Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

دعوت و تبلیغ اور اقامت دین ڈاکٹر اسرار۔۔فی ذِمّۃِ اللہ




ڈاکٹر اسرار۔۔فی ذِمّۃِ اللہ
محمد زکریا خان 


آپ کو اگر ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ جانے کا اتفاق ہو تو ایک چیز جو اس نابغۂ روزگار ہستی کے مکان کے درو دیوار سے چھلکتی ہو ئی آپ محسوس کریں گے وہ ہے سادگی۔ صاحب خانہ کے دل کی طرح ۔ جہاں ’سیٹ‘ نام کا کوئی تکلف نہیں ہو گا۔ فرانس کا واٹر سیٹ یہ ماربل کا ڈنر سیٹ یہ ٹی سیٹ یہ فلاں سیٹ ۔ ڈاکٹر صاحب کی ہستی ایک ہی انمول سیٹ سے عبارت تھی؛ بندگی رب؛دعوت و تبلیغ اور اقامت دین۔
عمر بھر جائیداد نہ بنائی۔کرشن نگر(انڈیا) میں ایک رہائشی مکان تھا جسے بیچ کر لاہور ماڈل ٹاؤن میں ایک مکان کل جائیداد تھی؛وہ بھی زندگی زندگی اولاد کے نام کر گئے؛نامہ اعمال میں ایک ہی چیز ساتھ لے گئے: ’اسلام دین کامل‘!بینک والے ہمیشہ کڑھتے ہی رہے کہ چند روپوں کے لیے وہ اس اکاؤنٹ کو آخر کیوں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ روپیہ نہ پیسہ جائیداد نہ بینک بیلنس شئیر نہ کاروباری شراکت؛ کہنے کو ڈاکٹر تھے۔ عام کالج کے نہیں ’کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج‘ کے؛ پریکٹس بھی کی مگر دل کو قرار نہ آیا۔ فرماتے تھے جس خدا کے دین کی عبادت اور دعوت کے لیے انسان پیدا ہوا ہے یہ اس میں مانع ہے۔پریکٹس سے تھک ہار کر میں خدا کے کلام سے کیا اخذ کر پاؤں گا ۔ کتاب اللہ کو ہاتھ لگانا ہے تو بھر پور توانائی کے ساتھ لگاؤ۔ قرآن کے ساتھ یہی عقیدت تنظیم کے وابستگان میں آپ کو نظر آئے گی۔ ایک نہیں دسیوں نے خدا کے دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا۔
رائج سیاست میں کبھی حصہ نہ لیا۔سیاست کو جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا کھیل سمجھتے تھے اور اسلامی انقلاب میں بڑی رکاوٹ اس لیے ہمیشہ سیاست سے کنارہ کش رہے۔ سوائے دو ماہ کے جوجنرل ضیاءالحق مرحوم کی مجلس شوریٰ میں بطور رکن گزارے۔ اگر چہ انہیں مرکزی وزارت کی پیش کش کی گئی تھی۔ ضیاءالحق کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا حسن ظن تھا جو جلد ہی غلط ثابت ہوا کہ وہ نیک نیت ہیں اور دین اسلام کے لیے کام کرنے میں سنجیدہ ہیں۔میٹرک کے طالب علم کی ہستی ہی کیا ہوتی ہے۔کھلنڈرا پن ؛لا پرواہی؛ہنسی مذاق؛ مگر یہاں بلا کی سنجیدگی؛ڈسپلن اور اسلامی بنیادی علوم کا گھر میں والد صاحب کی زیر نگرانی اہتمام۔میٹرک میں ہی پاکستان کا مطلب کیا کے ایسے کارکن بنے کہ عمر بھر پھراسی کے لیے ورک کرتے رہے۔مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی رکنیت اختیار کی تو اسی لیے؛مگر یہاں تو صرف وڈیرہ شاہی تھی۔اقبال کے بعد مولانا مودودی کی آواز نے بہت جلد اس ہونہار طالب علم کو اپنی طرف مائل کر لیا۔فیڈریشن چھوڑاسلامی جمعیت کی رکنیت اختیار کر لی۔تقسیم ہند کے بعد اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے محاورتاً نہیں حقیقتاً آگ اور خون کا دریا پار کر کے اپنے پیارے پاکستان پہنچے۔بیس دن مسلسل پیدل؛خوف و ہراس اور 170 میل کی مسافت۔
خواب تو یہاں چکنا چور ہوئے لیکن نوجوانوں کو ایک ان تھک قائد ضرور میسر آ گیا تھا۔ساری قیادت تو ہند میں تھی پاکستان کا مطلب کیا فریب ہی سہی بڑی قیادت اس زمین کی طرف ہجرت کر کے آ تو گئی۔ یہاں جو نا امیدی دیکھی گئی اس کا اثر آپ کی زندگی میں بہت نمایاں تھا خصوصاً آخری ایام میں۔
پاکستان کا مسئلہ کیا ہے۔کرپشن ؛ بد عنوانی؛ اقربا پروری؛ نوکر شاہی ؛ اشرافیہ کی اجارہ داری؛مارشل لاء.... مگر ڈاکٹر صاحب کا ایک ہی جواب تھا ؛ قرآن سے دوری! یہاں تک فرماتے تھے کہ اپنی بد اعمالیوں اور خدا سے کیے گئے عہد سے بے اعتنائی برتنے کی وجہ سے مغضوب علیہم کا مصداق یہودیوں کی بجائے مسلمان ہیں۔انہوں نے دین اسلام کے احیاءکے لیے اپنی جوانی تج دی تھی۔ جلسے جلوسوں میں لاٹھیاں کھائیں۔ ہجرت کی ۔ پریکٹس چھوڑی؛شب و روز کا مشغلہ قرآن ؛ قرآن فہمی رہا ؛سینکڑوں کو قرآن کے ساتھ شعوری طور پر جوڑا۔صاحب علم و فکر اور انجمن۔دوسروں کو قائل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت۔جب خطاب کریں تو عامی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سب یکساں سمجھ لیں ۔ پنڈال میں ایسی خاموشی اور سنجیدگی جیسے سروں پر پرند ہوں۔رعب دار اور گرجدار آواز ؛کوئی ابہام نہیں کوئی پیچیدگی نہیں؛الفاظ کا بہترین چناؤ ؛اشعار کا بر محل انتخاب؛بے ساختگی؛تصنع اور بناوٹ سے پاک؛الفاظ کی روانی؛زیر و بم مناسب اورموزوں ۔آخری دموں تک گلا صاف رہا اگر چہ کمر کا عارضہ کمر توڑ ثابت ہوا۔
ڈاکٹر اسرار’خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے‘ ایک عہد ساز شخصیت تھے۔خواہ اسلامی جمعیت طلبہ کی نظامت کی ذمہ داری ہو یا تنظیم اسلامی کی امارت یا آخری ایام میں تنظیم کی سرپرستی کا زمانہ ہو ان کی ایک ہی لگن اور جستجو تھی کہ ہر مسلمان رب کی عبادت کرنے والا ہو جائے۔دین اسلام کا داعی اور مبلغ بنے اور اقامت دین کا فریضہ انجام دے۔پاکستان کی تاریخ میں معدودے چند ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے جوانی تا ادھیڑ عمراور پھر پیرانہ سالی میں اپنے نصب العین سے یک سرِ مو انحراف نہ کیا ہو۔کون ہے جس پر بدلتے حالات اثر انداز نہ ہوئے ہوں۔ پھر بیسوی صدی اور اس سے کہیں بڑھ کر اکیسوی صدی جو ہے ہی بنیادی تصورات اور عقائد میں تبدیلیوں کا زمانہ۔ایسے بے وفا دور میں ایسے وفادار!
ڈاکٹر اسرار کی مولانا مودودی سے جس قدر شدید محبت اور عقیدت تھی وہ سب کو معلوم ہے۔اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت سے لے کر ماچھی گوٹھ(1957ء)میں مولانا سے اختلاف تک ان کی ساری جوانی اسلامی جمعیت اور جماعت اسلامی کے لیے وقف تھی۔جن ایام میں طالب علم سے کہا جاتا ہے کہ اپنا ’کیرئیر‘ بنا لو؛ اُن دنوں ڈاکٹر اسرار آخرت میں کیرئیر بنانے کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے۔جمعیت کے لیے دن رات کام کرتے تھے۔آج ہم جب میڈیکل کے طالب علم کو دیکھتے ہیں کہ ایم بی بی ایس کرنے کے لیے کتنا’پڑھاکو‘ہونا پڑتا ہے تو ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ ایک طالب علم جو اسلامی جمعیت طلبہ کے لیے ہی جیتا ہے اور صرف تنظیم کے لیے سوچتا ہے اپنی ڈگری بھی مکمل کر لیتا ہے۔مولانا مودودی نے ہندوستان سے کیسے کیسے ہیرے نکال لیے تھے؛ ڈاکٹر اسرار اس کی ایک مثال ہیں۔ڈاکٹر اسرار نے ملازمت کی نہ کلینک کیا۔ان کے من میں ایک ہی لگن سمائی رہی کہ دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کی جد و جہد برابر جاری رہے۔اقبال اگر اس نوجوان مسلم کو دیکھتے تو ضرور اسے اپنی شاعری کی تعبیر سمجھتے۔
مولانا مودودی سے ان کی شدید محبت اور جماعت کے لیے ان کی لازوال خدمات اس میں مانع نہ ہوئیں کہ جسے وہ حق سمجھیں اس کے لیے پھر انسانی رشتوں کو قربان نہ کر سکیں۔جماعت اسلامی کا پاکستان کے انتخابات میں شمولیت کا فیصلہ صرف ڈاکٹر اسرار کے لیے ہی نا قابل فہم نہ تھا بلکہ جماعت کی اور بھی اہم شخصیات اس فیصلے کے بعدجماعت سے الگ ہو گئی تھیں لیکن جتنا صدمہ ڈاکٹر اسرار کو تھا شاید کسی کو ہوا ہو۔
جماعت سے علیحدگی کے بعد ڈاکٹر صاحب نے1965ءسے لے کر 1972ءتک تن تنہا کام کیا۔حج کی سعادت حاصل کرتے ہوئے (1971ء)اپنے آپ سے عہد کیا کہ دین کے کام کے لیے ہمہ وقت فراغت حاصل کر لیں گے۔فرماتے ہیں کہ اس دن سے میرے وقت کا ایک ایک لمحہ اور میری قوت و صلاحیت کا ایک ایک شمہ دین کی خدمت کے لیے صرف ہوا ہے۔1972ءمیں انجمن خدام القرآن کی بنیاد رکھی۔1975ءمیں تنظیم اسلامی قائم ہوئی اُس اعلیٰ مقصد کے لیے جسے وہ سمجھتے تھے کہ انتخابی طریقے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔بلا شبہ جماعت اسلامی کے انتخابی سیاست میں شمولیت کے فیصلے کے بعد اس بات کا امکان تھا کہ دعوتی اور تحریکی عمل کے لیے وہ توجہ اور وقت میسر نہیں آ پائے گا جو صدیوں سے منتشر الخیال قوم کو علم و عمل پر مجتمع کرنے کے لیے چاہیے۔اس زاویے سے دیکھا جائے تو تنظیم اسلامی جماعت ہی کے مشن کو لے کر آگے بڑھی۔پاکستان اور بنگلہ دیش میں اسلامی تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی انتخابی طریقے کو واحد حل کے طور پر نہیں لیتی ہے ۔البتہ یہ درست ہے کہ انتخابات جماعتوں کو بہت مصروف کر دیتے ہیں اور دعوت و تحریک پر اس کا اثر پڑتا ہے۔
برصغیر میں مدتوں قرآن مجید طاق نسیان کی زینت رہا؛ خوش نما غلافوں میں لپٹا لپٹایا؛ یا پھر گلے کا تعویذ۔خانقاہی ملاؤں نے عام آدمی کے لیے قرآن فہمی کا دروازہ بند کر رکھا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے جب قرآن پر ملاؤں کی اجارہ داری ختم کرنے کے کٹھن کام کا آغاز کیا تو ان کی شدید مخالفت ہوئی مگر وہ یکسوئی سے اپنے مشن پر کار بند رہے۔آج تنظیم کے نو جوان بڑی بے ساختگی سے قرآن مجید پڑھنے پڑھانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ایک تحریک ہے جو پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ قرآن سے فہم لینے سے اب ہمارا نوجوان نہیں گھبراتا۔
ڈاکٹر صاحب نے جس نقطہ نظر کو درست سمجھا اس پر تندہی سے کام کیا اپنی ذات اور اپنے خاندان کو اس میں شامل کیا اور ہر فورم کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا۔
پچھلی نصف صدی عالم اسلام میں تحریکوں کے جنم لینے کی صدی ہے۔ہندوستانی تحریکوں میں جماعت اسلامی؛تبلیغی جماعت اور دیوبند کی تحریکیں ہمہ گیر اور دور رس ثابت ہوئی ہیں۔ان پیرنٹ(parent)جماعتوں سے پھر اور تحریکوں نے جنم لیا جن کا مقصد اُس خلا کو پُر کرنا تھا جو کہیں نہ کہیں رہ ہی جاتا تھا۔اگر جماعتیں بنتی رہی ہیں تو ہندوستان کو چیلنج بھی ایک قسم کا نہیں تھا۔عقائد کی خرابیاں؛ایمان کے مفہوم میں اجنبی فلسفے ؛بدعات؛خرافات؛بدعملی؛منہج اہل سنت میں ابہام؛ منہج تلقی کا فقدان اوروحدتِ امت کے تصور سے دور تو ہماری اپنی اندر کی خرابیاں تھیں اس پر مستزاد استعمار کے لائے ہوئے نئے نئے ازم ۔ہندوستان میں ان سب سے نبردآزما ہونے کے لیے ایک یا چند تحریکیں نا کافی تھیں۔ اس لیے اگر یہاں متعدد تحریکیں پائیں گئی ہیں تو یہ برصغیر کے فکری اور منہج کے الجھاؤ کی وجہ سے ایک طبعی عمل ہے۔تنظیم اسلامی کو ہم اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔شیطان کی البتہ یہ چال ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے کام کرنے والی تحریکوں کو باہم متصادم کر دے ۔
ڈاکٹر اسرار نے جس اعلیٰ مقصد کے لیے تنظیم بنائی تھی اس کی بھی بر صغیر میں ضرورت ہے۔تبھی تو ڈاکٹر اسرار نے پاکستان سے باہر خصوصاً ہند وستان میں بے حد مقبولیت پائی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ برصغیر میں اہل سنت و الجماعت کی پائی جانی والی مختلف تحریکیں اور تنظیمیں ایک ہی کام کو مکمل کر رہی ہیں اور وہ ہے یہاں کے مسلمانوں کو شعوری طور پر بیدار کرناتا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات پر اپنے آپ کو اور اپنے معاشرے کوموجودہ زمانے کے مطابق ڈھال سکیں۔اس قاعدے کی رو سے کسی عام مسلمان کا اسلامی تنظیموں میں شامل ہونااسلامی عمل کو آگے بڑھانے کا باعث ہے۔ تاہم کسی خاص جماعت میں ہونا یا اختلاف کی صورت میں یا بلا اختلاف کسی اور جماعت کے طریقے کو اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے زیادہ مناسب سمجھ کر اس کی رکنیت اختیار کرنابالکل درست رویہ ہے۔
تنظیم اسلامی بھی اہل سنت و الجماعت کی ایک نمائندہ تنظیم ہے۔تنظیم جاہلی رسم و رواج کا رد کرتی ہے؛عام مسلمان کو قرآن مجید سے جوڑتی ہے؛پاکستان میں اللہ کی شریعت نافذ کرنے اور خلافت کے قیام کی شبانہ روز محنت کرتی ہے؛افراد میں انکساری اور ڈسپلن پیدا کرتی ہے؛دین کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کرناسکھاتی ہے؛خلافت اگر پاکستان کے علاوہ کہیں اورقائم ہوتی ہے تو تنظیم وہاں ہجرت کرنے کو واجب سمجھتی ہے اس طرح تنظیم نظریاتی طور پر کسی قطر یا خطے تک اپنے آپ کو محدود نہیں سمجھتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی رحلت کے ساتھ اُس کہانی کا ایک اور باب اپنے اختتام کو پہنچا جس کے پہلے سر خیل شاہ ولی اللہ دہلوی تھے۔خانقاہوں سے نکال کر دین کو معاشرے کی حقیقت بنانے کا مبارک کام جن شخصیات نے کیاتھا اس کی اب تک کی آخری کڑی ڈاکٹر اسرار تھے۔اس سلسلۂ فکر کی یہ کڑی اپنا فرض نبھا کرباقی کا کام آنے والوں کے لیے چھوڑ کراپنے ساتھیوں سے جا ملی ہے۔ناتوانی میں بھی اس قافلہ خیر و برکت کو کیا ہی اچھے حدی خواں ملے تھے۔اب اس قافلے کو اور بھی سبک رفتاری سے چلنا ہے۔ ایک نئے جذبے اور نئے آہنگ کے ساتھ۔عمل کو علم سے اور تحریک کو دعوت سے بر آمد کرتے ہوئے ۔
ڈاکٹر اسرار کی زندگی ہمارے نوجوانوں کے لیے نمونہ ہے۔ایک ایسا کردار جو تعلیم کے ساتھ تحریک کے تقاضوں کو نبھانا جانتا تھا۔جو حق کے لیے جیا حق پر رہا حق پر مرا۔(و لا نزکّی علی اللہ احداً)
خدایا ان کی قبر کو روضۃ من ریاض الجنۃ بنا۔ان کے اہل خانہ کو صبر کی توفیق عطا فرما۔ تنظیم کی قیادت کو توفیق دے کہ وہ تنظیم کو اس کے نصب العین کے مطابق چلاسکیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اقامت دین کی جو کوشش کی اسے قبول فرما ؛ اس کی تکمیل فرما۔تمام مسلمانوں کو عمل بالمعروف میں متحد فرما۔نہی عن المنکر کے خاتمے کے لیے قوت عطا فرما۔آمین

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments