Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

تھر کے قحط زدہ لوگ خودکشیاں کرنے لگے......


چھاچھرو: سمو بھیل گوٹھ کی رہائشی تیس برس کی ماروبھت نے اپنے بچوں کو غذا کی فراہمی میں ناکامی کے بعد 23 اگست کو اپنی زندگی ختم کردینے کا فیصلہ کرلیا۔
واضح رہے کہ سمو بھیل چھاچھرو سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔
اس کی موت کے فوراً بعد صحافیوں اور سماجی کارکنان اس کے گھرپہنچے تھے جہاں اس کے خاندان کے لوگوں نے انٹرویو کے دوران اس کی موت کا سبب معاشی پریشانیوں کو قرار دیا۔ اب اس خاندان نے میڈیا سے بات کرنے سے انکار کردیا ہے۔
   حکام کا کہنا ہے کہ پچھلے سالوں میں خودکشی کے چوبیس کیس 2011ء میں رپورٹ ہوئے، اور پینتس 2012ء میں۔ لیکن محض سات مہینوں کے اندر تھرپارکر ضلع میں خودکشی کے نتیجے میں یہ اکتیسویں موت ہے۔
اس علاقے میں خودکشی کے ان بڑھتے ہوئے واقعات کو گھریلو تشدد اور غربت سے منسوب کیا جارہا ہے۔
ایک معروف سماجی کارکن اور حصار فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر سونو کنگھرانی کہتے ہیں کہ درحقیقت خودکشیوں کے پیچھے بنیادی وجہ غربت ہے۔
    
انہوں نے کہا ’’یہاں بہت سے عوامل ہیں، لیکن غربت اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ موجود ہے، جس پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے یہ جاری رہے گی۔ یہ عورت جس نے اپنی ہی جان لینے کا فیصلہ کیا،وہ جس مخمصے کا سامنا کررہی تھی، اس سے نکلنے کے لیے اس کےسامنے کوئی راستہ موجود نہیں تھا۔‘‘
تھرپارکر میں کام کرنے والی ایک این جی اور اویئر کی جانب سے مرتب کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق خودکشی ایک مخمصہ ہے، جس کا سامنا مرد و خواتین دونوں کو کرنا پڑرہا ہے۔

اویئر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر علی اکبر رحیمو کا کہنا ہے کہ ’’ہم حقیقی اعدادوشمار پیش نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا ’’لیکن خودکشیوں کے ان کیسز کو تنہا نہیں دیکھا جاسکتا، اس لیے کہ یہ ایک بڑے مسئلے کا حصہ ہیں، جو خشک سالی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غربت ہے۔‘‘

ایک دوسرے کیس میں ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ مالی مسائل پر ہونے والے جھگڑے کے بعد سہہ پہر کے قریب اپنا گھر چھوڑ کر چلا گیا۔
رات کے وقت ایک مقامی شخص نے اس کی لاش سمو بھیل گوٹھ کے قریب ایک کنویں کے اندر پائی اور اس کی بیوی کو مطلع کیا۔

صورتحال کی سنگینی کی وضاحت کرتے ہوئے علی اکبر رحیمو کہتے ہیں ’’چھاچھر جو تھر کے چھ تعلقوں میں سب سے بڑا تعلقہ ہے، یہاں ایک ہی دیہی صحت کا مرکز قائم ہے، جسے کاغذات میں تعلقہ ہسپتال کہا جاتا ہے۔‘‘
ہر مقامی فرد یا ایک این جی او کے عہدے دار جن سے ڈان نے بات کی، انہوں نے مطالبہ کیا کہ تھر میں جاری قحط سالی پر عوام کی توجہ مبذول کروائی جائے۔
اس سال خشک سالی کے بارے میں جو اطلاعات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق یہ اس سے قبل 1974ء اور 1986ء میں واقع ہونے والی خشک سالی سے بھی بدتر ہے۔

یہ خشک سالی مون سون کی تاخیر کا براہِ راست نتیجہ ہے، یا پھر تھر میں ہی اس کی کمی ہے۔ عام طور پر مون سون کے لیے پندرہ جون اور پندرہ اگست کا درمیانی عرصہ قرار دیا جاتا ہے، اس کے بعد ہی خشک سالی واضح ہوتی ہے۔
ڈاکٹر سونو کنگھرانی یہاں پر رائج ایک عقیدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’تھڈلی، رکشابندھن کا تہوار سے ایک اشارہ ملتا ہے کہ تھر میں مزید بارش نہیں ہوگی۔ اور ٹھیک ایسا ہی ہوا جب اگست کے مہینے میں یہ تہوار منایا گیا تھا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کا قحط کبھی کبھار ہی آتا ہے۔ ’’یہ قحط غیرمعمولی اس لیے ہے کہ گھاس اور چارے کی پیداوار صفر ہے، جس کے براہِ راست اثرات مویشیوں پر پڑے ہیں، اور قحط سالی کی اس تباہی سے نمٹا ان لوگوں کے لیے دشوار ہوگیا ہے۔‘‘

خشک سالی کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی اموات پر کئی مہینوں سے مقامی این جی اوز اور اخبارات کی جانب سے صوبائی حکومت کے ساتھ شدید احتجاج کیا جارہا تھا۔
صوبائی حکومت کی جانب سے حال ہی میں خشک سالی پر ایک پالیسی متعارف کرائی گئی تھی، لیکن ڈاکٹر سونو کنگھرانی

جو یہ پالیسی تیار کرنے والی اس کمیٹی کے اراکین کے ساتھ تھے، پُرامید نہیں تھے
انہوں نے کہا ’’آنے والے مہینوں میں کچھ نہیں ہوگا۔ اس وقت ہم اس پالیسی کا انتظار کررہے ہیں، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کو اسمبلی سے منظور کروایا جائے گا۔‘‘
ڈاکٹر سونو نے کہا ’’حکومت کا خیال تھا کہ شاید تھر کے لوگوں میں گندم تقسیم کردینے سے تھر کا موضوع ختم ہوجائے گا۔گندم کی تقسیم سے اس کو حل نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

وہ کہتے ہیں ’’اسی طرح بچوں کو حفاظتی ٹیکے دینے سے ان کی بھوک کا خاتمہ نہیں ہوجائے گا۔ تھر میں مویشیوں کو بچانے کا سوال ہے، جس پر تھری لوگ انحصار کرتے ہیں۔ ہم بات کرتے رہیں گے، اس کے ساتھ ان کی اموات جاری رہیں گی۔‘‘
اس کے بعد خشک سالی کے نتیجے میں تھر سے دو قسم کے لو گ نقل مکانی کرتے ہیں، ایک تو وہ ہیں جو عارضی طور پر کسی جگہ منتقل ہوجاتے ہیں، اور دوسرے وہ ہوتے ہیں جو ان حالات میں مستقل طور پر یہاں سے نقل مکانی کرتے ہیں۔

ایسے لوگ جو اپنے پورے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کرتے ہیں، ایک سال کے لیے زیادہ تر ایک بیراج کے قریب واقع سندھ کے مغربی اور جنوبی حصوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔

ان مقامات میں عمرکوٹ (جہاں نارا کینال کے قریب یہ لوگ قیام کرتے ہیں)، میر پور خاص اور بدین (جہاں زیادہ تر نقل مکانی کرنے والے کوٹری بیراج کے قریب ڈیرہ ڈالتے ہیں) شامل ہیں۔
پورے خاندان کو ساتھ لے کر نقل مکانی کرنے کی وجہ کھیتوں پر کام کے مواقع کی تلاش ہے۔

ڈاکٹر سونو کنگھرانی وضاحت کرتے ہیں کہ ’’کپاس اور مرچ کی فصل کی کٹائی پندرہ ستمبر سے شروع ہوتی ہے، جس کے لیے یہ لوگ پہلے سے نقل مکانی کرتے ہیں، اور پھر ایک سال بعد دوبارہ آتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’اس کے علاوہ بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے حال ہی میں نقلِ مکانی کی ہے، وہ فصل کے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی اور تھر میں مواقع کی کمی کی وجہ سے اپنا قیام جاری رکھ سکتے ہیں۔ ‘‘
چھاچھرو میں تھر ڈیپ دیہی ترقیاتی پروگرام کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے ایک رکن گوتم راٹھی کہتے ہیں تھر میں تباہی کی وجہ ایک جامع پالیسی کا فقدان ہے۔
انہوں نے کہا ’’اگر ہم بڑی تعداد میں پالیسیاں بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں کہیں اور دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن پالیسی کے بجائے اس کے نفاذ کے بارے میں سوالات نہیں کررہے ہیں۔‘‘

تھر میں خشک سالی کے حل کی تجویز دیتے ہوئے ڈاکٹر سونو کنگھرانی اور گوتم راٹھی کی رائے تھی کہ مویشیوں کو فوری بنیاد پر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ڈاکٹر سونو کنگھرانی کا کہنا تھا کہ ’’صحت کی موبائل ٹیموں کو مختلف حصوں میں بھیجا جانا چاہیٔے، تاکہ وہ ایسے لوگوں کی مدد کرسکیں، جو تعلقہ ہسپتال یا ڈسپنسری تک نہیں پہنچ سکتے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’اس کے علاوہ تھر کے لیے پینے کا صاف پانی مویشیوں کو محفوظ بنانے کے لیے بڑی حد تک مدد کرے گا اور اگر وہ بچ گئے تو لوگوں کے لیے طویل عرصے تک زندہ رہنا آسان ہوجائے گا۔

Post a Comment

0 Comments