Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

تحریک تکمیل پاکستان مگر کیسے؟.....

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے لاہور میں ہونے والے جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماعِ عام سے ملک بھر میں تحریک تکمیلِ پاکستان شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب تحریک انصاف اسلام آباد میں دھرنے سے نیا پاکستان تخلیق کررہی ہے، میاں نوازشریف چین کی سرمایہ کاری کو پاکستان کے ہر درد کی دوا قرار دے رہے ہیں، پیپلزپارٹی اپنے ماضی کی بازیافت کے ذریعے قوم کو متحرک کرنا چاہتی ہے۔ لیکن سراج الحق نے ایسا کچھ کرنے کے بجائے قیام پاکستان اور اس کے مقاصد کو یاد کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک و قوم کو درپیش بحران میں تحریک پاکستان اور اس کی تکمیل ایک ایسی جماعت کے سربراہ کو یاد آئی ہے جسے اس کے حریف قیام پاکستان کی مخالف جماعت کہتے ہیں۔ تاہم سراج الحق کے مذکورہ اعلان سے ظاہر ہے کہ تحریک پاکستان اور اس کے مقاصد اگرکسی جماعت کو یاد ہیں تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔ 

اس کی وجہ ہے، اور وہ یہ کہ تحریک پاکستان ایک نظریاتی تحریک تھی، پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور خود جماعت اسلامی کا خمیر بھی ایک نظریے سے اٹھا ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی سے زیادہ یہ بات کسی کو معلوم نہیں ہوسکتی کہ پاکستان سے محبت کے حقیقی تقاضے کیا ہیں؟ پاکستان کیا تھا؟ پاکستان کیا ہوگیا ہے اور پاکستان کو کیا ہونا چاہیے؟ لیکن یہاں دو سوالات اہم ہیں۔ ایک یہ کہ تحریک پاکستان کیا تھی؟ دوسرا سوال یہ کہ قیام پاکستان کے مقاصد کیوں پورے نہیں ہوسکے اور انہیں کس طرح پورا کیا جا سکتا ہے؟

بعض لوگ تحریکِ پاکستان کو ایک سیاسی تحریک سمجھتے ہیں۔ مگر تحریکِ پاکستان اول و آخر ایک نظریاتی تحریک تھی اور اس کی پشت پر اسلامی تہذیب اور تاریخ کے بڑے بڑے محرکات کام کررہے تھے۔ لیکن تحریکِ پاکستان نظریاتی تحریک تھی تو کیسے؟ برصغیر سے انگریزوں کے رخصت ہوجانے کے بعد ہندوستان کو آزاد ہوجانا تھا اور متحدہ ہندوستان ’’متحدہ قومیت‘‘ کے فلسفے کے زیراثر اپنا نیا تاریخی سفر شروع کرتا۔ متحدہ قومیت کے فلسفے کے تحت ہندو اور مسلمان ایک قوم تصور کیے جاتے۔ لیکن مسلمانوں نے متحدہ قومیت کے تصور کو رد کر دیا۔ مسلمان چاہتے تو علیحدہ قومیت کے فلسفے کی بنیاد قومیت کے عام تصور پر رکھتے اور کہتے کہ چونکہ ہماری نسل، جغرافیہ اور زبان الگ ہے اس لیے ہم ہندوئوں سے مختلف قوم ہیں۔ مگر مسلمانوں نے اس امکان سے بھی استفادہ نہ کیا۔ تحریک پاکستان سے بہت پہلے روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوچکا تھا اور آدھی سے زیادہ دنیا اس سے متاثر ہوچکی تھی۔ مسلمان چاہتے تو اپنی آزادی کی تحریک سوشلزم کے نظریے سے ہم آہنگ ہوکر چلاتے۔ مگر انہوں نے سوشلزم کی طرف نگاہِ غلط انداز سے بھی نہ دیکھا۔ 

انہوں نے کہا تو یہ کہا کہ ہم ہندوئوں سے مختلف قوم ہیں اس لیے کہ ہمارا مذہب الگ ہے، اور چونکہ ہمارا مذہب الگ ہے اس لیے ہماری تہذیب اور تاریخ بھی جداگانہ ہے، چنانچہ ہمیں اپنے جداگانہ تشخص کے تحفظ اور دفاع کے لیے الگ ملک درکار ہے، اور یہ ملک ان تمام علاقوں پر مشتمل ہونا چاہیے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اس صورت حال نے تحریک پاکستان کو ایک خالص نظریاتی تحریک بنادیا۔ بعض عناصر پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ قیام پاکستان کی وجہ مسلمانوں کے معاشی مفادات کا تحفظ تھا۔ لیکن اگر ایسا ہوتا تو تحریکِ پاکستان کا اصل نعرہ روزگار ہوتا۔ مگر تحریک پاکستان کا مرکزی نعرہ اسلام تھا، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کا جداگانہ تشخص تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تحریک پاکستان سیاسی تحریک نہیں تھی۔ تحریک پاکستان سیاسی تحریک تھی لیکن تحریک پاکستان کا سیاسی پہلو بھی نظریاتی پہلو کے دائرے میں تھا۔ 

اب سوال یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے تقاضے پاکستان بننے کے باوجود کیوں پورے نہ ہوسکے؟

تحریک پاکستان اگرچہ پورے برصغیر کے مسلمانوں کی تحریک تھی مگر اس تحریک کا انحصار صرف ایک شخصیت پر تھا۔ یہ شخصیت قائداعظم تھے۔ بعض لوگ قائداعظم کو صرف سیاسی رہنما سمجھتے ہیں۔ مگر قائداعظم صرف سیاسی رہنما نہیں تھے، وہ پاکستان کی علامت تھے، تحریک پاکستان کا استعارہ تھے، مسلمانوں کے ماضی کی صدا تھے، برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا مظہر تھے، مسلمانوں کی آرزوئوں کی تجسیم تھے، مسلمانوں کے باطن کی آواز تھے۔ وہ مسلمانوں کی تلوار تھے، مسلمانوں کی ڈھال تھے۔ ان کا نظریہ ’’قدیم‘‘ کی علامت تھا، ان کی شخصیت ’’جدید‘‘ کا پیکر تھی۔ اس طرح قائداعظم قدیم و جدید کا حسین امتزاج تھے۔ لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی قائداعظم اس دنیا سے رخصت ہوگئے، قوم یتیم ہوگئی اور وہ تمام چیزیں قائداعظم کے ساتھ رخصت ہوگئیں قائداعظم جن کی علامت تھے۔ 

قائداعظم کی شخصیت اتنی اہم تھی کہ لارڈ مائونٹ بیٹن سے یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ اگر ہمیں قائداعظم کی سنگین بیماری کا علم ہوجاتا تو ہم برصغیر کی تقسیم کے منصوبے پر کچھ عرصے کے لیے عمل درآمد ترک کردیتے۔ چنانچہ قائداعظم کے انتقال نے قیادت کا سنگین خلا پیدا کردیا۔ مسلم لیگ اگر حقیقی معنوں میں نظریاتی جماعت ہوتی تو قائداعظم کی عدم موجودگی کا کسی نہ کسی حد تک ازالہ ہوسکتا تھا۔ مگر مسلم لیگ صرف ایک سیاسی جماعت تھی اور اس پر جاگیرداروں اور مطلب پرستوں کا غلبہ تھا۔ چنانچہ وہ قائداعظم کے انتقال کے سانحے کا بوجھ نہ اٹھا سکی۔ قائداعظم کے بعد لیاقت علی خان قوم کی امیدوں کا مرکز بن کر ابھرے، لیکن ایک تو یہ کہ وہ محمد علی جناح نہیں تھے اور دوسرے یہ کہ انہیں جلد ہی منظر سے ہٹا دیا گیا۔ 

چنانچہ پاکستان میں قیادت کا خلا ایک سنگین مسئلہ بن کر سامنے آیا۔ قیادت کی موجودگی یا عدم موجودگی اتنی اہم ہے کہ قیادت موجود ہو تو ایک ناکام قوم کامیاب قوم بن جاتی ہے، اور قیادت موجود نہ ہو تو ایک کامیاب قوم بھی ناکام قوم میں ڈھل جاتی ہے۔ قائداعظم موجود تھے تو پاکستان عدم سے وجود میں آگیا، اور قائداعظم موجود نہ رہے تو پاکستان رفتہ رفتہ ایک ناکام ریاست کا تاثر خلق کرنے کا باعث بننے لگا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک ِپاکستان کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو ایک دیانت دار، مخلص، اہل اور جدید و قدیم پر حاوی قیادت فراہم کی جائے۔ اس سلسلے میںجماعت اسلامی پاکستان کی کسی بھی دوسری جماعت سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ اس لیے کہ جماعت اسلامی سید ابواعلیٰ مودودیؒ کی فکر اور شخصیت کی وارث ہے اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ خود جدید و قدیم کی علامت ہیں۔

پاکستان کی سب سے بڑی قوت اس کا نظریہ تھا۔ اس نظریے کا کمال یہ تھا کہ اس نے بھیڑ کو قوم بنادیا تھا۔ اس نے انتشار میں اتحاد پیدا کیا۔ مایوس لوگوں میں امید پیدا کی۔ جو کچھ نہیں کررہے تھے انہیں متحرک کیا۔ جو ایک گھر نہیں بنا سکتے تھے انہیںایک ملک بنانے کے کام پر لگایا۔ جو انگریزوں سے پٹ گئے تھے اور ہندوئوں سے پٹنے والے تھے انہیں انگریزوں اور ہندوئوں کے خلاف صف آراء کیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان ایک جسم تھا اور اس کا نظریہ اس کی روح تھا۔ لیکن قائداعظم کے بعد جو لوگ پاکستان کے حاکم بنے انہوں نے پاکستان کے نظریے کو فراموش کردیا۔ پاکستان کے کسی حکمران کو سیکولرازم یاد آیا، کسی کو سوشلزم۔ 

چنانچہ ملک و قوم کی نظریاتی بنیادیں کھوکھلی ہوتی چلی گئیں اور ایک قوم کئی قوموں میں بٹ گئی۔ اس صورت حال کا سب سے پہلا اثر مشرقی پاکستان میں نمایاں ہوا جہاں نظریاتی بنیادوں کی کمزوری نے بنگلہ قومیت کے تصور کو فروغ دیا۔ بعد ازاں یہ بیماری ملک کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل گئی۔ چنانچہ ملک میں لسانی اور صوبائی تعصبات اور ذات برادری کے تصورات قوی ہوگئے اور مرکز گریز رجحانات نے ہمیں ہر طرف سے گھیر لیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تحریکِ پاکستان کی تکمیل کی ایک صورت یہ ہے کہ پاکستان کے نظریے کو اجتماعی زندگی میں غالب کیا جائے۔ تحریکِ پاکستان اسلام کو جذبے سے شعور بنانے والی تحریک تھی اور آج اگر کوئی جماعت یہ کام کرنا چاہے تو اسے اسلام سے وابستہ جذبے کو شعور میں ڈھالنا ہوگا۔ حسنِ اتفاق سے جماعت اسلامی خود اسلام کو جذبے سے شعور میں ڈھالنے والی تحریک ہے، چنانچہ یہ کام جماعت اسلامی سے بہتر انداز میں کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ مگر اس کا ناگزیر تقاضا یہ ہے کہ خود جماعت اسلامی اپنی علمی اور تہذیبی بنیاد کو گہرا اور وسیع کرے۔
اسلامی ریاست کے دائرے میں عدل اور اہلیت کے تصور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور ہمارے حکمران طبقے نے قائداعظم کے بعد پاکستان کو عدل اور اہلیت دونوں سے محروم کردیا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی 54 فیصد تھی مگر اُن سے کہا گیا کہ آپ کو پاکستان عزیز ہے تو اپنے وسائل کے حصے کو صرف 50 فیصد تسلیم کرو۔ 

مشرقی پاکستان کی قیادت اور لوگوں نے پاکستان کی محبت میں اپنے 54 فیصد کو 50 فیصد تسلیم کرلیا۔ مگر 50 فیصد پر بھی ایمان داری کے ساتھ عمل نہ ہوا، چنانچہ مشرقی پاکستان میں شکایات پیدا ہوئیں اور ان شکایات نے پروپیگنڈے کی آمیزش کے ساتھ ایک طوفان کی صورت اختیار کرلی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بچے کھچے پاکستان میں اہلیت کو نظرانداز کیا گیا۔ کہیں رشوت اور سفارش کو فوقیت حاصل ہوئی اور کہیں کوٹہ سسٹم کا راج ہوگیا۔ اس منظرنامے میں عدلِ اجتماعی ناممکن ہوگیا۔ حالانکہ تحریکِ پاکستان خود مسلمانوں کے لیے عدل کی تلاش اور قیام کی تحریک تھی۔ چنانچہ جماعت اسلامی پاکستان میں تحریکِ پاکستان کی تکمیل کرنا چاہتی ہے تو اسے عدل اور اہلیت کے تصورات کو اہمیت دینا ہوگی اور انہیں معاشرے کا زندہ جزو بنانا ہوگا۔

تحریکِ پاکستان اپنی اصل میں ایک عوامی تحریک تھی اور قائداعظم اور قوم کے درمیان تعلق کی نوعیت یہ تھی کہ قائداعظم قوم کی وحدت تھے اور قوم قائداعظم کی کثرت تھی۔ لیکن پاکستان 1947ء میں قائم ہوا اور 1958ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا۔ لیکن جنرل ایوب کا مارشل لا پہلا اور آخری مارشل لا ثابت نہ ہوا بلکہ جنرل ایوب کے بعد قوم نے جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کا مارشل لا بھی بھگتا۔ مارشل لا کے تسلسل نے قوم کو دوبڑے نقصانات پہنچائے۔ ایک یہ کہ قوم میں توانا سیاسی کلچر پیدا نہ ہوسکا، اور دوسرا یہ کہ عوام امورِ مملکت میں شرکت کے احساس سے محروم ہوگئے۔ اس کا سب سے ہولناک نتیجہ مشرقی پاکستان میں سامنے آیا جہاں ایک فوجی آمر کا اقتدار ملک کے دولخت ہونے کا سبب بن گیا اور محرومی کے احساس نے عوام کو ریاست کے خلاف بغاوت پر مجبور کردیا۔ اگر چہ آخری مارشل لا کو رخصت ہوئے عرصہ ہوچکا ہے لیکن ملک میں جیسے ہی کوئی سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے نئے اور توانا مارشل لا کا خطرہ ملک و قوم کے سر پر منڈلانے لگتا ہے۔ چنانچہ تحریک پاکستان کی تکمیل کا ایک تقاضا ملک میں مارشل لا کے امکان اور فوجی بالادستی کا خاتمہ ہے۔ پاکستان قائم ہوا تھا تو وہ آزادی کی علامت تھا۔ تحریکِ پاکستان نے انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد کی تھی، ہندوئوں سے آزادی کا عَلم بلند کیا تھا، تاریخ اور قومیت کے تصورات کے جبر کے خلاف بغاوت کی تھی۔ چنانچہ پاکستان کو ہر اعتبار سے آزاد ہونا تھا۔ مگر قائداعظم کے بعد پاکستان کو جو حکمران فراہم ہوئے وہ کالے انگریز تھے، اور یہ کالے انگریز بہت جلد امریکہ اور یورپ کے غلام بن گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ غلامی کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھتی ہی چلی گئی، یہاں تک کہ امریکہ پاکستان کے لیے ایک طاغوت بن کر سامنے آگیا۔ اس تناظر میں تحریک تکمیلِ پاکستان کا مطلب طاغوت کی ہر صورت کے خلاف مزاحمت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنی تاریخ میں ہمیشہ وقت کے جابروں کو للکارا ہے۔ اس نے نہ سوشلزم اور سیکولرازم کے جبر کے آگے ہتھیار ڈالے، نہ جرنیلوں کی آمریت کو تسلیم کیا۔ چنانچہ پاکستان میں جماعت اسلامی سے بڑھ کر طاغوت کی مزاحمت کرنے والا کوئی اور نہیں ہو سکتا، اور جماعت اسلامی اس مزاحمت کے بغیر تحریک پاکستان کی تکمیل کا حق ادا نہیں کرسکتی۔

شاہنواز فاروقی

 

Post a Comment

0 Comments