Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

یورپ میں اسلام فوبیا...


فرانس کے قلب پیرس میں ایک ہفتہ وار کامیڈی میگزین شارلی ہیبڈو پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے نے جس میں پہلے روز بارہ اور اگلے روز مبینہ دہشت گردوں سمیت پانچ افراد یعنی کل سترہ ہلاک ہوئے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ حملہ فرانس کے لئے امریکہ کے گیارہ ستمبر کے حملے کی مانند ہے۔ اس حملے کے بعد صرف فرانس ہی میں نہیں بلکہ پورے یورپ میں حالات تبدیل ہو کر رہ جائیں گے اور فرانس سابقہ فرانس نہیں بلکہ ایک بدلا ہوا فرانس ہوگا۔ گیارہ جنوری بروز اتوار پیرس میں ہلاک ہونے والے سترہ افراد کی یاد میں مارچ کا اہتمام کیا گیا جس میں دنیا بھر کے چالیس ممالک کے سربراہان حکومت و مملکت نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر فرانس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ 

اس مارچ میں اسلامی ممالک میں سے ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اولو، اردن کے شاہ عبداللہ اور فلسطین کے صدر محمود عباس نے بھی شرکت کی اور عالم اسلام کی جانب سے بھی اس حملے کی مذمت کئے جانے کا پیغام دیا۔اس مارچ میں پاکستان کی حکومت کے نمائندے کو بھی شرکت کرنے کی ضرورت تھی تاکہ دہشت گردی سے متاثر اس ملک کو اس موقع پر دنیا کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا بھی موقع میسر آتا اور دنیا پر بھی واضح کر دیا جاتا کہ پاکستان دہشت گردی سے سب سے متاثر ہونے والا ملک ہے اور ہم دنیا کے ساتھ مل کر اس دہشت گردی پر قابو پانے کے خواہاں ہیں لیکن یہ موقع گنوا دیا گیا۔

اس مارچ میں تقریباً ایک ملین افراد کی شرکت کی توقع کی جا رہی تھی لیکن توقعات سے بڑھ کر ڈیڑھ سے دو ملین افراد نے اس مارچ میں شرکت کرکے دہشت گردی کے خلاف دنیا کے یکجا ہونے کا پیغام دیا ۔ ریلی کا یہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا اس ریلی میں شریک حکمرانوں سے لے کر ایک عام آدمی تک دہشت گردی کے خلاف اپنی جد جہد کو جاری رکھنے کا واضح پیغام دے رہا تھا۔ کسی بھی قوم کی یکجہتی اور اتحاد کوانہی حالات میں پرکھنے کا موقع ملتا ہے ۔ 

جب میں ٹی وی پر براہ راست پیرس مارچ یا ریلی کے ان مناظر کو دیکھ رہا تھا تو میرا ذہن فوری طور پر سولہ دسمبر 2014 کو پشاور شہر میں آرمی پبلک اسکول پر معصوم بچوں پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کی جانب چلا گیاجس میں 142 معصوم بچے ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملے کو پاکستان کے لئے بھی امریکہ کے گیارہ ستمبر کا حملہ قرار دیا جا رہا تھا۔ اُس روز ان مناظر نے پوری پاکستانی قوم کو متحد کردیا تھا۔ لیکن کتنے دنوں کے لئے ؟ ملک کے سیاسی رہنما ءبھی اُس روز یکجا ہوتے ہوئے دکھا ئی دئیے اور خیال ظاہر کیا جا رہا تھا اب قوم متحد ہو چکی ہے اور وہ دہشت گردی سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے۔

عوام کو اس روز باہر نکل کر فوج کے شانہ بشانہ دہشت گردوں کی گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا دینے اور گرانے کے عزم کو بھی دیکھنے کا موقع ملا لیکن ان کا یہ عزم اس وقت متزلزل ہوتے ہوئے دیکھا جب لوگوں نےگھروں میں بیٹھ کر صرف دعاؤں پر ہی اکتفا کیا ۔ اگر ہم نے بھی فرانس کی طرح اسی دن یا اسی ہفتے دہشت گردوں کے خلاف کوئی مظاہرہ کیا ہوتا اور اس میں ایک یا دو ملین افراد شریک ہو جاتے تو لازمی طور پر ہماری حکومت دہشت گردوں کے خلاف سخت سے سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو جاتی۔ 

پاکستان کے سیاستدانوں نے اس عرصے کے دوران اس بات کا ثبوت فراہم کردیا کہ وہ قوم کے سپوتوں یا قوم کی خاطر کوئی قدم اٹھانے کی صلاحیت ہی سے عاری ہیں اور وہ صرف فوج ہی کے دباو کے سامنےدہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے پر تو راضی ہوجاتے ہیں لیکن جیسے ہی فوج کا سپہ سالار قومی یکجہتی کانفرنس سے باہر نکلتا ہے تمام سیاستدان اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی اپنی شرائط پیش کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔ بقول اعتزاز احسن کہ وزیر داخلہ نے تو اُسی وقت تمام سیاستدانوں سے دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتیں قائم کروانے کےسمجھوتے پر دستخط کروانے کو کہا تھا لیکن اعتزاز احسن ہی نے ان کو اگلے روز دستخط کروانے کا کہہ کر کو روک دیا تھا ۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ سب نے دیکھ لیا مذہبی جماعتوں ہی نے وقت ضائع کیے بغیر پینترا بدل لیا۔ اگر ہم لوگ ان حالات میں دہشت گردوں کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے تو پھر کبھی بھی نہیں کر سکیں گے۔

فرانس میں دہشت گردی کے اس واقعے نے صرف فرانس ہی کو نہیں بلکہ پورے یورپ کو یکجا کرکے رکھ دیا ہے ۔ لیکن اب ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ یورپ کے باشندے کس کے خلاف یکجا ہو رہے ہیں؟ یورپ میں اس وقت تو برسر اقتدار حکومتوں کے سربراہان نے بڑے اہم اور اعتدال پسندی پر مبنی بیانات دئیے ہیں ۔ اس سلسلے میں فرانس کے صدر فرانسواں اولیند نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس دہشت گردی کے واقعے کا تعلق کسی بھی صورت مذہبِ اسلام سے نہیں جوڑا جا سکتا ہے کیونکہ دہشت گردوں نے جن افراد کو ہلاک کیا ہے ان میں سے ایک مسلمان بھی ہے۔ فرانسواں اولیند نے اس بیان سے دراصل فرانسیسی عوام کے غم و غصے کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن وہ زیادہ عرصے تک عوام کے غم و غصے پر قابو پانے میں کامیاب نہیں رہ سکیں گے کیونکہ فرانس اور یورپ کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کے خلاف پہلے ہی سے نفرت کی فضا پائی جاتی ہے اور دہشت گردی کے حملوں میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس نفرت میں بھی شدت آتی جا رہی ہے۔

فرانس ہی کی ایک سیاسی جماعت فرنچ نیشنل فرنٹ کی لیڈر میرین لے پین  نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’’ فرانس کو دنیا کے تمام علاقوں میں انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پھانسی کی سزا پر دوبارہ سے عمل درآمد شروع کرنے کی بھی تجویز پیش کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں 2017ء میں ریفرنڈم کرانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھاکہ انتہا پسندوں نے ان کے ملک میں جنگ شروع کررکھی ہے اور وہ اس جنگ سے نبٹنے کے لئے حکومت سے زیادہ موثر اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

فرانس میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے بارے میں جس شخصیت نے سب سے سخت بیان دیا ہے وہ آسٹریلیا۔برطانیہ اور امریکہ کے میڈیا میں دوسرے بڑے گروپ کے CEO اور مالک کیتھ رپرٹ مرڈخ ہیں جنہوں نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے پورے عالم ِ اسلام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ’’ اگرچہ زیادہ تر مسلمان پُر امن ہیں لیکن جب تک وہ اپنے بڑھتے ہوئے جہادی کینسر کو محسوس نہیں کرلیتے ور اس پر قابو نہیں پالیتے وہ اس دہشت گردی کےذمہ دار رہیں گے۔‘‘ اس ٹویٹ کے ایک گھنٹے کے اندر اندر ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے ترجمان ابراہیم قالن نے سخت بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک بلین 600 ملین مسلمانوں کو فرانس کے حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا احمقانہ اور نسل پرستی پر مبنی بیمار ذ ہن کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے ہم مغرب کو دوسری جنگ عظیم ہولوکاسٹ اور ہیروشیما ا یٹمی دھماکے کا ذمہ دار ٹھہرا دیں۔

فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعے کے بعد یورپ میں اسلامی فوبیا میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہالینڈ میں اسلام دشمنی کے طور پر مشہور انڈی پینڈنٹ پارٹی کے چیرمین گیریت ویلڈرز نے شارلی ہیبڈو دہشت گردی کے حملے کو ’’انتہا پسند اسلامیت کے نام پر کئے جانے والا حملہ قرار دیا ہے تو ڈنمارک کی پیپلز پارٹی کے چیرمین کرسچین تھولسین داحیل نے بیا ن دیتے ہوئے کہا ہے کہ‘‘ حکومت کو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے ڈنمارک میں مسلمانوں کی مساجد کو بھی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح یورپ بھر میں چند ایک مسلمانوں کے عمل سے جس کا خواہ مذہب ِ اسلام سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ ہو کی وجہ سے وہاں کئی دہائیوں سے آباد مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا اور اس دہشت گردی کے واقعے کے انتقام لینے کی آگ میں بہہ کر ایسی تحریکیں بھی سر اٹھانا شروع کردیں گی جس سے مسلمانوں کا یورپ میں جینا دوبھر کردیا جائے گا۔

ڈاکٹر فرقان حمید
"بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Post a Comment

0 Comments