیا ہوگا۔ یہ وہ زاد۔ راہ تھی جو ہم اپنے پیاروں کو دیا کرتے تھے۔ کسی کی یاد میں قرآن پڑھ کر اور کسی کی برسی پر دعائوں کے نذرانے دے کر۔ لیکن جس طرح ’’سول سوسائٹی‘‘ کے نام پر اس ملک سے اور بہت سی اقدار چھینی جا رہی ہیں، اب یہ قدر بھی موم بتیاں روشن کرنے میں بدل گئی۔

موم بتیاں کب سے روشن ہونا شروع ہوئیں، انھیں کیوں روشن کیا جاتا تھا اور اب اسے ایک معاشرتی رواج کیوں دیا جا رہا ہے۔ دنیا میں یہودیوں نے سب سے پہلے مٹ زاوہ (MITZAWAH) کے نام پر موم بتیاں روشن کرنا شروع کیں ، اسے خواتین روشن کرتیں اور اس کا مقصد عورت کے اس ازلی ابدی گناہ کی تلافی کرنا تھا جس کا ماخذ یہودی اپنی کتاب تا عود کے پیرا 31۔ب سے لیتے ہیں، ’’اے عورت تم سے ایک جرم سرزد ہوا تھا جس کی پاداش میں ہمیں جنت سے نکلنا پڑا۔ تم سانپ کی دلکشی پر فریفتہ ہو گئیں اور اس کے بہکاوے میں آ گئیں اور پھر تونے ہمارے باپ آدم کو بھی اس میں شریک کرلیا۔

یوں تمہاری وجہ سے اس زمین بلکہ ہماری زندگیوں میں بھی اندھیرا چھا گیا۔ اس لیے اب تمہیں موم بتیاں روشن کر کے دنیا میں روشنی کو واپس لانا ہو گا‘‘۔ موم بتی کو روشن کرنے اور عورت کی غلطی کی تلافی وہ یوم سبت یعنی ہفتے کے دن کے تہوار کے طور پر کرتے ہیں۔ یہ موم بتیاں جمعہ کی شام یعنی ہفتے کی رات کو روشن کی جاتی ہیں۔ عورتیں دو موم بتیاں جلاتی ہیں، ایک تورات کے باب Exodus8:20 کے مطابق جب یہودیوں کو اپنے وطن سے دربدر کیا گیا تھا اور دوسری تورات کی پانچویں کتاب Deuteronmy کے فقروں 5:12 کے مطابق جن میں یوم سبت منانے کے لیے کہا گیا ہے۔

عورتیں موم بتیاں جلا کر اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے ڈھانک لیتی ہیں۔ پھر شکر ادا کرتی ہیں کہ خدا نے ہمیں مقدس بنایا اور ہمیں سبت کی شمعیں جلانے کا حکم دیا۔ یہودیوں کا ایک اور تہوار ’’ہنوکا‘‘ HANUKAH ہے جو یہودی مہینے کزلیو KISLEV کی 25 تاریخ کو آٹھ دن کے لیے منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار 165 قبل مسیح میں یہودیوں کی یونانی اور شامی فوجوں پر فتح کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسے ’’چنوہا‘‘ CHANUH یعنی روشنیوں کا تہوار بھی کہا جاتا ہے۔ ان آٹھ دنوں میں یہودی مسلسل موم بتیاں روشن کرتے ہیں۔ موم بتیاں جلانا ان کے لیے ان تہواروں تک ہی محدود نہیں، بلکہ مرنے والے کی موت کی سالگرہ کے دن بھی موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔

اس خاص موم بتی کا نام YAHRTZEIT رکھا گیا ہے۔ کسی سانحے، تشدد یا بربریت میں مرنے والوں کی یاد میں موم بتیاں جلانے کا رواج بھی یہودیوں نے شروع کیا۔ جنگ عظیم دوم کے بارے میں یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ساٹھ لاکھ افراد قتل کیے گئے تھے۔ ان ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل کی یاد میں ہر سال ،،یوم نشوہا،، YOM-E-NASHOAH منایا جاتا ہے اور ہر گھر، عبادت گاہ اور یہودی عمارت پر موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں۔ موم بتی جلا کر مرنے والوں کی یاد منانے کی یہ رسم یہودیوں نے خود ایجاد کی اور اس کا ان کے دین سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ اس کے بارے میں کوئی احکامات موجود تھے۔

ان کی دیکھا دیکھی اس رسم کو عیسائیت نے بھی اپنا لیا حالانکہ اس کا کوئی حکم نہ انجیل میں موجود تھا اور نہ ہی قدیم روایات میں اس کا تذکرہ ہے۔ اس کا آغاز مشرقی آرتھو ڈوکس چرچ نے اپنی عبادت سے کیا جس میں پورے کا پورا مجمع ہاتھ میں موم بتی پکڑے کھڑا ہوتا ہے۔ قربان گاہوں پر موم بتیاں روشن کی جانے لگیں، مشرقی کیتھولک، اورینٹل کیتھولک بلکہ رومن کیتھولک سب کے سب موم بتی کو مسیح کی روشنی سے تعبیر کرنے لگے۔ اس رواج کو مقدس بنانے کے لیے کہا گیا کہ چرچ میں جلائے جانے والی موم بتیوں میں کم از کم 51 فیصد موم شہد کی مکھیوں کے چھتے سے حاصل کیا جائے۔

ایسٹر کے موقع پر ایک خاص موم بتی روشن کی جاتی ہے جسے پاشل PASCHAL کہا جاتا ہے۔ اسے مسیح کے ایسٹر کے دن دوبارہ زندہ ہونے کی علامت کے طور پر جلایا جاتا ہے۔ لیکن ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حادثے کے بعد موم بتیاں جلانے کو ایک عالمی رسم بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ رسم عام آدمی نے قبول نہیں کی بلکہ ہمارے معاشرے کی ایک نئی ایجاد سول سوسائٹی نے کی۔ یہ سول سوسائٹی کیا ہے۔ اس کا تاثر پوری دنیا کے غریب معاشروں میں ایسا ہے جیسے ساری قوم جاہل، ان پڑھ گنوار، ظالم، متشدد اور بیہودہ ہے اور یہ چند فیشن زدہ۔ مغرب سے مرعوب اور اپنی زبان و تہذیب سے نا آشنا لوگ ہی ہیں مہذب اور انسان دوست ہیں۔

یہ سول سوسائٹی روسی کیمونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد کارپوریٹ سرمائے سے بننے والی جمہوری حکومتوں نے دنیا کے غریب ملکوں میں ایک عالمی کلچر کے فروغ کے لیے بنائی تا کہ ان کا مال بک سکے۔ پہلے کسی ملک میں حکومت ہوتی تھی اور دوسرے عوام۔ دنیا کی تمام حکومتیں اور عالمی انجمنیں حکومتوں کو قرض دیتی تھیں تا کہ وہ عوام پر خرچ کریں۔ لیکن اسّی کی دہائی میں ان حکومتوں کو کک بیک اور عالمی رشوت خوری کے ذریعے کرپٹ کیا گیا اور پھر ایک وسیع پراپیگنڈے سے بدنام کیا گیا تا کہ مغربی حکومتیں اور عالمی انجمنیں غریب ملکوں میں براہ راست لوگوں کو امداد دیں۔ اس کے لیے این جی اوز بنائی گئیں۔

ہر ملک کے سفارت خانے نے مدد دینے کی کھڑکی کھول لی، عالمی ادارے بھی انھی این جی اوز کو گرانٹ دینے لگے۔ یہ لاکھوں روپے تنخواہ، پر تعیش دفاتر اور بڑی بڑی ائرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں گھومنے والے انھی این جی اوز کے ملازم تھے یا پھر ان کے کرتا دھرتا۔ ان تمام مفت خوروں نے ملکر ایک گروہ تشکیل دیا جس کا نام سول سوسائٹی ہے۔ یہ دنیا کے ہر غریب ملک میں پایا جاتا ہے۔ افریقہ میں اس کی بہتات ہے۔ یورپ میں عوام سڑکوں پر نکلتی ہے لیکن افریقہ اور ایشیا میں سول سوسائٹی۔ عالمی امداد پر پلنے والے اس گروہ کا ایجنڈا بھی وہی ہے جس کی بنیاد پر انھیں سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے۔

اس کی سب سے آسان پہچان یہ ہے کہ یہ لوگ آپ کو کبھی بھی مغرب میں توہین رسالت کے واقعہ یا کارٹون چھپنے پر سڑکوں پر نظر نہیں آئیں گے لیکن کسی بھی شاتم رسول کی یاد میں شمعیں جلانے ضرور آ جائیں گے۔ یہ کسی بھتہ خور اور قاتل کے قتل کے خلاف بینر نہیں اٹھائیں گے خواہ وہ بلدیہ ٹائون میں 272 افراد کو زندہ جلا دے، لیکن کسی مولوی کے ایک بیان پر رات دن احتجاج کریں گے۔ افغانستان اور عراق میں امریکی افواج لاکھوں لوگوں کا قتل عام کر دے، انھیں کبھی دکھ نہیں ہوتا لیکن ایک امریکی کو اغوا کر کے قتل کر دیا جائے تو ان کو انسانیت یاد آ جاتی ہے۔

یہ ان کا حق ہے جس کو چاہیں روئیں یا جس پر چاہیں نہ روئیں لیکن دکھ یہ ہے کہ ان کی وجہ سے قوم پہلے اپنے شہیدوں کو، بے گناہ مر جانے والوں کو، یا پھر اپنی کسی محبوب شخصیت کی یاد منانے کے لیے اکٹھا ہوتی تو اپنے پروردگار سے دست بددعا ہوا کرتی تھی لیکن شاید ہم اب ان لوگوں کے لیے دعا کرنا بھی بھول جائیں گے۔ بس موم بتی جلائی، تصویر بنوائی اور آرام سے سو گئے۔
صوفیاء اور اہل نظر کا عقیدہ ہے کہ ہر جمعہ کی رات ارواح اکٹھا ہوتی ہیں تو اگر کسی کی اولاد یا چاہنے والے نے اس کے لیے مغفرت کی دعا کی ہوگی، کوئی تلاوت اس کے نام سے کی ہوگی، کوئی نیکی کا کام یا رفاہِ عامہ کا کام اس کے نام منسوب کیا ہو گا تو یہ اسے تحفے یا اجر کے طور پر ملتا ہے۔ ان ارواح کے ہجوم میں سب سے شرمندہ اور پژمردہ وہ روح ہوتی ہے جس کی اولاد یا پیار کرنے والے اسے ایسا تحفہ نہیں بھیجتے۔ ہم نے زندوں کو تو مایوس کیا تھا اب ہم نے مردوں کو بھی مایوس کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب ہمارے مُردوں کے نصیب میں سول سوسائٹی کی جنت یا جہنم ہے۔

اوریا مقبول جان

Post a Comment

0 Comments