Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

رسول رحمتؐ کے پیروکار غزہ کے مسلمان....


غزہ میں سالہاسال سے اہلِ ایمان کو محصور کرکے صہیونی درندوں اور نام نہاد کلمہ پڑھنے والے منافقوں نے زندگی کی ہر سہولت سے محروم کر رکھا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اتنا عرصہ لوگوں کو محصور کرنے کے نتیجے میں پوری آبادی کو بھوک سے ابدی نیند سوجانا چاہیے، مگر اللہ کا شکر ہے کہ اہلِ غزہ آج بھی زندہ ہیں۔ صہیونی درندگی اور اندھا دھند بمباری سے بلاشبہ 2000اہلِ ایمان جن میں زیادہ تعداد بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور ہسپتالوں میں پڑے بیماروں کی ہے، جام شہادت نوش کرچکے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہیں۔ کئی لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ غزہ کے لوگوں کو خوراک کہاں سے ملتی ہے۔ اس کا جواب تو اہلِ غزہ ہی دے سکتے ہیں، مگر میں اپنی ملت کی اس زریں تاریخ کے اوراق میں جب کھو جاتا ہوں جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کرامؓ نے رقم کی تو مجھے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تین سال شعب ابی طالب میں محصور رہے جہاں غزہ ہی کی طرح بنیادی ضروریات زندگی کا پہنچنا ظالم کفارِ مکہ نے ناممکن بنا دیا تھا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو سلامت رکھا۔ ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے اگرچہ ان کے جسم لاغرونحیف ہوگئے۔ مدینہ منورہ میں بھی شروع کے سال پوری دنیا کی طرف سے اس نوزائیدہ ریاست کے خلاف اعلان جنگ کی وجہ سے فقروفاقہ اور بھوک کے ڈیرے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی معجزات حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاریؒ نے حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ کی روایت سے یہ معجزہ نقل کیا ہے، جو حدیث کی دوسری کتاب، سنن البیہقی میں بھی معجزات نبویؐ کے تحت درج ہے۔ مورخین نے بھی اس واقعہ کو سیرت میں نقل کیا ہے۔ بالخصوص امام ابن کثیرنے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔

یہ درست ہے کہ معجزات اللہ کے نبیوں کو عطا ہوتے ہیں اور ان کے سچے پیروکار اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ کرامتیں عطا فرماتا ہے۔ آج غزہ میں اہلِ ایمان کو اتنی بڑی ابتلا کے بعد بھی زندہ وسلامت دیکھ کر ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں اور یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان اللہ یرزق من یشاء بغیر حساب. کا مفہوم کیا ہے۔ یہی الفاظ حضرت مریم علیہا السلام نے حضرت زکریا علیہ السلام کے سوال پر کہے تھے جب انہوں نے پوچھا ’’اے مریمؑ ! تمہارے پاس یہ رزق کہاں سے آیا ہے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ھو من عنداللہ ان اللہ یرزق من یشاء بغیر حساب‘‘۔ جس واقعہ کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں

ہم ایک سو تیس صحابہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر گئے۔ ایک جگہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم میں سے کسی کے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ ایک شخص کے پاس تقریباً ایک صاع آٹا تھا،جو اس نے پیش کردیا چنانچہ آٹا گوندھا گیا اور روٹیاں پکا لی گئیں۔ اسی وقت ایک لمبا تڑنگا پراگندہ حال مشرک اپنے ریوڑ کے ساتھ نمودار ہوا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا: ’’یہ بکریاں فروخت کے لیے ہیں یا ہدیے کے لیے؟‘‘ اس نے کہا: ’’فروخت کے لیے ہیں‘‘۔ آپؐ نے اس سے ایک بکری خرید لی۔ وہ ذبح کی گئی اور گوشت تیار ہوگیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بکری کا کلیجہ اور گردے بھونے جائیں۔ جب بھونے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو اس میں سے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کر دیے۔ جو لوگ موجود تھے انہیں ان کا حصہ دے دیا گیا اور جو غیرحاضر تھے ان کا حصہ ان کے لیے رکھ دیا گیا۔ باقی کا گوشت پکا کر پیالوں میں ڈالا گیا۔ دو پیالے ہم نے کھائے اور سب خوب سیر ہوگئے۔ دو پیالے بچ رہے جنھیں ہم نے اونٹ پر لاد لیا اور چل دیے‘‘۔

اللہ کی رحمت سے کیا بعید ہے کہ وہ اسی طرح آج بھی تھوڑے سے رزق میں برکت ڈالتا ہو اور اہلِ غزہ کو اپنی رحمت سے نواز دیتا ہو۔ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے لیے ایثا کرتے ہیں اور ایثار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور رحمتیں حاصل رہتی ہیں۔ یہ اہلِ غزہ تو اللہ کے ہاں بھی سرخرو ہوں گے اور دنیا میں بھی سربلند ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پوری امت جو ڈیڑھ ارب نفوس پر مشتمل ہے اور پانچ درجن کے لگ بھگ آزاد ملکوں میں حکمران ہے وہ کہاں کھو گئی ہے۔ اے کاش غیرت ایمان جاگ اٹھے اور مسلمان حکمران اپنے اس بنیادی فریضے کی ادائیگی کے لیے متفق ومتحد ہوجائیں۔ آزاد ملکوں کے مسلمان حکمران کیا سوچ رہے ہیں۔ وہ تو بے بس نہیں بے حس وبے حمیت ضرور ہیں۔ اللہ کرے کہ ان میں سے کسی کے اندر غیرت ملی جاگ اٹھے اور وہ مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے قابل ہوجائیں۔

وہی حرم ہے وہی اعتبارِ لات و منات
خدا نصیب کرے تجھ کو ضربتِ کاری

   حافظ محمد ادریس

Post a Comment

0 Comments