Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

اوباما دلّی میں : وہ آئیں گھر میں ہمارے۔۔....

امریکی صدر باراک اوباما، بھارت کے یومِ جمہوریہ میں شرکت کے لئے گزشتہ روز دہلی پہنچے تھے۔ پہلے ان کا یہ دورہ تین روز کا تھا۔ اب اس کا دورانیہ دو روز کا ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ آج یوم جمہوریہ کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کے بعد اوباما نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ کل تاج محل دیکھنے جانا تھا، لیکن اب وہ آگرہ نہیں جائیں گے، بلکہ دہلی سے سیدھے ریاض روانہ ہوں گے، جہاں مرحوم شاہ عبداللہ کی وفات پر نئے سعودی رہنماؤں سے اظہار تعزیت کریں گے۔

اس سے پہلے کہ مَیں قارئین کی خدمت میں اس موضوع پر مزید کچھ عرض کروں، یہ بتانا چاہوں گا کہ گلوبل میڈیا نے امریکی صدر کے اس دورے کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی ہے۔بھارتی میڈیا نے تو جانے اس دورے اور مودی ۔ اوباما ملاقات کو کیا سمجھا کہ اس پر لمبے چوڑے تبصرے کئے جاتے رہے۔ اوباما کی آمد سے کئی روز پہلے بھارتی میڈیا نے عجیب و غریب طرح کے تجزیئے کرنے شروع کر دیئے۔ 

اس نے ایسے ایسے سٹرٹیجک موضوعات کو ایسے ایسے مشکل اور پیچیدہ زبان کے لبادے اڑھائے کہ جب تک کوئی قاری بین الاقوامی سٹرٹیجک امور کا ماہر خصوصی نہ ہو، زبان و بیان کی گو ناگوں باریکیوں کو نہ سمجھتا ہو یا، مشکل اور ادق میڈیا اصلاحوں کا ’’حافظ‘‘ نہ ہو، تب تک ان تجزیوں کا لب لباب نہیں سمجھ سکتا۔ سچی بات یہ ہے کہ دو ہزار الفاظ پر مشتمل کسی کالم کو پڑھنے کے بعد کالم کا خلاصہ اُس قاری کی سمجھ میں نہیں سماتا، جس نے ایک مدت بین الاقوامی سیاسیات کو سٹڈی کرنے میں گزار دی ہو۔۔۔ حالانکہ یہ خلاصہ آسان زبان میں صرف20الفاظ میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔

بھارت کی میڈیا برادری نے، جس دیش میں گنگا بہتی ہے، کی عظمت کا ایسا بیڑا اٹھا رکھا ہے کہ معلوم ہوتا ہے بھارت دنیا کی دوسری بڑی قوت بن گیا ہے بلکہ روس اور چین کو بھی پیچھے چھوڑنے لگا ہے۔ مَیں پاکستانی میڈیا سے بھی گزارش کروں گا کہ اوباما کے اس دورے کو صرف اتنی ہی کوریج دینی چاہئے کہ جتنی کا یہ سزاوار ہے۔

مَیں اس اوباما وزٹ کی صرف ان باتوں پر آسان زبان میں تبصرہ کرنا چاہوں گا جو ایک اوسط لکھے پڑھے پاکستانی کی سمجھ میں آ سکیں۔ ہمارا اپنا میڈیا صدر اوباما کے اس دورے کے سٹرٹیجک موضوعات کو سمجھانے کے لئے سابق وزرائے خارجہ، سابق سیکرٹری ہائے خارجہ، ریٹائرڈ سفیرانِ کرام وغیرہ کی ایک فوج ظفر موج کو دعوتِ کلام دینے کا عادی ہو چکا ہے۔ مَیں ان اکابرین سے معذرت کے ساتھ گزارش کروں گا کہ بال کی کھال نہ ادھیڑا کریں کہ ایسی ادھیڑ بُن سامعین کے صرف ایک نہایت محدود سے دانشور طبقے ہی کی سمجھ میں آ سکتی ہے جبکہ میڈیا کو دیکھنے،سننے اور پڑھنے والے پاکستانیوں کا ایک ’’جم غفیر‘‘ ان کی ’’دانشوری‘‘ کی نزاکتیں سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔

میرے اپنے ساتھ یہ سانحہ کئی بار گزر چکا ہے کہ مَیں اگر کسی دفاعی موضوع پر کوئی کالم لکھنے لگوں تو اول تو اس کی اصطلاحیں اتنی نامانوس اور اجنبی ہوتی ہیں کہ عام قاری کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔ دوسرے نفسِ مضمون بجائے خود عمومی احاط�ۂ تفہیم میں نہیں آتا۔ یہ دونوں باتیں ایک عرصے سے میرے لئے ایک ایسا چیلنج بنی ہوئی ہیں جو اس قسم کے موضوعات کو عام پاکستانی قارئین سے دور رکھتی ہیں جبکہ یہی باتیں ترقی یافتہ معاشروں میں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں اور ان پر قلم اٹھانے والے کالم نگاروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا جاتا۔ مَیں کئی بار ان سطور میں عرض کر چکا ہوں کہ اس قسم کے موضوعات پر سابق فوجیوں کو ایک تسلسل اور تواتر سے لکھنا چاہئے تاکہ عام پاکستانی بھی سمجھ سکیں کہ پاکستان کے جدید دفاعی تقاضے کیا ہیں اور ان کو سمجھنا کس قدر ضروری ہے۔

مقامِ اطمینان ہے کہ اب آہستہ آہستہ ان سٹرٹیجک دفاعی موضوعات پر کبھی کبھار کوئی ایسا مضمون/ کالم نظر سے گزر جاتا ہے جس میں تفہیم کی مشکلات کم سے کم ہوتی ہیں۔

مَیں اب صدر امریکہ کے دورۂ بھارت کی طرف آتا ہوں۔۔۔۔ سب سے پہلی بات تو ہمیں یہ سمجھنی چاہئے کہ یہ امریکی صدر اپنی مدتِ صدارت میں دوسری بار بھارت کا دورہ کیوں کر رہا ہے۔ اوباما امریکہ کے واحد صدر ہیں جو اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ دو بار نئی دہلی تشریف لا چکے ہیں۔ فارن گلوبل اور لوکل انڈین میڈیا اوباما کی اس مکرر انڈین یاترا کو نجانے بار بار کیوں موضوع سخن بنا رہا ہے۔ اوباما کے تو ابھی دو مزید برس ان کی مدتِ صدارت کے باقی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مودی صاحب نے وہ باتیں مان لی ہیں جو اوباما ان سے منوانے آئے ہیں یا اگر ان میں سے50 فیصدبھی مان لی گئیں، تو باقی 50فیصد منوانے کے لئے اوباما اینڈ فیملی انڈین یاترا کی ہیٹ ٹرک کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گی۔ امریکیEmbedded میڈیا تیسری یاترا کا جواز یہ پیش کرے گا کہ ہمارا یہ صدارتی جوڑا اس بار تاج محل کی زیارت کے لئے آ رہا ہے۔

قارئین کو یہ بتانا بھی شاید ضروری ہو کہ گزشتہ بار جب 2010ء میں اوباما نے پرائم منسٹر من موہن سنگھ کی دعوت پر بھارت کا دورہ کیا تھا تو تب بھی تاج محل کے درشن ہوتے ہوتے رہ گئے تھے اور اس بار بھی باوجود اس کے کہ سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات مکمل تھے، یہ آگرہ وزٹ منسوخ کرنی پڑی۔ جو امریکی سیکیورٹی ٹیم آگرہ گئی تھی اس نے رپورٹ دی کہ صدر کو آگرہ نہیں جانا چاہئے کہ جو حفاظتی انتظامات انڈیا نے اٹھائے ہیں ان سے صدر اور ان کی مسز کی جان کی سلامتی کی100فیصد ضمانت نہیں دی جا سکتی۔۔۔ افسوس یہ ہے کہ امریکیوں نے جو ’’بہانہ‘‘ تراشا ہے وہ انتہائی بودا ہے۔۔۔ مرحوم شاہ عبداللہ کی تقریب ایک دن لیٹ بھی کی جا سکتی تھی۔کیا وہ مرحوم کے جنازے میں شرکت کرنے جا رہے تھے کہ پابند�ئ اوقات لازمی تھی؟

برسبیل تذکرہ ، انڈیا نے مسٹر اور مسز اوباما کی تاج محل زیارت کے لئے اپنی ’’اوقات‘‘ سے بڑھ کر سیکیورٹی کی کوششیں کر رکھی تھیں۔ ان کاوشوں کی تفصیلات انڈین میڈیا پر آتی رہی ہیں۔ ان کے مطابق تاج محل کو بیرونی غسل دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا اور نجانے کون کون سے ’’سرف ایکسل‘‘ پر تجربات کئے گئے۔ ہوائی اڈے سے تاج محل تک جانے والی11کلو میٹر سڑک کو مشینی برشوں سے نہیں، بلکہ دستی برشوں سے رگڑ رگڑ کر صاف کیا گیا۔600مزدور اس کام پر دن رات لگے رہے۔ ایک مزدور کی یومیہ اجرت 300 روپے ادا کی گئی۔(پاکستانی500روپوں سے بھی زیادہ) ۔۔۔ آوارہ کتوں، گؤ ماتاؤں اور ہنو مانی بندروں کی ایک پوری فوج تاج محل کے اردگرد منڈلاتی رہتی ہے،اس کو ختم کیا گیا۔۔۔ سڑک پر لگی سفید پینٹ کی وسطی لکیروں کو ختم کیا گیا تاکہ مہمانِ گرامی کو اس یکطرفہ سڑک کی تنگی کا احساس نہ ہو۔۔۔ سڑک پر جگہ جگہ پان کی پیکیں نظر آتی تھیں۔ 

بھارتی کار سواروں کی کثیر تعداد پان خورانی کی اسیر ہے اور جہاں چاہتی ہے، کار کا دروازہ کھول کر مُنہ کھول دیتی ہے۔ گدھا گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی ’’عنایات‘‘ الگ ہیں۔ اس منجمد کتھے اور چونے کو صاف کرنا ایک مشکل ایکسر سائز تھی جو کی گئی۔۔۔ تاج محل کے گردو نواح میں اوباما کی آمد سے پہلے مودی صاحب کی ہدایت پر صفائی ستھرائی کا جو کام چل رہا تھا اس کو روک دیا گیا تاکہ گردو غبار اُڑ کر تاج محل کے اندرونی احاطے کو مٹیالا اور گرد آلود نہ کر دے۔۔۔۔ تاج محل کے اندر جو وسیع و عریض لان ہیں اور ان کے گردا گرد سبزے کی باڑیں (Hedges) لگی ہوئی ہیں ان کی جھاڑ پھونک کے لئے روزانہ 100سے زائد نوکرانیاں ڈیلی ویجز پر بھرتی کی گئیں۔۔۔ تین ہزار سے زائد پولیس والے ان کشتیوں میں سوار چیکنگ پر مامور کئے گئے جو تاج محل کے پہلو میں بہتے دریائے جمنا میں 24گھنٹے گشت کرتی رہیں؟ 

۔۔۔ بھارتی دریا عموماً گندگی سے بھرے رہتے ہیں۔ پرائم منسٹر کے خصوصی حکم پرگزشتہ دو دنوں میں دریائے جمنا پر تیرتے گندگی کے جو متعفن ڈھیر اٹھائے گئے، ان کا وزن دو ٹن(60من) سے زیادہ تھا!۔۔۔ تاج محل کے قرب و جوار میں رہنے والے ہزاروں مکینوں کو مطلع کیا گیا تھا کہ وہ 27جنوری کو اپنی چھتوں پر نہ آئیں اور کھیتوں میں رفع حاجت کے لئے بھی باہر نہ نکلیں۔( یعنی27تاریخ کو ان کی ’’ہر چیز‘‘ بند)

تاریخ میں لکھا ہے کہ1631ء میں جب مغل حکمران شاہجہان نے اپنی محبوب بیوی ممتاز محل کی وفات پر اس کی یاد میں یہ یگان�ۂ روز گار عمارت تعمیر کروائی تھی تو اس پر16سال تک 20,000 مزدور اور کاریگر دن رات کام کرتے رہے تھے۔ اس سرخ و سفید مغل شہنشاہ کو کیا معلوم تھا کہ400 سال بعد جب ایک سیاہ فام حکمران امریکی جوڑا اس یاد گار کی زیارت کے لئے آئے گا تو 16دنوں تک 20,000بھارتی مزدوروں کی صفائی ستھرائی کی کاوشوں پر اس طرح پانی پھیر کر چلتا بنے گا!

ایک عام قاری یہ بھی جاننا چاہے گا کہ اوباما کے اس ’’ہائی فائی‘‘ دورے کا مشن کیا ہے اور دوسری طرف بھارت اپنے اس مہمانانِ خصوصی سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔۔۔ ان دونوں سوالوں کا جواب جیسا کہ مَیں نے کالم کے آغاز میں عرض کیا تھا، مشکل الفاظ میں مشکل بھی ہے اور آسان الفاظ میں آسان بھی ہے۔۔۔ مشکل اصطلاحوں کو فی الحال چھوڑتے ہیں۔آسان زبان میں بات کرتے ہیں۔اوباما صاحب اسی لئے تشریف لا رہے ہیں کہ:
 اپنے دفاعی سازو سامان کو بھارت کے ہاں فروخت کریں ۔
 
بھارت کو روس کے دفاعی حصار سے باہر نکالیں اور اپنے حصار میں محصور کریں۔
 
چین کے خلاف ہلال کی شکل کا ایک حفاظتی بند تعمیر کریں جو تائیوان سے شروع ہو اور فلپائن، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ویت نام اور میانمر سے ہوتا ہوا بھارت تک چلا آئے۔

بھارت میں دفاعی سازو سامان تعمیر کرنے کے لئے امریکی فیکٹریاں قائم کی جائیں جو تیسری دنیا کے ممالک کو ’’میڈ اِن امریکہ‘‘ پراڈکٹس سے ’’ مالا مال‘‘ کر دیں۔

امریکی دفاعی ماہرین کی ایک بڑی کھیپ کے علاوہ دوسری امریکی مصنوعات کی تیاریوں میں مدد دینے والے امریکی کاریگروں کو بھارت برآمد کیا جا سکے۔
مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان و پاکستان میں امریکی اثرو رسوخ کو روسی اور چینی اثرو رسوخ کے مقابلے میں زیادہ موثر اور مستحکم بنایا جا سکے وغیرہ وغیرہ۔

اب دوسری طرف یہ دیکھتے ہیں کہ بھارت، امریکہ سے کیا چاہتا ہے۔۔۔۔ اس سوال کے ساتھ پاکستان کے مفادات بھی وابستہ ہیں اور نقصانات بھی۔۔۔ اس لئے یہ سوال ہمارے لئے پہلے سوال کی نسبت زیادہ اہم ہے۔ میرے تجزیئے کے مطابق بھارت،امریکہ سے دو طرح کا تعاون چاہتا ہے۔ایک دفاعی اور دوسرا بین الاقوامی۔۔۔ دونوں کے دورانئے شارٹ ٹرم بھی ہیں اور لانگ ٹرم بھی۔۔۔ شارٹ ٹرم مقصودات میں بھارت، امریکہ سے فضائی ٹیکنالوجی کا وہ حصہ (Segment) مانگنا چاہے گا، جو امریکہ دینے میں زیادہ پس و پیش نہیں کرے گا۔ میری مراد سی130- ملٹری طیاروں کی ہندوستان میں پروڈکشن سے ہے اور دوسرے مسلح ڈرونوں کی ٹیکنالوجی کا وہ ورشن ہے جو دنیا کی نگاہوں سے ہنوز پوشیدہ ہے اور کھل کر سامنے نہیں آیا۔۔۔ کوشش کروں گا کہ اگلا کالم اسی موضوع پر لکھوں۔

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

Post a Comment

0 Comments