Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ ۔ چند پہلوؤں کا جائزہ.....


اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’مہنگائی بڑھ گئی ہے، زرمبادلہ میں ٹھوس بہتری پیدا ہوئی ہے، اور روپیہ مستحکم ہوا ہے۔‘‘ اس سال کے اوائل میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہوچکی تھی۔ لیکن مارچ میں پاکستان ڈیولپمنٹ فنڈ میں ڈالرز کی آمد کے ساتھ دیگر رکی ہوئی رقوم بھی آنے لگیں جس سے روپے کو مستحکم کرنے میں مدد ملی۔ اسی دوران ترسیلات زر میں بھی توقع سے بڑھ کر اضافہ ہوا جس کے باعث ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہونے لگا۔

ان ہی مہینوں میں آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کو قرض کی فراہمی پر آمادگی ظاہر کردی جس کی وجہ سے ملک میں نمو میں اضافے کی توقع کی جانے لگی۔ جہاں تک مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ ہے اس میں مزید کمی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بشرطیکہ حکومت اپنی بھرپور توجہ اس جانب مبذول کرے۔

اس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کا رجحان جاری ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت مزید کم ہوکر 60 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی ہے۔ جب کہ بعض ماہرین یہ بات وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ آیندہ 6 تا7 ماہ تک کمی کا رجحان برقرار رہے گا۔ تیل کی قیمت میں مزید کمی کے ساتھ ہی حکومت کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ ماہ جنوری میں ایک بار پھر تیل کی قیمت میں کمی کردی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی بجلی کی قیمت میں 20 فیصد کمی کا امکان بھی ہے۔
اس تمام صورتحال کو یکجا کیا جائے تو یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جوکہ اس وقت کسی بھی شے کی لاگت میں اضافے یا کمی میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر صارفین کے بلوں میں حقیقی معنوں میں 20 فیصد کی کمی واقع ہوجاتی ہے اور تیل کی قیمت میں مجموعی کمی کو ہر شے پر لاگو کرنے کے لیے حکومت متحرک ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں ہر شے کی قیمت میں کمی کے اثرات مرتب ہوں گے۔

لیکن ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود ٹرانسپورٹرز کا انتہائی معمولی کرایوں میں کمی کرنا اور بعض نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ چونکہ ان کی ٹرانسپورٹ سی این جی پر چلتی ہے لہٰذا جب سی این جی کی قیمت میں نمایاں کمی ہوگی تو پھر وہ کرایوں میں کمی پر آئیں گے۔ ماہرین کی توقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ تیل کی قیمت میں کمی کا رجحان 6 تا 7 ماہ برقرار رہے گا۔ حکومت کو اپنی پلاننگ کرنی چاہیے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان جوکہ بینکوں کی نگرانی پر بھی مامور ہے گزشتہ دنوں اس قسم کی افواہ اڑادی گئی تھی کہ کچھ بینکوں کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسی صورت میں گزشتہ عرصے میں بینک کی جانب سے وضاحت کی گئی تھی کہ عوام افواہوں پر کان نہ دھریں۔ پاکستان میں بینکوں کی صورت حال بہترین ہے۔ بینک خاصا منافع کما رہے ہیں۔ سال 2014 کے پہلے 9 ماہ کے دوران بینکوں نے 176 ارب روپے کا تاریخی منافع قبل از ٹیکس کمایا ہے۔ ویسے بھی اسٹاک ایکسچینج میں منافع منقسم کی تقسیم کے لحاظ سے بینکاری شعبہ دوسرا بڑا شعبہ ہے۔

اسٹیٹ بینک کا منافع بھی گزشتہ مالی سال کی نسبت مزید بڑھ چکا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے بعض اقدامات کے باعث روپیہ مستحکم ہوا ہے اور حکومتی اخراجات پر بھی قابو پانے میں مدد ملی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے جب حکومت اپنے اخراجات سے نمٹنے کے لیے بے تحاشا قرض لیتی رہی ہے تو اسٹیٹ بینک نے بار بار حکومت کو اس سلسلے میں متنبہ کیا کہ وہ قرض لینے سے متعلق جو حدود متعین کی گئی ہے اس کی پاسداری کرے۔ جس کی پاسداری کرنے سے سابقہ حکومت گریزاں رہی لیکن موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے ابتدائی ایام میں ہی 30 فیصد اکانومی کٹ لگا کر کام چلانا شروع کیا۔

مختلف وزارتوں کو بھی اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ اپنے اخراجات میں کم ازکم 30 فیصد تک کمی لے کر آئیں۔ نیز بہت سے وزرا کے غیر ملکی دوروں کو بھی محدود کردیا گیا۔ دیگر کئی اقدامات کے باعث حکومت کو اپنے پیشرو کی نسبت کم قرض لینے کی ضرورت پیش آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے اضافی محاصل پیدا کرنے کے لیے کوششیں کیں۔ جس سے حکومتی قرض گیری میں کمی واقع ہوئی۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی برآمدی محاصل مالی سال 2010 سے تقریباً جمود کا شکار رہی ہے۔ لیکن ترسیلات میں اضافے کے باعث بہتری رہی۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کے آغاز کے ساتھ ہی دیگر بین الاقوامی مالی اداروں سے رقوم آنے کے باعث پاکستانی روپیہ کو مستحکم ہونے میں مدد ملی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گرانی 2014 میں تھوڑی سے بڑھ کر 8.6فیصد ہوگئی۔ تاہم یہ کئی اعتبار سے اسٹیٹ بینک کی ابتدائی توقعات سے کم تھی۔

گزشتہ کسی رپورٹ میں اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ گرانی زیادہ بڑھے گی۔ لیکن اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ 2 ماہ سے حکومت نے مسلسل پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم کردی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب ایک بار پھر قیمت میں کمی کی جائے گی اس کے ساتھ ہی بجلی کی قیمت میں بھی کمی کی جائے گی جس کے باعث امید کی جانی چاہیے کہ آیندہ افراط زر کی شرح 6 فیصد یا کم ہوجائے گی۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے جب حکومت اس بات کا ٹھیک ٹھیک حساب لگا پائے کہ پٹرولیم مصنوعات میں قیمت میں کمی اور بجلی کی قیمت میں کمی کرنے کے بعد کس چیز کی قیمت کتنی ہونی چاہیے۔

راقم الحروف کی رائے یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے بہترین کاسٹ اکاؤنٹنٹ کو اس بات کا اندازہ لگانے کا ٹاسک دے کہ وہ کسی پیشے کی لاگت کا تعین کرکے حکومت کو ایک ہفتے میں پیش کرے اور اس بنیاد پر حکومت چاہے وہ صوبائی ہو تو ہر ایک سے مذاکرات کرنے میں آسانی ہوگی کہ ٹرانسپورٹر کس حد تک کرایہ کم کریں۔

بہت سی مصنوعات کی قیمت کو کس حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ بجلی کی قیمت میں کمی کے باوجود کمرشل اور صنعتی صارفین کو خاص فائدہ نہیں ہوگا تو ایسی صورت میں کارخانہ دار بھی کسی مصنوع کی کمی سے انکار کرسکتے ہیں۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کیا جائے گا جس سے امید ہے کہ اس کے ثمرات سے سبھی طبقات مستفید ہوں گے۔ کیا صارفین کیا آجرین، کیا کارخانہ دار، کیا مل اونرز، کیا ٹرانسپورٹرز۔ لیکن جہاں حکومت اس امید کا اظہار کر رہی ہے کہ افراط زر اور مہنگائی کی شرح میں کمی آرہی ہے اور اس کے عوام تک ثمرات پہنچیں گے تو یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ اگر چند سبزیوں کی قیمت میں کمی ہوئی ہے جیساکہ ٹماٹر پہلے کی نسبت سستا ہے۔

آلو کی قیمت میں کمی ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ پیاز اب 10 روپے فی کلو دستیاب ہے۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومتی جدوجہد کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے ملک میں غلط زرعی منصوبہ بندی کے باعث جب کسی شے کی فصل بہت زیادہ ہوتی ہے تو اس کے دام گر جاتے ہیں اور آیندہ سال جب کاشتکار نقصان اٹھانے کے سبب وہ شے پیدا نہیں کرتا تو دام بڑھ جاتے ہیں حتیٰ کہ بھارت سے درآمد کرنا پڑتی ہے لہٰذا اس صورت حال سے نکلنے کے لیے بہترین زرعی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم کرکے اب تک دیکھا گیا کہ کرایے تک کم نہ ہوسکے۔ بجلی کی قیمت میں کمی سے حکومت سمجھتی ہے کہ مہنگائی افراط زر کم ہوجائے گی۔ جب تک زمینی حقائق و اسباب کا پتا نہیں لگایا جاتا کس شے کی کیا لاگت ہے کارخانہ دار، تاجر ملی بھگت سے اس کی قیمت کو کس حد تک کنٹرول کرلیتے ہیں صرف اور صرف منافعے کمانے کی خاطر کسی شے کی قیمت کو کم ہونے نہیں دیا جاتا۔

مافیاز کس حد تک ملوث ہیں، افواہیں پھیلاکر قلت پیدا کرکے ذخیرہ اندوزی کرکے کسی شے کی قیمت کو بڑھا دینا یا پھر کم نہ ہونے دینا۔ ان تمام اسباب و حقائق کا پتا چلا کر ہی پھر حکومت اپنے احکامات پر عملدرآمد کراسکتی ہے کہ کسی شے کی قیمت یا کرایوں میں اتنے فی صد کمی لائی جائے۔ بصورت دیگر احکامات ہوا میں تحلیل ہوکر رہ جاتے ہیں۔ نہ مہنگائی کم ہوتی ہے نہ افراط زر کی شرح کم ہوتی ہے۔

ایم آئی خلیل

Post a Comment

0 Comments