Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

حماس کی سرنگوں کا احوال........


مصر کے سیکیورٹی ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلامی تحریک مزاحمت’’حماس‘‘ نے غزہ کی پٹی کی سرحد پر زیر زمین سرنگوں کا ایک وسیع جال بچھا رکھا تھا۔ حماس سرنگوں کی کھدائی کے لیے سالانہ 140 ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرتی رہی ہے۔ ان سرنگوں کی کھدائی اور مکمل تیاری کے لیے 12 ہزار فلسطینی مزدور کام کرتے رہے ہیں اور ایک سرنگ پر کم سے کم ایک لاکھ ڈالر خرچ ہوئے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق مصری فوج ان دنوں غزہ کی سرحد پر رفح شہر میں مقامی آبادی کو ہٹانے کے بعد وہاں پر کھودی گئی سرنگوں کی تلاش اور انہیں تباہ کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ فلسطینی جنگجو غزہ کی پٹی کی سرحد پر کھودی گئی زیر زمین سرنگوں کے راستوں سے جزیرہ نما سیناء سے اسلحہ، گولہ بارود اور خام حالت میں دھاکا خیز مواد غزہ اسگل کرتے رہے ہیں۔

غزہ منتقل کیے جانے کے بعد بارودی مواد کو خان یونس اور دیر البلح کے مقامات پر عسکری تربیتی مراکز میں لے جاتا رہا جہاں اس سے دیسی ہتھیار تیار کیے جاتے۔ یہ مراکز براہ راست حماس کی نگرانی میں کام کرتے رہے ہیں۔ غزہ کی پٹی کے زیر انتظام رفح کے علاقے کی مقامی شہری حکومت کو بھی حماس کی سرنگوں کی کھدائی کے لیے مکمل حمایت اور سر پرستی حاصل رہی ہے۔
گذشتہ سات سال کے دوران غزہ کی پٹی میں حماس نے اپنی حکومت کی موجودگی میں سرحد پار سے اسمگلنگ کے لیے بڑے پیمانے پر سرنگیں کھودیں۔ یہ سرنگیں غزہ کی پٹی اور جزیرہ نما سینا تک پھیلی ہوئی ہیں۔

مصری میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ حماس نے ویسے تو پچھلے کئی سال سے غزہ کی سرحد پر سرنگیں کھودنا اور انہیں اسمگلنگ کے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر رکھا تھا تاہم جنوری 2011ء میں مصر میں سابق مطلق العنان صدر حسنی مبارک کے خلاف برپا ہونے والے انقلاب کے بعد حماس کے لیے اس وقت ان سرنگوں کو زیادہ مفید بنانے مواقع حاصل ہوئے جب مصر میں حماس کی نظریاتی حلیف اخوان المسلمون کی حکومت قائم ہوئی۔

مصر میں حکومت کی تبدیلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حماس نے ان سرنگوں میں نقل وحرکت تیز کر دی۔ حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے انجینئرنگ کے شعبے نے سرنگوں کو مضبوط بنانے کے لیے ان میں ٹنوں کے حساب سے سیمنٹ لگائی۔ سرنگوں کو مزید وسیع کیا گیا اور انہیں پہلے کی نسبت زیادہ محفوظ اور آمد ورفت کے لیے سہل بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ بعض سرنگیں تو اتنی وسیع تھیں کہ ان کے اندر سے چھوٹی گاڑیاں گذرتی رہی ہیں۔
فلسطین کے ایک سیکیورٹی ذریعے کا کہنا ہے کہ حماس نے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی مسلط کردہ حالیہ جنگ کے دوران بھی زیر زمین سرنگوں کی کھدائی کا سلسلہ جاری رکھا۔ دوران جنگ حماس کی شہر کے اندر کھودی گئی سرنگوں کے بارے میں نقشے خفیہ طور پر القسام قیادت کے حوالے کیے گئے۔ جنگ کے دوران اسرائیلی خفیہ اداروں کو وہ نقشے ملے جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ حماس نے شہر میں مساجد، گھروں اور اسکولوں کے اندر سے بھی سرنگیں کھود رکھی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں فلسطینی سیکیورٹی عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرنگوں کی کھدائی کوئی اتنا سہل کام نہیں بلکہ نہایت پیچیدہ اور خطرناک کام ہے۔ ایک سرنگ کی کھدائی میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ سرنگوں کی کھدائی کے لیے کھدائی کے روایتی آلات استعمال نہیں کیے جاتے۔ اس طرح کھدائی کا عمل نہایت سست روی سے جاری رہتا ہے تاہم اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی جاسوسوں کو اس کا علم نہیں ہو پاتا اور نہ مصری سیکیورٹی فورسز کی اس پر کوئی نظر پڑتی ہے۔
سرنگوں کا تخیل اور ویتنام جنگ

فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی کے اندرون شہر اور مصرکی سرحد پر کھودی گئی سرنگیں مصر اور اسرائیل دونوں کے لیے درد سر تو بنی ہیں مگر فلسطینیوں نے یہ’’گُر‘‘ کہاں سے سیکھا؟۔

فلسطینی سیکیورٹی امور کے تجزیہ نگار خالد عکاشہ نے’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ سے اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں نے سرنگیں کھودنے کا تصور ویت نامیوں سے حاصل کیا ہے۔ ویتنام پر امریکی حملے کے دوران مقامی آبادی نے’’کوچی‘‘ کے نام سے سرنگیں کھودنا شروع کیں۔ ان میں سے بعض سرنگیں 200 کلومیٹر تک طویل تھیں۔ ویتنام میں سرنگیں کھودنے والا گروپ جنوبی ویتنام کی علاحدگی کے لیے سرگرم تھا اور اس نے اپنے زیر اثر علاقوں میں سرنگوں کا ایک جال بچھا رکھا تھا۔

خالد عکاشہ نے بتایا کہ فلسطین میں مزاحمت کاروں کی جانب سے سب سے پہلی سرنگ کا سراغ سنہ 1987ء میں اسرائیل نے لگایا۔ یہ سرنگ مصر اور اسرائیل کے درمیان طے پائے کیمپ ڈیوڈ امن معاہدے کے ایک سال بعد سامنے آئی تھی۔ اس کے بعد اسرائیل کی توجہ غزہ کی پٹی میں مصر کی سرحد کے ساتھ متصل علاقوں میں فلسطینیوں کی خفیہ سرنگوں پر مرکوز رہی۔

پہلی سرنگ کے انکشاف کے بعد اسرائیل نے غزہ میں کئی اور سرنگیں بھی مسمار کیں لیکن سنہ 2000ء کی تحریک انتفاضہ تک فلسطینی بڑی تعداد میں مزید سرنگیں کھودنے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ فلسطینی ان سرنگوں کے ذریعے مصر کے راستے ایرانی اور سوڈانی ساختہ اسلحہ اور منشیات غزہ اسمگل کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا غزہ کی پٹی میں سرنگوں کی کھدائی ایک پیشے کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ بعض فلسطینی خاندانوں کے تمام افراد سرنگوں کی کھدائی کا کام کرتے ہیں۔ ایک سرنگ میں ایک وقت میں پندرہ سے 20 مزدور سامان اسمگل کر رہے ہوتے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments