Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

یورپ پہنچنے کے لیے موت سے کھیلنے والے......



  بکر خاندان کے 23 افراد انسانی سمگلروں کی پرہجوم کشتی میں بیٹھ کر یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے۔
ان میں سے صرف ایک ہی منزل پر پہنچ پایا۔
ایک 14 ماہ کی بچی کی لاش اٹلی کے ساحل پر پائی گئی، اور اسے وہیں دفنا دیا گیا۔ اس کے رشتےداروں کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ ان پانچ سو افراد میں شامل تھے جو کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہو گئے۔ انسانی سمگلروں نے ان کی کشتی سے اپنی کشتی ٹکرا دی تھی۔

بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں نے ایک چھوٹی کشتی پر منتقل ہونے سے انکار کر دیا تھا جو ان کے خیال میں کھلے سمندر کے سفر کے لیے موزون نہیں تھی۔ سمگلروں نے ان کی کشتی ڈبو کر بحث کا خاتمہ کر ڈالا۔
بکر خاندان فلسطینی ہے۔ یہ حالیہ برسوں میں ان کے لیے دوسرا بڑا سانحہ ہے۔ حماس نے 2007 میں انھیں غزہ سے بےدخل کر دیا تھا۔
اس کے بعد وہ مصر میں رہائش پذیر ہو گئے لیکن وہاں کاروبار نہ کر پانے کے باعث ان کی نظریں یورپ پر جمی تھیں۔ یہی وجہ تھی وہ انسانی سمگلروں سے رجوع کرنے پر مجبور ہو گئے۔14 ماہ کی ملکہ رفعت بکر کی لاش اٹلی کے ساحل پر پائی گئی، اور اسے وہیں دفنا دیا گیا

عاطف بکر اس خاندان کے بزرگ ہیں جو مصر ہی میں رہ گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں: ’میں اس کے سخت خلاف تھا، لیکن وہ بار بار یہی کہتے تھے کہ یہاں یا غزہ میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔
’یورپ جانا اور اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے اچھی زندگی کا حصول ان کا خواب تھا۔‘

بکر خاندان شمالی مصر کے علاقے دمیاط سے سفر پر روانہ ہوا تھا۔ یہ انسانی سمگلروں کا گڑھ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں ساحل پر روانگی کے 20 مقامات ہیں۔
محمد الکاشف ’مصری پیش قدمی برائے ذاتی حقوق‘ کے تحقیق کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’گذشتہ سال انسانی سمگلنگ زیادہ منظم نہیں تھی، لیکن اب یہ گروہ ایک دوسرے میں ضم ہو رہے ہیں، اور ان کا کاروبار بڑھتا چلا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا: ’اب سمگلروں کے پاس زیادہ پیسہ اور زیادہ طاقت ہے۔ اگلے سال ان پر قابو پانا بہت مشکل ہو جائے گا۔‘
کاشف پناہ گزینوں اور انسانی سمگلروں پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کاروبار میں فلسطینی، مصریت لیبیائی اور شامی ملوث ہیں۔
بڑے سمگلر زیرِ زمین رہتے ہیں اور صرف اپنے القاب سے جانے جاتے ہیں، مثلاً ابو حمادہ، جنھیں ڈاکٹر اور کپتان بھی کہا جاتا ہے، اور جنرل۔
مہاجرین عام طور پر فی کس دو سے چار ہزار ڈالر ادا کرتے ہیں۔ فیس کا تعین عموماً کشتی کی حالت پر ہوتا ہے۔ کاشف کہتے ہیں کہ سمگلر اکثر اوقات دن کے اوقات میں سرگرم ہوتے ہیں تاکہ رات کو کوسٹ گارڈز سے بچا جا سکے۔

جب مہاجرین روانگی کے مقام پر پہنچتے ہیں تو انھیں ماہی گیری کی کشتیوں میں بین الاقوامی سمندر تک لایا جاتا ہے جہاں سے انھیں بڑی کشتیوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔
ایک کشتی میں سینکڑوں مہاجر ہوتے ہیں جنھیں کشتی کے اندر دو سے تین دن گزارنا پڑتے ہیں۔
جب کشتی بھر جائے تو پھر یہ اٹلی کی جانب سفر شروع کر دیتی ہے۔ جب یہ اٹلی کے پانیوں میں پہنچتی ہے تو سمگلر اطالوی کوسٹ گارڈ کو خطرے کا سگنل دے کر پناہ گزینوں کو سمندر میں چھوڑ دیتے ہیں۔
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرین کے مطابق صرف اس سال بحیرۂ روم میں تین ہزار سے زیادہ لوگ ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم یورپی سرحدی ادارے فرونٹیکس کا کہنا ہے کہ اس سال 182156 افراد یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ تعداد 2013 کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔
مہاجرین کی تعداد میں اس ڈرامائی اضافے کے بعد یورپی اقوام نے انھیں روکنے کی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں آپریشن ٹرائیٹن شروع کیا گیا ہے جس میں 20 سے زیادہ یورپی ملک شامل ہیں اور یہ یکم نومبر سے شروع ہو گا۔

تاہم اس کی توجہ سرحدوں کے تحفظ پر مرکوز رہے گی، نہ کہ بچاؤ اور امدادی کارروائیوں پر۔ انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ اس سے سمندر میں ڈوب کر مرنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔
شامی پناہ گزین ابو بارا پانچ بچوں کے باپ ہیں اور یورپ پہنچنے کے خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں۔

وہ دس بار کوشش کر چکے ہیں۔ اپریل میں وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ سمندر میں ایک ہفتے تک پھنس کر رہ گئے تھے۔
ان کی کشتی میں 160 شامی اور 64 مصری تھے: ’تیسرے دن انھوں نے ہمیں بتایا کہ پینے کا پانی ختم ہو گیا ہے، سو ہم نے سمندر کا پانی پینا شروع کر دیا۔ دن کو سخت گرمی اور رات کو سخت سردی پڑتی تھی۔ میرے بچے سمندر سے بےحد خوفز دہ ہو گئے تھے۔ اس افراتفری، تھکاوٹ اور بھوک کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سات دن سال سالوں کے برابر تھے۔‘
بالآخر سمگلر انھیں مصر واپس لے آئے اور اب ان کا رقم کے معاملے پر تنازع چل رہا ہے۔
ابو بارا نے کہا: ’ایک اور کشتی ہمارے پیچھے لگ گئی جو ہمیں ڈبونا چاہتی تھی۔ ہماری کشتی کا کپتان بڑا نڈر تھا، اس نے جلدی سے واپسی کا راستہ اختیار کیا اور ہمیں واپس ساحل پر لے آیا۔‘

ان کے بیوی بچے جولائی میں یورپ پہنچ گئے ہیں، ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ ساتھ جا سکتے۔ انھوں نے بڑے فخر کے ساتھ مجھے اپنی چار سالہ بچی فرح کی تصویر دکھائی جو جرمنی میں سکول میں داخل ہو گئی ہے۔
لیکن اگر ابو بارا ایک بار پھر پیسے جمع کر کے کسی کشتی پر سوار ہونے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو سمندر میں ڈوبنا ہی واحد خطرہ نہیں ہے۔ انھیں مصری پولیس بھی گرفتار کر سکتی ہے۔ صرف اِسی سال مصری پولیس نے غیرقانونی طریقے سے باہر جانے والے 4300 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

اس میں بکر خاندان کے آٹھ افراد بھی شامل ہیں، جن میں سے چار بچے ہیں۔ یہ دمیاط میں اپنے خاندان والوں کے ساتھ کشتی میں سوار ہونے سے قبل گرفتار ہو گئے تھے اور انھیں چھ ہفتے جیل کی ہوا کھانا پڑی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پولیس سمگلروں پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے مہاجرین کو پکڑنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
تاہم حکام کہتے ہیں کہ ان کا منافع بخش کاروبار میں ملوث گروہوں کے ساتھ کوئی رسم و راہ نہیں ہے۔
تاہم وہ اعتراف کرتے ہیں کہ گذشتہ پانچ برسوں میں بہت کم سمگلروں کو سزا ہوئی ہے، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون زیادہ سخت نہیں ہے۔

Post a Comment

0 Comments