Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

مولانا رشید احمد ِگنگوہیؒکی یاد میں.....


برصغیر پاک وہند کی تاریخ یوں تو جبال علم،اساطین فکر ونظر اور اصحاب تدبر وحکمت سے بھری پڑی ہے لیکن حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی شخصیت گزشتہ ڈیڑھ صدی میں اس قدر عظمت ووقار کی حامل ہے کہ بلاشبہ برصغیر میں انہیں آفتاب وماہتاب کی حیثیت حاصل ہے، ان کی مجاہدانہ خدمات ہو ں یا علمی کارنامے ، تصوف وسلوک میں ان کی روحانی جدوجہد ہو یا برصغیر میں اسلام، اسلامی علوم واقدار کے تحفظ وبقاء کا معاملہ ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے ہرمیدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے 1857ء کے جہاد آزادی میں حصہ لیا، شاملی کے میدان میں انگریز سامراج کے مقابلے میں سربکف ہوئے، مجاہدین شاملی کے قاضی مقرر ہوئے، تحریک اگر چہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکی لیکن تاریخ نے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا نام قائدین جہاد کی فہرست میں محفوظ کرلیا۔ اس جہاد میں حصہ لینے کی پاداش میں وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، گرفتار بھی کئے گئے۔ احباب کو پھانسی کا خدشہ تھا لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے کے مصداق چھ ماہ قید کے بعد بری ہونے کا پروانہ ہاتھ میں لئے رہائی پائی۔ 
حالانکہ عدالت کے سوالات کے درست اور صدق پر مبنی جوابات دئیے۔ عدالت نے پھانسی کی دھمکی بھی دی لیکن حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ تک جب پھانسی کی خبر پہنچی تو انہوں نے فرمایا’’رشید احمد کو کوئی پھانسی نہیں دے سکتا، ابھی اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت کام لینے ہیں‘‘ ۔ آخر خدا کے بھروسے پر کہے گئے ان الفاظ کو سچ ثابت ہونے سے کون روک سکتا تھا؟ جہاں تک مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے علمی کمالات کا تعلق ہے ، حضرت رشید احمد گنگوہیؒ حدیث و فقہ میں امامت کے مرتبے پر فائز تھے، ان کے تفقہ کے متعلق علامہ انور شاہ کشمیری کا یہ ارشاد فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے کہ’’مولانا رشید احمد گنگوہیؒ فتاویٰ شامی کے مصنف ابن عابدین شامیؒ سے بڑے فقیہ تھے۔ 

علم حدیث میں ان کی مہارت اس قدر مسلمہ ہے کہ حضرت گنگوہی کا درس حدیث ہندوستان میں اپنی نظیر آپ تھا، وہ تمام محدثین کے علوم کا خلاصہ وجوہر طلباء کے سامنے رکھ دیتے اور طالبعلم کو متقدمین ومتاخرین کی کتابوں کے مطالعے سے بے نیاز کردیتے ۔ علم حدیث میں ان کی مہارت وحذاقت پر ’’الکوکب الدری‘‘ اور ’’لامع الدراری‘‘ شاہد عدل ہیں۔ اتباع سنت اور عشق رسالت ماٰب ﷺ کا بے پایاں اور فراواں جذبہ رکھتے تھے، سالہا سال تک بھی اگر کوئی شخص ان کے روزمرہ اعمال کا مشاہدہ کرتا تو کوئی عمل خلاف سنت نہ دیکھتا۔ شریعت ان کی طبیعت می رچ بس گئی تھی۔ اس سہولت کے ساتھ سنت پرعمل کرتے کہ مزاج پر کسی قسم کا بوجھ محسوس نہ ہوتا۔ رسالت مآب ﷺ اوران کے متعلقات کے ساتھ وارفتگی اور عشق کا مقام رکھتے تھے۔ اگر کوئی شخص مدینہ منور ہ کی کوئی چیز ہدیہ میں پیش کرتا تو اس خوشی ومسرت کے ساتھ قبول کرتے کہ دینے والے کا دل خوش ہوجاتا۔ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کی مٹی کسی شخص کو دے کر فرمایا، ’’ اس کو کھالو‘‘ اس شخص نے کہا کہ مٹی کھانا تو حرام ہے، تو فرمایا کہ’’ وہ کوئی اور مٹی ہوگی‘‘ ۔جو کوئی بھی آپ کے ساتھ وابستہ ہوتا اس کے دل میں اتباع سنت اور عشق رسولﷺ کا حقیقی جذبہ پیدا فرمادیتے ۔ 

مولانا رشید احمد گنگوہیؒ احقاق حق اور ابطال باطل کا عظیم جذبہ رکھتے تھے۔ جس موقف کو حق سمجھتے اس پر ڈٹ جاتے اور کسی نقصان کی پروا نہ کرتے ۔ دارالعلوم دیوبند کی سرپرستی کے زمانے میں بعض حضرات نے ایک صاحب ثروت شخص کے بارے میں تجویز دی کہ اسے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کا رکن بنادیا جائے ورنہ اس کی جانب سے دارالعلوم کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ حضرت گنگوہیؒ نے انکار فرمادیا اور فرمایا کہ ’’جب یہ شخص اہل نہیں تو ہم ایک نااہل شخص کو اس منصب پر کیوں نامزد کریں اگر اس سے مدرسہ بند ہوتا ہے تو ہوجائے، لیکن قیامت کے روز ایک نااہل شخص کو اس منصب پر نامزد کرنے کی جوابدہی ہم سے نہ ہوسکے گی‘‘ ۔ حضرت گنگوہیؒ کوتواضع اور عاجزی میں انتہائی بلند مقام حاصل تھا، ایک مرتبہ دوران درس جب انتہائی اعلیٰ ودقیق علمی مضامین بیان فرمائے تو بعض طلباء مجلس درس میں ہی مدح وتعریف میں رطب اللسان ہوگئے تو فرمایا کہ’’ خدا کی قسم میں اپنے کو تم میں سے کسی سے بہتر توکجا برابر بھی خیال نہیں کرتا ‘‘۔حضرت گنگوہیؒ تصوف وسلوک میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے فیض یافتہ تھے۔ حضرت حاجی صاحبؒ کی خانقاہ میں صرف چالیس روزہ مجاہدات ، ریاضتوں اور اذکار کے بعد خلافت کے اعزاز سے سرفراز کئے گئے ، بعد ازاں اپنے جد امجد حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہیؒ کی خانقاہ کو ، جو کہ تین صدیوں سے ویران وبے آباد تھی ، نئی آب وتاب سے آباد کیا اور مرکز رشد وہدایت بنادیا۔ 

پھر اسی خانقاہ سے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ، مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ، مولانا محمد یحییٰ کاندھلویؒ ، مفتی کفایت اللہ دہلویؒ ، مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ جیسے جبال واساطین علم نے فیض حاصل کیا کہ جن میں سے ہر ایک کو ایک جماعت قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان حضرات کے علاوہ ہزاروں متوسلین وخلفاء آپ کے فیض یافتگان میں شامل تھے۔ یہ گنگوہ کا روحانی فیض ہی تھا جس سے عالم منور ہوا اور جس کی نور کی کرنیں ایک جہاں کو ضو فشاں کرتی رہیں۔ 

عصر حاضر میں جبکہ نئی نسل اپنی تاریخ اور اپنے عظیم اکابر سے ناواقف اور ان کے طرز جد وجہد سے لاعلم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اکابر کے کردار کو نوجوان نسل کے سامنے لایاجائے تاکہ وہ جذباتیت کی فضاء میں رہنے کے بجائے اپنے ا کابر کے طرز سے واقف ہو کردینی جدوجہد میں اخلاص و للہیت، تقویٰ وطہارت ، روحانی فیوض وبرکات اور سلاسل تصوف وسلوک کی اہمیت سے آگاہ ہو اور عصر حاضرمیں سنجیدگی اور متانت کے ساتھ جہد وعمل کی استعداد بہم پہنچاسکے اور فکری انتشار کے اس دور میں افراط وتفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کرسکے ۔ اس مقصد کیلئے حضرت گنگوہیؒ کی شخصیت کا تفصیلی مطالعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ انہی مقاصد کے پیش نظر شیخ الہند اکادمی لاہور نے 19اکتوبر بروز اتوار ایوان اقبال لاہور میں ’’فقیہ ملت سیمینار‘‘ کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔ 

حافظ غضنفرعزیز

Rashid Ahmad Gangohi

Post a Comment

0 Comments