Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیا عراق تقسیم ہوجائے گا؟.....

اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق کی قومی شناخت اب تک برقرار ہے اور معاملات کو درست کرنا زیادہ مشکل نہیں مگر وزیراعظم نوری المالکی کی پالیسیوں کے ہاتھوں ملک تقسیم کی حد تک جاسکتا ہے۔

ہم پہلے بھی سن چکے ہیں کہ عراق تباہی اور تقسیم کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اور یہ کہ فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم تک نوبت جا پہنچی ہے اور القاعدہ کا عمل دخل بڑھ گیا ہے۔ اب ایسے ہی دعوے نئے سِرے سے سامنے لائے جارہے ہیں۔

وزیر اعظم نوری المالکی کے دوسرے دورِ حکومت میں دو ایسے عوامل ہیں جو غیر معمولی تشویش پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ عراق میں سکیورٹی کی صورت حال بہت تشویشناک ہے۔ دہشت گردی کو روکنا آسان نہیں رہا۔ کوئی بھی گروپ کچھ بھی کرسکتا ہے اور کر رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ سیاسی حلقے نوری المالکی پر زیادہ بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ پہلے دورِ حکومت میں نوری المالکی نے بیشتر معاملات میں اپنی مرضی چلائی تھی۔ اب لوگ اُن پر زیادہ بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ یہ دونوں معاملات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ اگر حکومت نے بر وقت معاملات درست نہ کیے تو ملک میں شدید کشیدگی پھیلے گی اور بات ملک کی تقسیم تک بھی جاسکتی ہے۔

حال ہی میں ایبرل میں ’’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے زیراہتمام ایک مباحثے میں یہ بات سامنے آئی کہ نوری المالکی پر اعتماد کی سطح خطرناک حد تک گرچکی ہے۔ سیاسی اور معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل نہیں ہوسکا ہے، جس کے نتیجے میں ان پر اعتبار کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ بہت سی وزارتیں اہم اشوز پر احکامات نہیں مان رہیں۔ خود نوری المالکی چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات مرکز کے پاس رہیں۔ ایسی صورت میں علاقائی یا صوبائی حکومتیں پریشانی کا شکار رہیں گی۔ ان کے لیے فنڈنگ کا اہتمام بھی نہیں کیا جاتا۔ بہت سے علاقوں کو شکایت ہے کہ ان کی سکیورٹی اور ترقی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔

سُنی اور کُرد، اب بھی شیعہ کمیونٹی سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر وہ نوری المالکی پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ وہ نہیں مان سکتے کہ نوری المالکی انہیں مطلوبہ نتائج دے سکتے ہیں۔ سنی اکثریت والے مغربی صوبوں کی شکایات زیادہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت ان کی بات سنے اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ مغربی صوبوں میں مرکزی حکومت کا عمل دخل گھٹتا جارہا ہے۔ لوگ بغداد کی بات سننے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اُن کا شکوہ ہے کہ مرکزی حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی۔ دوسری طرف شام سے دراندازی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ القاعدہ عناصر نے عراق کے مغربی صوبوں میں بہت سے مقامات اپنے کنٹرول میں کرلیے ہیں۔

کردوں کا معاملہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کردوں نے اپنے علاقوں کو بہت حد تک خودمختار بنالیا ہے۔ انہوں نے کئی غیر ملکی کمپنیوں سے اپنے طور پر معاہدے کیے ہیں۔ تیل کی برآمد کے معاملے میں بھی کرد مرکزی حکومت کی ہر بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس روش نے کردوں اور بغداد کے تعلقات کشیدہ کردیے ہیں۔ مرکزی حکومت نے کرد علاقوں کے بہت سے منصوبوں میں فنڈنگ روک دی ہے۔ ان علاقوں کے ترقیاتی بجٹ میں اچھی خاصی کٹوتی کردی گئی ہے۔

کردستان ریجنل گورنمنٹ کے سربراہ مسعود برزانی نے انتباہ کیا ہے کہ اگر کردوں کے مفادات کو یونہی نظر انداز کیا جاتا رہا، تو وہ آزادی کا اعلان کردیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرد اگر ملک سے الگ ہوئے تو انہیں شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ وہ سیاسی اور معاشی، دونوں اعتبار سے خسارے میں رہیں گے۔ یہی سبب ہے کہ مسعود برزانی کے انتباہ کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

ایسا نہیں ہے کہ نوری المالکی کو تمام شیعہ حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ مقتدٰی الصدر نے خبردار کیا ہے کہ نوری المالکی کا دوبارہ انتخاب معاملات کو مزید خراب کرے گا۔ آیت اللہ سیستانی عام طور پر خاموش رہنا پسند کرتے ہیں مگر انہوں نے بھی اشارہ دیا ہے کہ نوری المالکی کو دھاندلی کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں لانا ناقابل قبول ہوگا۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ نوری المالکی پر اعتماد کی سطح خطرناک حد تک گرگئی ہے۔ ہر طرف سے یہ اشارہ دیا جارہا ہے کہ نوری المالکی کے اقتدار کا تسلسل عراق کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔

عراق میں کرپشن کی جو سطح ہے اور نوری المالکی نے جس طور تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ دوبارہ منتخب ہوں گے۔ کرپشن پر یقین رکھنے والوں کو نوری المالکی کی شکل میں بہترین سرپرست میسر ہوگا۔ قومی خزانے پر نوری المالکی اور ان کے رفقا کا مکمل کنٹرول ہے۔ سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے بھی اُن کے ساتھ کام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ ملک جس طرح کی صورت حال سے دوچار ہے اور سکیورٹی کا جو بھی معاملہ ہے، اُس نے ایسے حالات کو جنم دیا ہے جن کے تحت نوری المالکی کو اقتدار سے محروم کرنے والے ووٹنگ بلاک کی تشکیل انتہائی ناممکن ہوچکی ہے۔ معاشرے میں تقسیم در تقسیم کا عمل تیزی سے جاری ہے، جس کے نتیجے میں نوری المالکی پر اعتماد نہ کرنے والوں کے درمیان بھی تقسیم بڑھتی جارہی ہے۔ ان کے آپس کے اختلافات نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔

شام کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال بھی عراق پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ فرقہ وارانہ تقسیم بڑھتی جارہی ہے۔ شام میں سُنی اکثریت کے قتل عام نے عراق میں بھی دلوں میں فاصلے بڑھا دیے ہیں۔ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے منفی اثرات عراق کے کئی صوبوں میں بھی رونما ہو رہے ہیں۔ ان میں انبار، نینوا اور صلاح الدین نمایاں ہیں۔ یہ تمام عوامل نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ نوری المالکی کے لیے لازم ہے کہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو مستحکم کرنے پر بھی توجہ دیں۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کم کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔ مگر اب تک اس حوالے سے اقدامات دکھائی نہیں دیے ہیں۔ صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال خطوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ سنی علاقوں میں تیل کی تنصیبات خطرے میں ہیں۔ ایسے میں عراق کی مرکزی حکومت کو بہت کچھ بہت تیزی سے کرنا ہوگا اور وہ بھی پوری جامعیت اور قطعیت کے ساتھ۔

خطے کے بہت سے ممالک کو عراق کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ بالخصوص ایران کو یہ طے کرنا ہے کہ عراق نوری المالکی کی قیادت میں ایک خطرناک ملک کی حیثیت سے اپنا سفر جاری رکھے گا یا اس میں ایک ایسی حکومت کی راہ ہموار کی جائے جس میں معاشرے کے تمام طبقات کی حقیقی اور قابل قبول نمائندگی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران نے ۲۰۱۰ء میں نوری المالکی کو دوسری مرتبہ اقتدار دلانے کے حوالے سے مداخلت کی تھی مگر اب مقتدٰی الصدر اور نجف کی طرف سے واضح اشارے ملے ہیں کہ ایرانی قیادت نوری المالکی سے مطمئن نہیں اور تیسری مدت کے لیے انہیں اقتدار میں دیکھنا پسند نہیں کرے گی۔

۲۰۰۳ء سے اب تک ایران اپنے پڑوس میں جاری ریس کے ہر گھوڑے کی حمایت کے معاملے میں غیر معمولی محتاط رہا ہے۔ اگر ایرانی قیادت محسوس کرے گی کہ نوری المالکی کی وزارتِ عظمیٰ اُس کے اپنے مفادات اور خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے تو یقینی طور پر وہ اُن سے گلو خلاصی چاہے گی۔

شام کے حالات نے عراقی معاشرے میں تقسیم کا عمل تیز اور وسیع کردیا ہے۔ بلقان کی طرز پر شام اور عراق کے بھی حصے بخرے ہونے تک معاملہ پہنچ سکتا ہے۔ شام کے مقابلے میں عراق کا کیس البتہ بہت مختلف ہے۔ شام تو واضح طور پر ایک ایسے مقام تک پہنچا ہوا لگتا ہے جہاں سے واپسی شاید اُس کے بس میں بھی نہیں اور ممکن بھی نہیں۔ عراق اب تک تقسیم کے حتمی مرحلے تک نہیں پہنچا۔ بہت کچھ درست کیا جاسکتا ہے مگر اِس کے لیے سیاسی عزم درکار ہے۔

Post a Comment

0 Comments