Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

اخوان المسلمونIkhwan ul Muslimoon

دبئی ۔ العربیہ
مصرکی مسلح افواج کے ماتحت عبوری حکومت نے منظم عالمگیر نیٹ ورک رکھنے والی مذہبی سیاسی جماعت اخوان
المسلمون کو وزارت سماجی امور میں رجسٹرڈ ایک مقامی "این جی او" کے طور پر ڈیل کرنا شروع کیا ہے۔ عبوری کابینہ جماعت کو ایک این جی او ہی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے حالانکہ اخوان المسلمون دنیا کے 72 ملکوں میں 10 کروڑ کارکنوں پر مشتمل ایک عظیم طاقت ہے۔
اخوان المسلمون کے قیام کا سہرا بیسویں صدی میں مصر کے ایک سرکردہ ماہر تعلیم اورعالم دین حسن البناء کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے سنہ 1928ء میں جماعت کی بنیاد رکھی لیکن جلد ہی جماعت کے خفیہ سیل کی وجہ سے عرب ممالک میں اسے خطرہ سمجھا جانے لگا ۔
اپنے قیام کے بعد اخوان المسلمون کا پہلا ہیڈ کواٹرساحلی شہر اسماعلیہ میں بنایا گیا۔ آغاز میں اخوان المسلمون نے اپنے مقاصد میں تبلیغ دین، اصلاح معاشرہ اور اخلاقیات کی اصلاح پر زور دیا۔ سنہ 1932ء میں جماعت کا مرکز قاہرہ منتقل کیا گیا تاہم سیاسی سرگرمیوں کا آغاز سنہ 1938ء کے بعد ہوا۔
قیام کے پہلے ہی دن سے جماعت نے اسلام کو ملک و قوم کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کے حل کی 'شاہ کلید' قرار دیا اور وقت نے ثابت کیا کہ اخوان المسلمون کے کارکن اور رہ نما اسلام کے نعرے کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں۔
جب تک جماعت محض زبان کے ہتھیار سے اصلاح معاشرہ پرقائم رہی تو اس پر کوئی بڑا اعتراض نہیں اٹھا لیکن جب اس نے ہتھیار کی زبان میں بات کرنے کے لیے ایک خفیہ عسکری ونگ قائم کیا تو اس کے بعد سے تنظیم کی مشکلات کا آغاز ہوا۔ مختلف مواقع پرجماعت نے طاقت کے استعمال کا جواب طاقت سے دینے کی پالیسی اپنائی۔ جمال عبد الناصر اور دیگر قوم پرست عربوں کے قومی وطن کے تصور کو مسترد کیا۔ نیز کئی دوسرے عرب ملکوں میں بھی اپنا اثرو رسوخ بڑھا کر ان میں وطنیت کے بت پاش پاش کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔
چونکہ تنظیم اخوان المسلمون کی بنیاد مصر میں رکھی گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی مصر ہی کو جماعت کا بیس کیمپ کہا جاتا ہے، لیکن اب اس کی جڑیں صرف مصر تک محدود نہیں رہیں بلکہ یہ ایک منظم عالمگیر تنظیم بن چکی ہے، جس کے دنیا کے 72عرب، اسلامی اور غیر مسلم ملکوں میں دس کروڑ سے زیادہ منظم کارکن موجود ہیں۔ مصرمیں بھی جماعت کے ارکان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments