Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بھیڑیں، بھیڑیے اور گِدھ .........طلعت حسین


طالبان اپنی دھن کے پکے ہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں جو کہتے ہیں۔ انھوں نے چوہدری اسلم کو نشانے پر رکھا ہوا تھا، موقعہ ملتے ہی اُسکو قتل کر دیا۔ اُن کی دوسری کاروائیاں بھی جاری ہیں۔ ہنگو میں اگر نویں جماعت کے طالب علم اعتزاز نے غیر معمولی بہادری اور جانثاری کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو آج اس ملک کی سر زمین پر چوہدری اسلم اُس کے ساتھی پولیس والوں کے علاوہ چند اساتذہ اور بچوں کی قبریں بھی بنی ہوتیں۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ ہماری ریاست، حکومت اور سیاسی قیادت کیا کرنا چاہتی ہے۔ کل پرسوں کسی صاحب نے میرے تنقیدی کالموں کے جواب میں جل کر یہ کہہ دیا کہ میں اس ملک میں بات چیت کے ذریعے امن کا حامی نہیں ہوں، آپریشن کے نام پر مزید خون خرابہ چاہتا ہوں۔ اگرچہ جاہلوں سے الجھنے کا شیوہ نہیں ہے مگر پھر بھی ریکارڈ کی درستگی کے لیے میں یہ بتاتا چلوں کہ میں بات چیت کے حامیوں میں سے ہوں، اس عمل کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے بہترین ثمرات کا متمنی اور منتظر خاص ہوں۔ میں یہ بھی بتا دوں کہ میں آپریشن کے حق میں ہوں۔

ریاست کی طرف سے قانون شکن عناصر کی بیخ کنی ایک آئینی ذمے داری ہے۔ آئین میں ہی فوج کی طلبی اور جدید اسلحے کے استعمال کے ذریعے امن قائم کرنے کی گنجائش مہیا کی گئی ہے۔ ریاستیں ایدھی فاونڈیشن کی طرح نہیں چلائی جاتیں۔ ان کے ادارے اللہ واسطے کام نہیں کرتے۔ ان کو تنخوائیں دعا و سلام کے لیے نہیں دی جاتیں۔ میں جس چیز کے خلاف ہوں وہ ابہام، الجھن، الجھاؤ اور افراتفری ہے جو بات چیت کے نام پر اس ملک میں پھیلائی گئی ہے۔ نہ بات چیت کرنے والے بات چیت کر ر ہے ہیں۔ اور نہ اُن کو تنقید کا نشانہ بنانے والے کوئی قدم اُٹھا رہے ہیں۔ نہ ہی ریاست طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ اس گومگوں کی کیفیت میں اعتزاز جیسے بچے اپنے آپ کو قربان کر کے کسی نہ کسی طریقے سے امن قائم کرنے کی اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باقی لوگ جو اس قسم کی بہادری کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں چپ چاپ مار ے جا رہے ہیں۔ میں اس کیفیت پر اعتراض کرتا ہوں۔ یہ دوغلا پن دل کو چھری کی طرح کاٹتا ہے۔ یہ لفظوں کی سیاست، ٹوئٹر کے ذریعے شیر بننے کی عادت اور ٹی وی انٹرویو کے توسط سر پر جہاد کا تاج دکھانے کا طریقہ روح کو اضطراب میں مبتلا کر تا ہے۔

چوہدری اسلم کے قتل پر ردعمل میر ے اعتراض کو مزید واضح کرتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بیان دے کر جان چھڑالی۔ تحریک طالبان مہمند ایجنسی نے ذمے داری قبول کر کے وفاقی حکومت کو ایک مرتبہ پھر یاد دلوایا کہ یہ معاملہ صوبائی نہیں وفاقی ہے۔ فاٹا مرکز کے تابع ہے وہاں سے ہونے والی یلغار مرکزی حکومت کی ذمے داری بنتی ہے۔ مگر چونکہ نواز شریف حکومت نے اس معاملہ پر خاموشی اور سکتے کو پالیسی میں تبدیل کر دیا ہے لہذا تحریک طالبان کی یاد دہانی کے باوجود وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ نہ ہی دانش مند وزیر داخلہ نے ہمیں یہ بتانے کی مہربانی کی کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا عمل کہاں تک پہنچا، موجود بھی ہے کہ نہیں۔ سندھ حکومت نے چونکہ دہشت گردی کو صوبے کی قسمت کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیا ہے تو اُن کی طرف سے کیا رد عمل آنا تھا۔

قائم علی شاہ پانچ سال پہلے والی منجمند حالت میں ویسے ہی موجود ہیں جیسے پہلے تھے یعنی ایسے کہ موجودگی کا احساس بھی نہ ہو۔ جن شہروں سے بوریاں بھر بھر کر لاشیں نکلتی ہوں اور وہ اپنی سیاسی پوجا پاٹ کو ترک نہ کریں، اُنہوں نے حکومتیں کیا چلانی ہیں۔ کیا پھرتیاں دکھانی ہیں۔ نکمے مار کھانے کے بعد بھی نکمے رہتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہو گیا کہ ٹوئٹر ٹائیگر بلاول نے چوہدری اسلم کو مرنے کے فورا بعد اپنا لیا۔ اُن کو شاید کسی نے یہ بتا دیا ہے کہ وہ جتنی لاشیں اکھٹی کریں گے اُن کی سیاست اُتنی ہی معتبر ہو جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف نے ایک تگڑی پریس ریلیز جاری کی جس میں واضح انداز میں مندرجہ ذیل نکات بیان کیے گئے۔

سندھ حکومت کی شدید مذمت، سیاسی کاہلی اور باہمی لڑائی جھگڑے پھیلتی ہوئی دہشت گردی کی بنیاد، دہشت گردوں اور قانون شکنوں کے خلا ف شدید کارروائی کا مطالبہ، شہید ہو جانے والے پولیس والوں کو بہترین خراج عقیدت، اس واقعہ کی وجہ سے کراچی میں ہونے والے آپریشن کی ناکامی کی نشاندہی۔ اس پریس ریلیز میں جو چیزیں نہیں کہی گئیں وہ بھی اُتنی ہی اہم ہیں جتنی بیان شدہ۔ مثلا اس میں تحریک طالبان مہمند ایجنسی کی طرف سے واقعہ کی ذمے داری قبول کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا لہذا حملہ آوروں پر ایک لفظ بھی موجود نہیں۔ یہ عمران خان کے بیان کا خاصہ ہے وہ ایسے واقعات میں ہمیشہ نشانہ بننے والوں یا اُن کو بچانے والوں کے حوالے سے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اس پریس ریلیز میں اس حملے کا تعلق امریکا کے ڈرون حملوں سے بھی نہیں جوڑا گیا۔ اور نہ ہی مقامی طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے امن قائم کرنے کی ضرورت کا ذکر کیا۔ عمران خان کا یہ بیان اُن تمام بیانات سے مختلف ہے جو وہ خیبرپختو نخوا پر ہونے والے حملوں پر دیتے ر ہے ہیں۔

مثلا اپنے صوبائی وزیر کے قتل کے موقعے پر انھوں نے کل جماعتی اعلامیے پر عمل درآمد نہ ہونے کو اس واقعہ کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ پولیو ورکز کے قتل پر طالبان سے اپیل کی تھی کہ مارنے سے اجتناب کریں اور مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں۔ قصہ خوانی اور چرچ حملوں پر یہ موقف اختیار کیا کہ کون جانتا ہے کہ طالبان ہی ان کے پیچھے ہیں یا کوئی در پردہ قوتیں جو مذاکرات کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ خیبر پختونخوا میں ہونے والے کسی واقعہ پر انھوں نے پرویز خٹک کی حکومت پر نکتہ چینی نہیں کی اور نہ ہی صوبے میں کسی تیز و تند آپریشن کا مطالبہ کیا۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں حملے ایک ہی جیسے ہیں ان کارروائیوں کی ذمے داری قبول کرنے والا ایک ہی گروپ ہے۔ مگر عمران خان کی پالیسی، تجزیہ اور موقف متضاد حد تک مختلف ہے۔ ظاہر ہے وہ اپنی حکومت کی کوتاہیاں کیوں مانیں گے۔ اپنی دہی کو کھٹا کون کہتا ہے۔ غلطی ہمیشہ دوسروں کی ہوتی ہے۔

یہ وہ تضادات، ایہام، ابہام اور کاغذی کارروائیوں پر اکتفا ہے جس نے اس ملک کو تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ اوپر سے سیاسی تعصب اس حد تک پھیل چکا ہے کہ کوئی قومی مفاد اور منطق کی بات سمجھنے پر راضی نہیں ہوتا۔ ملک جائے بھاڑ میں، لیڈروں کی پگ سلامت رہے۔ سیاسی درباروں میں جھک جھک کر سلام کرنے کی عادت ایسی اپنا لی ہے کہ کوئی سر اٹھا کر حقیقت کا سامنا کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ یہ ٹیڑھی کمروں والے زمین پر ماتھے رکھے ہوئے مٹی کے بتوں کے سامنے دو زانوں ہیں مگر اس ملک کو آسمان تک پہنچانے کو خواب دیکھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے بونے کبڑوں کے سامنے ہی قد آور محسوس ہو گے۔ یہ وہ حالت ہے جس نے اس سر زمین کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکا ہو ا ہے۔ ریاست، حکومت اور سیاسی جماعتیں نہ مذاکرات کے لیے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور نہ قانونی چارہ جوئی کے لیے کسی عزم کا مسلسل اظہار کرتی ہے۔ اس وقت یہ سب نہ تو بھیڑیں نہ بھیڑیے، نہ امن کی فاختہ ہے نہ اعتماد سے اڑنے والا عقاب۔ گِدھ ہے لوگوں کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں تا کہ بیانات کی چونچوں سے ماس اکھٹا کر کے سیاست کا پیٹ بھر سکیں۔ چوہدری اسلم اور اعتزاز نے دو دن کا دسترخوان مہیا کر دیا ہے اگلی مرتبہ کوئی اور جان سے جائے گا اور یہ سب شان سے کھائیں گے۔

طلعت حسین

بشکریہ روزنامہ 'ایکسپریس

Chaudhry Aslam Killing by Tilat Hussain'

Post a Comment

0 Comments