Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

احساس زیاں جاتا رہا......


جشن آزادی کے بعد سے پیارے پاکستان میں جو ہوا برا ہوا۔ کسی بھی محب وطن صاحب فہم و شعور کے لیے دل چھیدنے اور دماغ ماؤف کر دینے کے لیے وہ دھماچوکڑی ہی کافی ہے جو ملک میں مچی۔ تین جماعتوں کی لڑائی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ ملک کو ہونے والا کھربوں کا نقصان تو رہا ایک طرف، ساری دنیا میں جو جگ ہنسائی ہوئی اس کا تو کچھ مداوا ہی نہیں۔ پریشانی کا یہ عالم کہ ’’ قیامت صغریٰ‘‘ کے ان دنوں میں قوم کا ہر باضمیر شخص ملک و قوم کی عافیت کے لیے نہ صرف ہاتھ اٹھائے دعا گو دیکھا، بلکہ انتہائی غمگین بھی، کیوں کہ اتنی طویل پرتشدد اعصابی جنگ اور وہ بھی دار الحکومت میں شاید پہلے کبھی نہ برپا ہوئی ہو۔ ہر فریق نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر فریق مخالف کی سات پردوں میں بھی چھپی خطاؤں کو آشکار کیا اور اپنی ظاہر و باہر خامیوں کو خوبیاں بنا کر پیش کیا، حالانکہ غلطیاں تو ہر دو نے کیں۔

معاملہ حکومت کی نااہلی و کوتاہی سے شروع ہو کر مظاہرین کی غلطی و خامی پر جا ٹکا۔ یوں تو صاحب اقتدار طبقے نے حکومت کو بطرز جمہوریت نہیں، بلکہ بطرز بادشاہت ہانکا۔ صاحب اقتدار کا غیر لچک دار رویہ، اقربا پروری، عوامی مسائل سے عدم توجہی، غیرمنتخب افراد کو کلیدی عہدوں پر فائز کرنے کی روش اور امور مملکت کو کاروباری طرز پر چلانے کی سوچ نے یقینا کئی مسائل کو جنم دیا، لیکن معاملے کو سیاسی آگ نے دھاندلی کے نقطے پر پکڑا۔ اگر پہلے ہی 4 حلقوں کا معاملہ صاف کر لیا جاتا تو شاید ملک ’’جنگی کیفیت‘‘ میں مبتلا نہ ہوتا اور رہی سہی کسر ماڈل ٹاؤن واقعے نے پوری کر دی، بھلا بے وقت 14 افراد کی جان لے کر رکاوٹیں ہٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی اور اگر اسی وقت ایف آئی آر درج کر کے شفاف تحقیقات کردی جاتیں تو آج یہ نوبت نہ آتی، لیکن حکومت ’’میں نہ مانوں‘‘ کی تعبیر بنی رہی ۔

پھر جب تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے مارچ کی ٹھانی تو حکومت بھی روکنے کو ڈٹ گئی اور مارچوں نے حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کے ڈھول کا پول کھول دیا۔ پنجاب بھر کو کنٹینروں سے بند کرنے سے لے کر جا بجا خندقیں کھودنے تک حکومت نے اپنی پریشانی کا بین ثبوت قوم کے سپرد کیا اور پی ٹی آئی کو ناتجربہ کار کا طعنہ دینے والی مسلم لیگ ن کے تین دہائیوں پر پھیلے حکومتی تجربے کا نچوڑ دیکھ کر قوم کے پاس دنگ ہوئے بغیر کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ حالانکہ اپنے حقوق کے حصول اور حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر احتجاج کرنا ہر فرد کا جمہوری حق ہے، جسے روکنا کسی طور بھی درست نہیں، لیکن جمہوری حکومت کے رویہ سے نوبت یہاں تک پہنچی۔

دوسری جانب تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے جو طریقہ اختیارکیا اسے ملک و قوم کے مفاد میں نہیں گردانا جاسکتا۔ خیر سے کسی کو تو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ پاکستانی عوام کو برانگیختہ کر کے ’’نامعلوم و مجہول‘‘ انقلاب کا راگ آلاپے۔ جب کہ ایک جمہوری سیاسی لیڈر عمران خان کے مطالبات نہ صرف حق پر مبنی، بلکہ ایک عرصے سے پوری قوم کی آواز بھی۔ نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل، گزشتہ انتخابات کا احتساب، بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے آیندہ شفاف الیکشن کی ضمانت اور وزیر اعظم کے استعفے کے سوا باقی بھی اسی طرح جاندار۔ اتنے بھاری بھرکم مطالبات کے باوجود جمہوری لیڈر خان صاحب قادری صاحب کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنی سیاست داؤ پر لگا بیٹھے۔

قادری صاحب کے پاس تو کھونے کے لیے کچھ نہیں، لیکن خان صاحب کے پاس تو کھونے اور بچانے کے لیے بہت کچھ تھا، وہ مہاتیر محمد اور طیب اردگان بن سکتے تھے، لیکن انھوں نے بننا پسند نہ کیا اور حیرت انگیز احتجاج اختیار کیا، جو انھیں کسی طور بھی زیب نہیں دیتا۔ پہلے ریڈ زون میں زبردستی داخل ہوئے، پھر وزیر اعظم ہاؤس پر چڑھ دوڑے، پولیس نے اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے روکنا چاہا تو ’’انقلابیوں‘‘ نے ڈنڈوں، پتھروں اور لوہے کے راڈوں سے پولیس کے ساتھ مقابلہ کیا۔ اس کے بعد قومی نشریاتی ادارے پر دھاوا بول کر پاکستان کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع کیا، جو پورے ملک کا سرجھکانے کو کافی ہے۔
اگرچہ بعد میں دونوں رہنماؤں نے ملوث ہونے کی تردید کی، جس کو تسلیم کرنا مشکل، لیکن اشتعال تو ان کی تقریروں سے ہی پھیلا۔ اس سے پہلے خان صاحب نے سول نافرمانی کا اعلان کیا، اگرچہ محب وطن قوم کے تعاون سے بری طرح ناکامی ہوئی، لیکن یہ اعلان کرنا ہی (ن) لیگ نہیں ،بلکہ اقتصادی و معاشی بحران کے شکار ملک کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہے، حالانکہ سول نافرمانی اپنے ہی ملک نہیں، بلکہ دشمنوں اور غیروں کے خلاف کی جاتی ہے، ہندوستان میں برطانیہ کے خلاف آزادی حاصل کرنے کے لیے کی گئی تھی۔

اس اعلان کا بہر حال خان صاحب کی سیاست کو نقصان ہوا۔ ’’باغی‘‘ کے انکشافات اور دھرنوں میں دعوؤں کے مطابق افراد لانے میں ناکامی کی وجہ سے ان کی سیاست پر پڑنے والے منفی اثرات بھی واضح ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب کے پی کے کے دس لاکھ سے زاید آئی ڈی پیز بے یارو مددگار ملک میں رل رہے ہوں اور کے پی کے حکومت میں پی ٹی آئی کی پوری قیادت اپنی ذمے داریاں چھوڑ کر اسلام آباد میں مورچہ زن ہو تو کے پی کے میں پی ٹی آئی کی سیاسی کشتی میں سوراخ کا ہونا بھی فطری امر ہے۔

یہ بات بالکل عیاں ہے کہ زور زبردستی حکومتوں کو ختم کرنے کی کوشش سے صرف حکومت ہی ختم نہیں ہوتی، بلکہ ملک و قوم بھی چین و سکون سے محروم ہوجاتے ہیں۔ مصر میں حسنی مبارک، لیبیا میں معمر قذافی، تیونس میں زین العابدین اور شام میں بشار الاسد کی حکومتوں کو زبردستی ختم کرنے کا انجام بدامنی اور بے سکونی کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔ ان کے بعد کیا ہم بھی ملک میں وہی حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں، جن کو سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں؟ لیکن جب سیاستدانوں کو ملک سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہوں تو یہی کہا جاسکتا ہے ؎

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اگر بحیثیت قوم ہم اپنے رویوں میں سنجیدگی لانے میں ناکام رہے تو خدانخواستہ ملک دشمن قوتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکتی ہیں اور پھر’’اب پچھتائے کیا ھوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ والا معاملہ نہ ہو۔ تین کی سیاسی جنگ میں بہرحال ہار صرف اس قوم کا مقدر اور ہمیشہ سے ہوتا بھی یہی آیا۔ اگر ’’بادشاہ سلامت‘‘میاں صاحب کی ’’بادشاہت‘‘ سلامت رہے تو قوم کی بدقسمتی اوراگر ’’انقلابیوں‘‘ کی ’’آمرانہ‘‘ سوچ فاتح ہو تو قوم کی اس سے بھی زیادہ بدقسمتی۔ اس قوم کا کوئی بھی پرسان حال نہیں۔ لاٹھیاں کھانے، دھرنے دینے، مارچ کرنے اور جان کی بازی لگانے کے لیے ہر جگہ پیش پیش یہ عوام، لیکن بعد میں ان کو بھلا دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں تو قوم کو جاگ جانا چاہیے اور سیاستدان تو نہیں، قوم ہی سنجیدگی کا دامن تھامے۔

عابد محمود عزام
  

Post a Comment

0 Comments