Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

جب خاموشی بہتر سمجھی جائے.......


یہ برطانیہ کی وہ گلیاں ہیں، جہاں مغربی دنیا کے انتظام و انصرام اور قوانین کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔

یہاں لوگ قوانین کے ساتھ کھیلتے ہیں، گلیوں میں کچرا پھینک دیتے ہیں، ٹیڑھی میڑھی پارکنگ کرتے ہیں، اپنے شیر خوار بچوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں، اور گاڑیوں کے سامنے اچانک آجاتے ہیں۔

پاکستان اور پاکستانی ان اقلیت محلوں میں رہتے ہیں، یہاں سالن اور باتیں بالکل اسی طرح بنائی جاتی ہیں، جیسی پاکستان میں تب بنتی تھیں جب ان کے والد، دادا، یا پڑدادا ابھی برطانیہ منتقل نہیں ہوئے تھے۔

یہ خوش قسمت لوگ تھے، جن کو پاؤنڈز میں کمانے کا موقع ملا، بھلے ہی اس کی قیمت ان کے تصور سے کہیں زیادہ تھی۔ ثقافت سے دوری، اپنے دیس میں حاصل فضیلت کا چھن جانا، اور ان لوگوں کی خدمت کرنا، جن سے کبھی آزادی حاصل کی تھی۔

پاکستانیوں کو برطانیہ میں نسلی تعصب کا سامنا اکثر کرنا پڑتا ہے۔ دہائیوں پہلے برطانیہ ہجرت کرنے والے بچوں کی نسلیں اسی ماحول میں پروان چڑھتی ہیں۔ ان پر یہ جملہ صادق آتا ہے، کہ یہ نا پاکستان کے ہیں، نا برطانیہ کے، نا ماضی کے نا مستقبل کے۔

انتہا پسند ان بچوں کی برین واشنگ کرنے کے لیے ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں، وہ کلچر کے بارے میں ان کی پریشانیوں، اور حقیقی اسلام اور پاکستان کے بارے میں ان کی خواہشات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

مین اسٹریم برٹش کلچر میں ان گندمی رنگت والوں اور مسجدوں میں جانے والوں کی کوئی جگہ نہیں ہوتی، اسی لیے پہلے سے سائیڈ لائن پاکستانی کمیونٹی کے یہ بچے مزید سائیڈ لائن ہو جاتے ہیں۔

یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں، سب سے خطرناک ترین اخلاقی مجرم ان مشکوک علاقوں میں رہتے ہیں۔

پچھلے ہفتے ریلیز ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق روٹرہیم قصبے میں، جہاں برطانوی پاکستانیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے، 1997 سے 2013 کے دوران بچوں کے خلاف جنسی استحصال کے 1400 کیسز کے ملزمان رہتے ہیں۔

رپورٹ چونکا دینے والی تھی، صرف اپنے اعداد و شمار کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس لیے بھی، کہ استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کی امداد کے لیے کوئی سماجی کارکن، یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران سامنے نہیں آئے۔ رپورٹ کے ریلیز ہونے کے بعد کئی کونسل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران، جنہوں نے وقت پر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تھی، نے اپنے استعفے پیش کر دیے۔

نتیجتاً، پاکستانی اور مسلمان گروپوں نے ملزمان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نسلی تعصب کا الزام لگنے کے خطرے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔

یہ قابل تعریف اقدام ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ ان کی اپنی کمیونٹی کے 1400 بچوں کا ایک عشرے سے زیادہ کے عرصے میں استحصال کیا گیا، پر اس پر آواز نہیں اٹھائی گئی؟

سب سے پہلے تو اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ برطانوی پاکستانیوں کے پاس اپنے گھروں اور کمیونیٹیز میں جنسی استحصال پر بات کرنے کے لیے آزادی نہیں ہے۔

شرم و حیا کے ماری ہوئی کمیونٹی میں یہ مسئلہ بالکل دب کر رہ جاتا ہے، یا دبا دیا جاتا ہے۔

ایک شخص اگر کسی بچے کا جنسی استحصال کرتا ہے، تو پوری کمیونٹی کو چاہیے کہ اس عمل کی مذمت اور اس شخص پر ملامت کرے۔ لیکن اگر متاثرہ بچے کی مدد نا کی جائے، یا اس گھناؤنے جرم کی مذمت نا کی جائے، تو جرم ختم نہیں ہوتا، بس چھپ جاتا ہے۔

اس جرم کے اب تک جاری رہنے کی صرف یہی وجہ نہیں کہ ایک تارک وطن کلچر اس معاملے میں خاموشی کو بہتر سمجھتا ہے۔

ایک وجہ یہ بھی ہے، کہ پولیس کو خطرہ ہے، کہ اگر وہ ان Marginalized طبقوں پر ہاتھ ڈالے گی، تو اسے نسل پرست یا متعصب کے لیبل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے وہ اکثر اس طرح کے مجرموں کو پکڑنے سے کتراتی بھی ہے۔

یہ دوسری طرح کی خاموشی ہی اس بات کی بنیادی وجہ ہے، کہ متاثرین کی تعداد زیادہ ہے، جبکہ ملزمان کتنے عرصے تک قانون کی گرفت سے آزاد رہے۔


Stop Child Abuse

Post a Comment

0 Comments