Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

اے راہِ حق کے شہیدو ، وفا کی تصویرو....وسعت اللہ خان


کرکٹ واحد کھیل ہے جس میں کسی ٹیم کی کامیابی و ناکامی کے پیچھے جو اسباب ڈھونڈے جاتے ہیں، ان میں سلیکشن میں میرٹ یا ڈی میرٹ ، بدنیتی و ایمانداری ، بے دلی و خوش دلی ، باڈی لینگویج ، جوش و خروش کی کمی یا زیادتی ، ایمپائر کی بے ایمانی و ایمانداری ، پچ کی سستی و تیزی ، موسم کی خرابی و جولانی ، گھاس پر نمی کی موجودگی و عدم موجودگی ، گیند کا نیا یا پرانا پن ، ہوم گراؤنڈ کی مدد یا عدم مدد ، قسمت و بدقسمتی ، نیٹ پریکٹس یا نان پریکٹس اور سٹے کا شک وغیرہ شامل ہیں۔بس کوئی دن جاتا ہے کہ کسی بھی میچ کی ہار جیت کے پیچھے یہود و ہنود ، آئی ایس آئی ، را ، سی آئی اے اور موساد کی سازش بھی دریافت ہوا چاہتی ہے۔

ایک اچھے بھارتی یا پاکستانی کی تعریف یہ ہے کہ وہ بیوی کا کوسنا،بچے کا رونا، افسر کی گالی، پولیس کی لاٹھی ، گنوار کی بدتمیزی ، چائنا کا مال ، ہمسائے کا احمق پن ، عرب کی رعونت ، لائن آف کنٹرول پے فائرنگ ، میڈیائی جہالت ، تحقیقی سرقہ ، حصولِ ویزہ کی ذلت ، وکیل کے ہاتھوں لٹائی ، اناڑی ڈاکٹر کی تشخیص، بیسوا کا طعنہ ، کٹھ ملا کی تقریر ، سیاسی دھوکا ، فوجی شکست، امریکی امداد ، بے وزن شاعری ، بری اداکاری، نوٹنکی تھیٹر ، ٹرین کا جھٹکے دار بیت الخلا ، بے سری قوالی ، چربہ فلم، صاف ستھرا ٹی وی ڈرامہ ، پانی والا گوشت ، محبوب کی بے وفائی ، پرہیز گار ماتحت، دو نمبر وعدہ، تنگ جوتا اور پھٹا ہوا موزہ تو برداشت کر سکتا ہو مگر انڈیا پاکستان کے کرکٹ میچ کی فتح و شکست سہنا اس کے بس سے باہر ہو۔

کہنے کو تو بھارت اور پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے مگر ایک عرصے سے ہاکی دونوں ممالک میں اتنی ہی پاپولر ہے جتنی مقبولیت بھارت میں راشٹر پتی پرناب مکھر جی اور پاکستان میں صدر ممنون حسین کو حاصل ہے۔یہ کرکٹ ہی ہے جس میں فتح و شکست بتاتی ہے کہ بھارتی اور پاکستانی سپوت ہونے کا دراصل معنی کیا ہے۔کبھی کبھی تو یوں لگے ہے گویا کرکٹ ہی دراصل نظریہ ِ پاکستان اور بھارتیہ سیکولر ازم کی بنیاد ہے۔اور انگریز نے آزادی ہی اس شرط پر دی تھی کہ کرکٹ کو بھی شاملِ عقیدہ رکھنا ہوگا۔

اور ممالک میں بھی کرکٹ ہوتا ہوگا پر ہمیں اس سے کیا۔ ورلڈ کپ ، ٹی ٹوئنٹی ، ون ڈے سیریز ، ٹیسٹ میچز وغیرہ تو ٹھیک ہیں لیکن انڈیا پاکستان میچ کس دن ہے ؟ یہ معلوم ہونا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ ہر جن بچہ اپنی اپنی بساط و اوقات کے مطابق تعریفوں اور گالیوں کا پہلے سے اسٹاک کر سکے۔ کرکٹ اور بھارت اور پاکستان کا کرکٹ میچ دو مختلف دنیائیں ہیں۔ ان دنیاؤں کے اپنے اپنے آداب ، نئیم ، پرمپرائیں ، سرحدیں اور لفظیات و مغلظات ہیں۔ہوسکتا ہے باقی اقوام کے لیے کرکٹ شدھ ہو مگر بھارت اور پاکستان کے لیے کرکٹ یدھ ہے۔میچ شروع ہونے سے کم ازکم اڑتالیس گھنٹے پہلے میڈیا کے سر پے سینگ ابھرنے لگتے ہیں جو میچ کی صبح تک بالکل ایک ہسپانوی سانڈ کی طرح نوکیلے اور تیار ہو چکے ہوتے ہیں۔ ٹاس کی رسم تک اپنی اپنی ٹیموں کی اینکرانہ رجز خوانی چلتی رہتی ہے۔

’’ آج ہمارے شاہین دشمن پر جھپٹنے کو بے تاب ہیں۔نہ اپنی جیت نئی ہے نہ ان کی ہار نئی۔ دو روایتی حریف، دو دشمن آمنے سامنے۔وکٹ سازگار ہے۔موسم بھی صاف ہے۔یہی سنہری موقع ہے پرانی شکستوں کا بدلہ لینے کا۔بیٹنگ لائن کمزور ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ ہر کھلاڑی جذبہِ ایمانی سے سرشار اور تبلیغی روح سے دوچار ہے۔اور جب مقابلہ بھارت جیسے کفر سے ہو ( محمد شامی کو چھوڑ کے ) تو پھر کون سا کھلاڑی ہوگا جس کا لہو نہ ابلے۔کروڑوں ماؤں بہنوں کی دعائیں بھی تو ٹیم کے ساتھ ہیں۔یہ میچ جیت لیا تو سمجھو ورلڈ کپ جیت لیا۔ نصرمن اللہ و فتح قریب۔۔۔۔۔نعرہِ تکبیر۔۔۔۔(ہمارے محلے کے جواں سال ڈسک جوکی نے تو ٹاس ہوتے ہی عالم ِ سرشاری میں اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو والا ترانہ چلا دیا اور پورا سنوا کے دم لیا)۔

کمنٹری بکس میں عموماً تین یا چار ماہرین سے زیادہ کی جگہ نہیں ہوتی۔لہذا باقی سوا ارب ماہرینِ کرکٹ کو اسٹیڈیم ، ٹی وی اسکرینوں کے سامنے یا پھر ریڈیو کان سے لگا کے اپنی رائے یا مشورہ دینا پڑتا ہے۔جیسے جیسے میچ آگے بڑھتا ہے رائے اور مشورہ بھی کٹیلا تر ہوتا جاتا ہے۔

’’ انڈیا اچھا کھیلا ہے مگر اب دیکھنا یونس خان کیسے ان بنیوں کا بھس بھرتا ہے۔اور اگر شاہد آفریدی پچاس تک کھڑا رھ گیا تو سمجھو نئیا پار…وٹ اے شاٹ یار…ابے یار… احمد شہزاد کو اس بال پر ہک کرنے کی کیا ضرورت تھی…او بھئیا ، یہ عمر اکمل کو کس نے پھر سے ٹیم میں رکھ لیا…اس ایمپائر کی تو ماں کی…اوئے یہ مصباح شاٹ کھیلنے کے بجائے ٹک ٹک کیوں کررہا ہے۔۔ابے رن لے نہ رن۔۔۔استاد اس بار لمبا مال لگا ہے ورنہ تین سو کا ٹارگٹ کوئی اتنا بڑا تو نہیں ہوتا… یاریہ وہ شکلیں ہی نہیں ہیں جیتنے والی…ابے بند کر ٹی وی۔۔اس سے اچھا تو ہم گلی میں کھیل لیتے ہیں…باوے تو کس دنیا میں ہے ، سب کچھ پہلے سے سیٹ ہے ماما۔انڈیا نے ورلڈ کپ سے پہلے ہی کرکٹ کونسل کو خرید لیا تھا۔۔میری جان سب فراڈ ہے…میرے تو باپ کی توبہ جو آیندہ کوئی کرکٹ میچ دیکھوں… سب آپس میں ملے ہوئے ہیں… سالے ہمیں مل کے چ بناتے ہیں بے غیرت۔۔لعنت ہو لعنت۔

ہاں آپ میں سے کچھ لوگ ضرور کہیں گے کہ کھیل کو کھیل سمجھ مشغلہِ دل نہ بنا۔ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہوتی ہے اسے دل پے نہیں لینا چاہیے۔اسپورٹس مین اسپرٹ ہونی چاہیے۔جو آج ہار گیا کل وہ جیتا بھی تو تھا۔ابھی تو ابتدا ہے۔ آگے بہت سے میچ پڑے ہیں۔یاد نہیں کہ بانوے کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان بیشتر پول میچ ہار گیا تھا مگر پھر قسمت پلٹ گئی اور کپ اٹھا لایا۔ضروری تو نہیں کہ کوئی ٹیم مستقل فارم میںہو۔ویسے بھی کرکٹ بائی چانس ہے۔اور جنھیں آج گالیاں دے رہو اگر وہ فائنل تک پہنچ گئے تو پھر کیا اسی منہ سے ان کی تعریفیں کرو گے۔میاں یہ کھیل ہے کوئی جنگ تو نہیں۔۔ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں۔۔۔۔۔۔یہ باتیں اکثر وہ لوگ کرتے ہیں جن کی عمر چالیس سال سے اوپر ہو یا جن کی گھر میں بھی نہ چلتی ہو۔

 اگر ایسے لوگوں نے میچ سے ایک دن پہلے ایل سی ڈی اسکرین والا ٹی وی پچاس ہزار میں خریدا ہوتا ، اپنے گھر کے باہر ایک شامیانہ تنوا کے اہلِ محلہ کے منورنجن کے لیے بڑی اسکرین لگوائی ہوتی ، جیت کی امید پر موٹر سائیکل کی ٹنکی فل کروا کے سائلنسر کٹوایا ہوتا ، ٹیم کی وردیاں خرید کے پہنی ہوتیں ، سبز جھنڈیاں منگوا کر کونے میں رکھی ہوتیں ، اماں کو نئی جائے نماز اور تسبیح لا کے دی ہوتی ، میچ دیکھنے کے لیے ابا کی عینک کا چٹخا ہوا عدسہ ارجنٹ بدلوایا ہوتا ، گھر میں بھرے آڑے ترچھے کزنز کے لیے بریانی کا آرڈر دیا ہوتا ، دہاڑی سے چھٹی کی ہوتی ، میچ کی وجہ سے عین وقت پر ڈیٹنگ منسوخ کرکے سلمی کی ناراضی مول لی ہوتی ، تین دوستوں سے پاکستان کی جیت پر پانچ پانچ ہزار کی شرطیں بدی ہوتیں۔تب میں ان شیانوں سے پوچھتا کہ اب بتاؤ اسپورٹس مین اسپرٹ کس جناور کا نام ہے ، کھیل کو کھیل کیسے سمجھتے ہیں اور مشغلہِ دل کیوں نہیں بناتے۔۔۔ باتیں بنوا لو کمینوں سے۔۔۔سوڈو انٹلکچوئلز کہیں کے۔۔۔ ایک تو انڈیا پاکستان کا میچ بھی برداشت کرو اور پھر ان کی نصیحتیں بھی چیک کرو۔۔۔آخ تھو۔۔۔۔

وسعت اللہ خان

Post a Comment

0 Comments