Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سوگ اپنا اپنا لاش اپنی اپنی....وسعت اللہ خان

یہ کوئی بہت پرانی بات تو نہیں جب ظلم کی شکار اقوام کے سوگ، احتجاج اور شہید سانجھے تھے۔ جیسے 1857 کی جنگِ آزادی کے ہندو مسلم شہید۔ جیسے جلیانوالہ باغ کے نسلی و مذہبی امتیازات سے پاک شہید، جیسے بھگت سنگھ اور اس کے چار ساتھیوں کی پھانسی جس نے یہاں سے وہاں تک غلامی کے خلاف نفرت اور گرما دی۔ جیسے پارٹیشن میں ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے جانے والے مسلمان، ہندو اور سکھ جوان، بوڑھے، عورتیں، بچے۔ سب ہی اس المیے کو سانحہ کہتے ہیں۔ کوئی سینہ ٹھونک کر نہیں کہتا میں نے کتنے مسلے، کتنے دھوتی باز اور کتنے سکھڑے مارے۔ کسی زندہ بوڑھے کےمنہ سے کم ازکم میں نے نہیں سنا کہ خس کم جہاں پاک۔ آج ان مرنے مارنے والوں کی چوتھی پیڑھی بھی یہی کہتی ہے بس یار مشٹیک ہوگئی تھی۔

کیا تم نے نہیں سنا کہ جب لوممبا قتل ہوا تو پوری دنیا میں کیسا سوگ منا تھا۔ کیا تمہیں کسی نے نہیں بتایا کہ چی گویرا قتل ہونے کے بعد دنیا بھر کے انقلابی نوجوانوں کے ہاتھوں میں چراغ بن گیا۔ کیا یہ بھی نہیں سنا کہ ویتنام میں برستے نیپام بموں نے میکانگ ڈیلٹا اور ہنوئی میں نہیں بلکہ سان فرانسسکو سے کراچی تک آگ لگا دی تھی۔ ایسی احتجاجی تپش کہ امریکہ کو چہرہ بچانے کے لیے پیچھے ہٹنا پڑ گیا۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ فلسطینیوں کی دربدری اسرائیل کے لیے نفرت کا ایسا عالمی پھندہ بنتی چلی گئی کہ آج انہی فلسطینیوں کو اسی اسرائیل کے سابق حواری اس سے پوچھے بغیر یکے بعد دیگرے تسلیم کرتے جارہے ہیں۔
تو کیا تم نے یہ حدیث تک نہ سنی کہ اپنے بھائی کی مدد کرو بھلے ظالم ہو کہ مظلوم ( یعنی ظالم بھائی کا ہاتھ روک کے اور مظلوم کا ہاتھ تھام کے) ۔
تو پھر یہ کب ہوا کہ سانجھے مظلوم اور سانجھےشہید، میرے شہید اور صرف میرے مظلوم سے بدل گئے۔

اگر تم لسانی جھگڑوں میں بنگالیوں کا ہاتھ تھام لیتے اور ان کے شہیدوں کی نمازِ جنازہ پنڈی تا گوادر پڑھ لیتے تو نہ بنگالی تم سے بھاگتے اور اب تک تم سب کی زبانیں بھی قومی زبانیں تسلیم ہو چکی ہوتیں۔
اگر تم 71 کے خونی سال میں خود کو سانپ سنگھوانے کے بجائے چترال تا کراچی ہر جمعے کو بس سیاہ جھنڈے ہی لہرا دیتے تو اسٹیبلشمنٹ کو 71 کے بعد کسی بھی قومیت کے جمہوری حقوق غصب کرنے سے پہلے دس بار سوچنا پڑتا۔
اگر تم 74 کے سال میں جذبات میں بہہ جانے کے بجائے بحیثیتِ قوم یہ سوچتے کہ کسی کے عقائد کی راستی و کذابت طے کرنا حکومتوں کا نہیں علما کا کام ہے تو آج تمھیں غیر اعلانیہ ضیائی تھیو کریسی کے سائے میں اپنے عقائد کو عالمِ خوف میں درست ثابت کرکے خود کو بچانے کی حاجت نہ ہوتی۔
اگر تم اپنے ہی ہاتھوں بنائے آئین کی حفاظت کے لیے احتسابی خندق کھود لیتے تو آج تمہارے کسی بھی ادارے یا فرد کو طاقت کے نشے میں ٹن ہو کر تمہارے بنیادی حقوق روندنے کے بعد محفوظ راستہ نہ ملتا ۔

چونکہ تم نے یہ سب چھوڑ دیا اس لیے آفاقیت اور وفاقیت نے بھی تمہیں چھوڑ دیا۔

ہاں اب وفاقِ پاکستان صرف ایک جغرافیہ ہی تو ہے۔ سانجھے دکھ اور شہید تو اٹھارویں آئینی ترمیم سے بھی بہت پہلے تیرے میرے ہوگئے۔ ارے ہزارہ قتل ہورہے ہیں ہم تھوڑی قتل ہورہے ہیں۔ یہ تو فاٹا کے پٹھانوں کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہم سندھیوں، بلوچوں اور پنجابیوں کا اس سے کیا تعلق۔ سائیں کراچی جلتا ہے تو جلے لاڑکانہ تو بالکل ٹھیک ہے۔ بھائی ٹینشن نہ لو بم سے امام باڑا ہی تو اڑا ہے، ہماری جامع مسجد تو سلامت ہے۔ میاں مرنے والے بریلوی تھے ہم دیوبندیوں کا کیا لینا دینا۔ چاچا جی اغوا ہونے والے سرائیکی مزدور تھے پنجابی تھوڑی تھے۔ جناب یہ مسخ لاشیں غائب بلوچوں کی ہیں، شکر ہے سندھ میں ایسا کچھ نہیں ۔
مجھ سے میرے سندھی دوست پچھلے دو ہفتے سے کہہ رہے ہیں اب تو اندرونِ سندھ بھی جبری گمشدگیوں، مسلی ہوئی لاشوں اور ٹارگٹ کلنگز کا کاروبار چل نکلا ہے اس پر کب لکھو گے۔ کیوں بھئی؟ کیوں لکھوں؟ ان معاملات سے میرا کیا لینا دینا۔ اب تو میرے گھر میں ماتم ہوگا تب ہی لکھوں گا۔

وسعت اللہ خان

Post a Comment

0 Comments