Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار....

ہماری موجودہ زندگی کا یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہمارے معصوم بچے جب ہم سے وقت مانگتے ہیں، اپنی خوشی اور حیرت میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں یہ کہہ کر خاموش کردیتے ہیں کہ مجھے فرصت نہیں یا میں کام کررہا ہوں یا کسی اور وقت سہی۔ لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد ہمیں اس غم سے دو چار ہونا پڑتا ہے کہ میرے بچے کے پاس میرے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کا وقت نہیں اور ہم باقی زندگی اس کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

یہ جملہ امریکی مصنف پیٹرک جیوس نے کہا لیکن اس جملے سے ہمارے سماجی نظام زندگی کے معمول اور جینے کے طریقوں کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے گرچہ یہ جملہ اس مضمون کا حصہ ہے جو انہوں نے اپنے مضمون ’’بچوں کی تعریف اور ترقی‘‘ کے بارے میں لکھا ہے لیکن اگر ہم ان جملوں کو صرف مغربی معاشرہ اور سماجی معاشرتی پس منظر میں نہ دیکھیں بلکہ انسانی نفسیات کے پہلو سے دیکھیں تو یہ سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی کہ موجودہ نظام حیات میں جہاں والدین تلاش معاش میں صبح سے رات گئے تک سرگرداں ہیں اور بھاگ دوڑ کی زندگی گزاررہے ہیں یہ حقیقیت ہے کہ ان کے پاس بچوں کے لئے وقت نہیں ہے اور بچے جو عمر کے ساتھ ساتھ اس دنیا کے اسرار ورموز کو سمجھنے لگتے ہیں بہت سارے معصوم سوالوں اور خواہشوں کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑے ہوتے ہیں کہ ہم ان کا حل نکال دیں گے، ان کے مسائل سلجھادیں گے۔ اور بچوں کی نگاہ میں باپ آئیڈیل ہے اس لئے اس کی پیروی بچہ لاشعوری طور پر شروع کردیتا ہے ، اس وقت نفسیاتی طور پر بچہ تین نتیجے اخذ کرتا ہے۔ والدین پیار نہیں کرتے، ان کے پاس ہمارے لئے وقت نہیں اور ہمیں اپنے مسائل کاحل خود ڈھونڈنا ہے۔

ایسی صورت میں والدین کی لا پروائی بچوں کے ذہن میں لاشعوری طور پر بیگانگی کا اثر مرتب کرتی ہے جو عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور پھر گھر اور والدین سے لا تعلقی پیدا کردیتی ہے اور اسے آزاد اور بے راہ رو چھوڑ دیتی ہے۔ دوسرے فکر کے نتیجے میں نفرت اور ضدوچڑچڑاہٹ پیدا ہونا فطری عمل ہے جو بڑا ہونے پر غصہ ور، حاسد ، خودسر، بد تمیز، بد زبان اور بے لگام ہوجاتا ہے تیسرا نتیجہ اخذ کرنے کے بعد بچہ اپنے ماحول، حالات وواقعات سے یکسانیت پیدا کرتا ہے اور ان چیزوں کو انہی شکلوں اور حالات میں قبول کرلیتا ہے جس حالت اور شکل میں وہ موجود ہیں تب آگے چل کر یہ سارے کام خود سری سے کرنے کا عادی ہوجاتا ہے اس لئے کہ اس کے لاشعور میں یہ بات موجود ہے کہ والدین نے اچھا برا ، تمیز بد تمیزی غلط سہی ، اخلاقی ، غیر اخلاقی کا فرق سمجھایا ہی نہیں۔ 

اسے زندگی میں سارے فیصلے خود سے لینے پڑے تو فطری طور پر وہ باہر کی راہ دیکھے گا اور جس قسم کی بھی محبت میسر آئی وہ قبول کرلے گا۔ جنگلی بیل کی طرح وہ بڑھتا اور پھیلتا چلا جائے گا۔ ایسے لڑکے اگر بری صحبت میں غیر قانونی کام کرنے لگیں، غیر اخلاقی حرکت کرنے لگیں یا منشیات کے عادی ہوجائیں تو پھر ان کی زندگی بیکار اور والدین کے لئے درد سربن کر رہ جاتی ہے۔
بچوں کی نشو ونما، ترقی اور زندگی کی راہ میں مختلف ڈگر پر چلنے کے اسباب کے علم کے بعد اب ضروری ہوگیا کہ والدین اور بچوں کے رشتوں کو مضبوط کرنے کے طریقوں کو جان لیں۔ ساتھ ہی ساتھ بچوں کے حقوق کے متعلق اور اپنے فرائض کے متعلق بھی واقفیت لازمی ہے۔

سماجی اعتبار سے بچو ں کو اچھی غذا، بہترین تعلیم وتربیت اچھا ماحول اور محبت وپیار دینا والدین پر فرض ہے۔ اس پیار ومحبت کو گرچہ نفسیات کا باپ کہا جانے والا سگمنڈ فرائڈ بچے کی ماں سے قربت کو اوائل میں کمپلکس اور لڑکیوں کا باپ سے محبت کرنے کو الیکٹرا کمپلکس کہتا ہے لیکن ان حقوں کی ادائیگی کا انداز سماجی اور مذہبی اعتبار سے بہت زیادہ یکسانیت نہیں رکھتا۔ سما ج پر گرچہ مذہب کا اثر ہوتا ہے لیکن بعض مذاہب میں ایسے نکات موجود نہیں ہیں جو ایک اچھا شہری نیک کردار کا سماج اور معاشرہ کا مددگار فرد پیدا کرسکے۔ اگر یہ نکات کسی مبہم اور کمزور طریقہ سے موجود ہیں تو پھر والدین اس حیثیت کے حامل نہیں ہیں جو ان پر عمل کرانے کے بعد ایک اچھا شہری پیدا کرسکیں۔

 آج معاشرے میں خرابی اور برائیوں کی واحد وجہ یہ ہے کہ برائی کو جڑ سے ختم کرنے، اسے مذہب سے جوڑنے اور معاشرہ کی صحتمندی کی فکر کرنے کے بجائے مذہب خدا کا تصور، اچھے برے اعمال، گناہ و ثواب ،سزا و جزا ، جنت وجہنم، موت اور بعد کی زندگی ان ساری باتوں کو شخصی آزدای کی کالی چادر کے نیچے چھپا دیا گیا ہے۔اسلام و احد مذہب ہے جو شخصی آزادی دینے کے باوجود پابند رکھتا ہے، جو بچوں کے حقوق تجویز کرتا ہے لیکن انہیں بچوں سے بڑے ہوجانے کے بعد والدین کے حقوق کے طور پر ان لڑکوں( اولادوں) پر فرض عائد کردیتا ہے۔ 

یہ اسلام ہی ہے جو والدین کے حقوق، ضعیفوں کی خبر گیری، یتیموں بے سہارا عورتوں، بیواؤں کی دیکھ بھال غریب و مسکین اور رشتہ داروں، عزیز واقارب کے حقوق ادا کرنے کے لئے حکم دیتا ہے۔دوسری طرف وہ اس میں ایک ذمہ داری آپ پر بھی عائد کرتا ہے کہ آپ بچوں کے مشغولات، دوست احباب سے تعلقات اور اوقات یعنی کس وقت وہ کہاں ہوتے ہیں اور کیا کرتے ہیں آپ کو معلوم ہونا چاہئے۔ ظاہر سی بات ہے جب والد بچے سے اس کے تمام دن کے مشاغل کاحساب لے گا تو بھلے برے کی تمیز کرنے کا سلیقہ سکھائے گا۔ اچھے اور برے دوستوں کا فرق بتا کر ان کی صحبت سے دور رکھے گا۔ ذہنی تربیت کرے گا اور صالح اعمال کی عادت ڈالے گا۔ اب دوسرا خدا ئی حکم نازل ہوتا ہے۔

 بچے جب ذرا سن شعور کو پہنچ جائیں تو ان کا بستر الگ کردو۔ نماز کی تلقین کرو، اور دینی تعلیم دو، نماز کی پابندی کے لئے پھر سختی کا حکم ہوا کہ اگر وہ نماز نہیں پڑتا تو اس کو سزا دواور سزا کا طریقہ بھی بتادیا۔اب بالغ ہونے تک یعنی پختہ شعور تک والدین کو تعلیم وتربیت کا ذمہ دار قرار دیا گیا لیکن سن بلوغ کے بعد والدین کو ذمہ داری سے آزادکردیا۔ اس درمیان احادیث کی روشنی میں کھانے پینے کے آداب، بزرگوں کا احترام، والدین کی خدمت گزاری ،بھائی بہنوں سے محبت ان کی ذمہ داریاں، فرائض حقوق، ان سبھی کی تربیت کی گئی۔ ظاہر سی بات ہے جب یہ تمام امور عملی طور پر زندگی میں شامل ہونگے تو ایک لائق فرد،لائق اولاد اور صالح معاشرہ کا فرد تیار ہوگا۔

تیسرا بچوں کی تربیت اور اس کی پیروی یا اس پر عمل گھر کے اندر ہونا چاہئے تاکہ آپ کے بچے کو غیر محفل میں شرمندگی نہ ہو۔ اپنے حقوق سے حتی الامکان واقف رہیں اور اس پر بچوں سے عمل کرائیں فرائض سے غافل نہ ہوں کہ بچے بری صحبت میں زندگی خراب کرلیں۔ تعلیم کے اعتبار سے بچوں کے رجحان کا بغور مطالعہ کریں یا اس سے مشورہ کریں کہ وہ زندگی میں کیا بننا چاہتا ہے۔ اس کے لئے اس کی ہمت افزائی کریں۔ اس کی کامیابی کے لئے راہ ہموار کریں، آسانیاں فراہم کریں۔ اس قدر بھی سہولتیں نادیں کہ وہ ہر بات اور قدم قدم پر ماں باپ کا محتاج ہو۔ اسے اپنے اندر اعتماد اور فیصلہ لینے کی صلاحیت پیدا کرنے دیں پھر اس پر عمل کرنے دیں ۔

عقیل احمد انجم اعوان

Post a Comment

0 Comments