Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پاکستان میں ٹیلی ویژن صحافت کا المیہ......


مثل مشہور ہے ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘۔ تاہم پاکستان میں یہ مثل بدل کر کچھ سے کچھ ہوگئی ہے۔ اب آپ چاہیں تو اس مثل کو یوں بھی ادا کرسکتے ہیں:
’’کھودا پاکستان کے ٹیلی ویژن چینل، نکلا شیخ رشید‘‘

بعض لوگ گمان کرسکتے ہیں کہ ان فقروں میں شیخ رشید اور چوہے کی تذلیل کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ مثال کے بدل جانے کی ایک ٹھوس اور معروضی وجہ ہے۔
بی بی سی کی اردو ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس ماہ میں پاکستان کے ’’آزاد‘‘ ٹیلی ویژن چینلز نے مختلف سیاست دانوں کے جو خصوصی یا Exclusive انٹرویوز نشر کیے ہیں ان کی تفصیل ناموں کے اعتبار سے کچھ اس طرح ہے:

شیخ رشید کے 170 انٹرویوز، عمران خان کے 75 انٹرویوز، ڈاکٹر طاہر القادری کے 60 انٹرویوز۔ گزشتہ دس ماہ کے دوران وزیراعظم نوازشریف اور میاں شہبازشریف کے تقریباً 100 انٹرویوز چینلز سے نشر ہوئے، جب کہ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور اے این پی کے رہنمائوں کے بھی کم و بیش سو انٹرویوز اس عرصے میں نشر ہوئے ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ انٹرویوز کی یہ تعداد عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے سے پہلے کی ہے۔

تجزیہ کیا جائے تو یہ پاکستان میں ٹیلی ویژن صحافت کا ایک ایسا بھیانک چہرہ ہے جسے اگر اس صحافت کے ذمے دار خود بھی غور سے دیکھ لیں تو ڈر جائیں۔ جماعت اسلامی ملک کی ایک پرانی اور سب سے منظم جماعت ہے۔ اس کی سیاست اور خدمات معاشرے پر گہرا اثر ڈالتی ہیں، لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی کے رہنما اکثر اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کو اہمیت نہیں دیتے اور ان کی مناسب تشہیر نہیں ہو پاتی۔ لیکن پاکستان کی ٹیلی ویژن صحافت سے متعلق مذکورہ حقائق کو دیکھا جائے تو اس صحافت نے شیخ رشید کے مقابلے پر تمام سیاسی جماعتوں اور تمام سیاسی رہنمائوں ہی کو جماعت اسلامی بنادیا ہے۔ جماعت اسلامی کے لوگ اپنے خیالات اور سرگرمیوں کی تشہیر کے حوالے سے شکایت کرتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ اس کی ایک وجہ جماعت اسلامی کا پارلیمانی قوت نہ ہونا ہے۔ لیکن اس وقت ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی قوت مسلم لیگ (ن) ہے تاہم اس کے وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کو مجموعی طور پر دس ماہ میں 100 بار ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا، اس کے برعکس پارلیمنٹ میں ایک سیٹ کی شہرت رکھنے والے شیخ رشید کو 170 مرتبہ ٹیلی ویژن پر جلوہ افروز ہونے کا موقع دیا گیا۔ ملک کی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت پیپلزپارٹی ہے، مگر اس کے رہنما انٹرویوز کے معاملے میں شیخ رشید سے کوسوں دور کھڑے ہیں۔

 پاکستان کی تیسری بڑی پارلیمانی پارٹی تحریک انصاف ہے مگر اُس کے رہنما عمران خان شیخ رشید سے شکست کھا گئے۔ اس لیے کہ دس ماہ میں شیخ رشید کے 170 اور عمران خان کے صرف 75 انٹرویوز نشر ہوسکے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا مشہور زمانہ یا بدنامِ زمانہ علم اور ان کی شعلہ بیانی بھی ان کے کام نہ آسکی اور شیخ رشید نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی انٹرویوز کی دوڑ میں شکست سے دوچار کردیا، اس لیے کہ گزشتہ دس ماہ میں شیخ رشید نے 170 خصوصی انٹرویوز دیے جب کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے حصے میں صرف 60 انٹرویوز آسکے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی اور اے این پی کیا، اسلحہ بردار ایم کیو ایم بھی شیخ رشید کا مقابلہ نہ کرسکی اور اس کی دھونس اور دہشت بھی اس کے کام نہ آسکی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شیخ رشید کے انٹرویوز کی تعداد پاکستان میں ٹیلی ویژن صحافت کا المیہ بن کر ابھری ہے۔

 ٹیلی ویژن کو ’احمق ڈبا‘ یا ’Idíot Box‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے مواد میں کتاب اور اخبار و جرائد کے مواد کی طرح گہرائی نہیں ہوتی بلکہ اِس کے برعکس اس پر سطحیت کا غلبہ ہوتا ہے۔ مگر شیخ رشید کے انٹرویوز کی تعداد کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ’’آزاد چینلز‘‘ کے ذمے داروں نے ٹیلی ویژن کو Idíot Box کے ساتھ ساتھ Idíot,s Box یا احمقوں کا ڈبا بھی بنا دیا ہے۔ یعنی اس سارے ذریعے یا میڈیم سے مواد نشر کرنے والے بھی احمق ہیں اور اس مواد کو دیکھنے والے بھی احمق ہیں۔ نشر کرنے والے اس لیے کہ وہ دس ماہ میں شیخ رشید کے 170 انٹرویوز نشر کررہے ہیں اور دیکھنے والے اس لیے کہ وہ دس ماہ میں شیخ رشید کے 170 انٹرویوز دیکھ کر بھی احتجاج نہیں کرتے۔

 لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے نام نہاد آزاد ٹیلی ویژن چینلز نے شیخ رشید کو اتنی اہمیت کیوں دی؟
بعض لوگ اس بات پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں کہ شیخ رشید کی شخصیت اور سیاست پر ایجنسیوں کا سایہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات غلط ہو، لیکن اگر ملک کے آزاد چینلز دس ماہ میں شیخ رشید کے 170 انٹرویوز نشر کررہے ہیں تو اکثر لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یقینا شیخ رشید کی پشت پر کوئی نہ کوئی موجود ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو انہیں ٹیلی ویژن کی صحافت میں اتنی اہمیت کیوں ملتی؟ لیکن اس خیال میں صرف شیخ رشید اور ایجنسیوں کی مذمت موجود نہیں ہے، بلکہ اس میں نام نہاد آزاد چینلز کی مذمت بھی موجود ہے۔ اس لیے کہ شیخ رشید کے 170 انٹرویوز نشر کرکے چینلز نے ثابت کردیا ہے کہ وہ کتنے آزاد ہیں۔ لیکن یہاں آزادی کا لفظ صرف سیاسی معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا۔ یہاں آزادی کا مفہوم یہ بھی ہے کہ ہمارے چینلز شیخ رشید سے بلند ہوکر سوچنے کے قابل نہیں۔ اس صورتِ حال کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہمارے آزاد چینلز کی ذہنی سطح صرف شیخ رشید کے برابر ہے۔

شیخ رشید کو اہمیت دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شیخ رشید کی ہر گفتگو میں ایک اسکینڈل کلام کرتا نظر آتا ہے۔ اسکینڈل کی پیشکش زرد صحافت کی پہچان ہے لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اسکینڈل بھی زندگی کا حصہ ہے۔ اور یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد آزاد چینلز نے دس ماہ میں شیخ رشید کے 170 انٹرویوز نشر کرکے اسکینڈل اور اس کی پیشکش کو معمول بنادیا ہے۔

شیخ رشید کو قوم کے اعصاب پر سوار کرنے کا ایک سبب یہ ہوسکتا ہے کہ شیخ رشید کی گفتگو میں سنسنی خیزی اور الزامات کا چٹخارہ ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کی ٹیلی ویژن صحافت معاشرے میں سنجیدگی کے نام پر سنسنی خیزی اور الزامات کا ’’کلچر‘‘ پیدا کررہی ہے، اور یہ ملک و قوم سے کھلی دشمنی ہے، اس لیے کہ جس قوم کو سنسنی خیزی اور الزامات کی عادت ہوجائے اس کے لیے کوئی سنجیدہ بات سننا ناممکن ہوجاتا ہے۔

ہمارے آزاد ٹیلی ویژن چینلز کا ایک مرض درجہ بندی کی دوڑ میں سبقت المعروف Rating ہے۔ لیکن جس ریٹنگ سے ملک میں اسکینڈل کی نفسیات عام ہو، جس ریٹنگ سے معاشرے میں سنسنی خیزی پھیلے، جس ریٹنگ سے عوام میں الزام تراشی کی نفسیات کو فروغ حاصل ہو وہ ریٹنگ ملک و قوم کے لیے زہرِ قاتل ہے اور بدقسمتی سے ہماری صحافت بالخصوص ٹیلی ویژن کی صحافت اس زہر کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں دن رات مصروف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں ٹیلی ویژن چینلز کا تجربہ نیا ہے، کچھ وقت کے بعد یہ چینلز اپنے منفی تجربات سے بہت کچھ سیکھیں گے اور خود کو درست کرلیں گے۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے چینلز ابتدا ہی سے منفی چیزوں کو رویہ اور رجحان بنا رہے ہیں۔ اور جب کوئی چیز رویہ اور رجحان بن جاتی ہے تو اس کو ختم کرنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہماری فلم انڈسٹری ہے۔ اس انڈسٹری نے یہ کہہ کر بدمذاقی، پھکڑ پن اور بلند آہنگ کو عام کیا کہ عوام یہی کچھ چاہتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ فلمی صنعت کے لوگوں نے پہلے پست چیزوں کو عام کیا، اور جب عوام ان کے عادی ہوگئے تو پست چیزوں کی ذمے داری عوام پر ڈال دی۔ ہمارے آزاد ٹیلی ویژن چینلز بھی یہی کریں گے۔

 ان کے لیے ریٹنگ کی بڑھتی ہوئی اہمیت ظاہر کررہی ہے کہ وہ آج نہیں تو کل ہر پست، سطحی اور فضول چیز کی ذمے داری ناظرین پر ڈال دیںگے۔ لیکن اس صورت حال کا مفہوم کیا ہے؟

قائداعظمؒ نے کہا تھاکہ قوم اور صحافت کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن قائداعظمؒ نے جب یہ بات کہی اُس وقت صحافت ایک مشن تھی اور صحافت کا منفی پہلو محض ایک اندیشہ تھا۔ مگر اب مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ صحافت کے منفی پہلو ہمارا حال بن گئے ہیں اور صحافت کی رہنمائی محض ایک امکان بن کر رہ گئی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری صحافت بالخصوص ٹیلی ویژن کی صحافت کسی بھی اعتبار سے کوئی صحافت نہیں رہ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر قوم کا ایک نظریہ، ایک ایجنڈا اور ایک اخلاقی سانچہ ہوتا ہے اور اس قوم کے ذرائع ابلاغ ان تمام چیزوں کو پیش نظر رکھ کر مواد تیار کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ کے مواد میں نہ کہیں دو قومی نظریہ جھلکتا ہے، نہ ہمارے مذہب کی اقدار… یہاں تک کہ ہمارے ذرائع ابلاغ تعلیم، غربت، صحت، قومی یکجہتی اور حقیقی جمہوری رویوں تک کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے لیے کچھ اہم ہے تو مرغوں کی لڑائی کی طرح برپا کیے ہوئے ٹاک شوز۔ ان کے نزدیک کوئی شے قابلِ قدر ہے تو اسکینڈل۔ ان کے لیے کوئی چیز فروغ دیے جانے کے لائق ہے تو سنسنی خیزی۔

 ان کی دلچسپی ہے تو الزامات کی نفسیات کو عام کرنے میں۔ دنیا میں جہاں ذرائع ابلاغ کسی مذہب، کسی نظریے، کسی اخلاقی سانچے کے قائل نہیں ہوتے وہاں بھی ذرائع ابلاغ کم از کم معروضیت یا Objectivity کی پاسداری ضرور کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں ذرائع ابلاغ معروضیت کا بھی گلا گھونٹ رہے ہیں۔ آخر جو ذرائع ابلاغ دس ماہ میں شیخ رشید کے 170 انٹرویوز نشر کررہے ہوں وہ معروضی ہونے کا دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں!


شاہنواز فاروقی

 

Post a Comment

0 Comments